مودی کا مشن… پاک بھارت جنگ

نریندر مودی نے جتنا بھارت کو نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی سابقہ وزیراعظم نے پہنچانے کا سوچا تک نہیں تھا


عثمان دموہی August 25, 2016
[email protected]

نریندر مودی نے جتنا بھارت کو نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی سابقہ وزیراعظم نے پہنچانے کا سوچا تک نہیں تھا۔گوکہ وہ خودکو ایک مہان دیش بھگت سمجھتے ہیں اوربھارت کی توقیر بڑھانے کے لیے اپنی جان تک نچھاورکرنے کے لیے ہمہ وقت تیار نظرآتے ہیں مگر موصوف نے عین آزادی کے دن اپنے جارحانہ جذبات کا اظہارکرکے بھارت کو اقوام عالم کے سامنے برہنہ کردیا ہے۔

بھارتی حکومتوں کی وہ زیادتیاں اور سیاہ کاریاں جو کشمیر پر قبضے کے بعد سے کشمیریوں پر روا رکھی گئی تھیں اب تک صیغہ راز میں تھیں مودی نے انھیں پوری دنیا پر آشکارکردیا ہے۔اندرا گاندھی سے لے کر من موہن سنگھ تک یہ صفائی پیش کرتے نہیں تھکتے تھے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کا ذرا ہاتھ نہ تھا اب وہ راز بھی راز نہیں رہا، مودی نے بڑے فخر سے پاکستان کو توڑنے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔

بھارتی حکومتیں یہ بھی دعویٰ کرتی چلی آرہی ہیں کہ بلوچستان کی دہشت گردی میں ان کا کبھی کوئی ہاتھ نہیں رہا ہے یہ راز بھی مودی نے لال قلعے کی فصیل پر کھڑے ہوکر اپنے بھاشن کے ذریعے ببانگ دہل کھول دیا ہے۔ بھارت کے سارے دانشور اب متحد ہوکر مودی کے مستقبل کے بارے میں غورکررہے ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ دنگ ہے کہ عوام نے کس انتہا پسند اور ڈپلومیسی سے نابلد شخص کواپنا وزیراعظم چن لیا ہے جو بھارت سے حب الوطنی کے پردے میں دشمنی بگھار رہا ہے۔ موصوف کی مزید چابک دستی ملاحظہ فرمائے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارتی عہدیداران کی جانب سے کشمیریوں پرکھلی ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے پر بھارتی آئین کی دفعہ 124-A کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ۔

جس کے تحت کسی بھی شخص یا گروپ کو حکومت یا ملک کے خلاف بولنے یا لکھنے پر غدار قرار دے کر عمر قید یا پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک عالمی تنظیم ہے وہ حقوق انسانی کا ایک آزاد ادارہ ہے جو امریکا تک میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریز نہیں کرتا۔اب مودی حکومت نے اس تنظیم کے اہلکاروں کے خلاف اپنے آئین کے تحت جوکارروائی کی ہے۔ اس سے بھارت کا چہرہ مزید داغدار ہوگا ساتھ ہی مسئلہ کشمیر جسے اب تک تمام بھارتی حکومتیں خفیہ رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔اس کا پوری دنیا میں کھل کر پرچار ہوگا۔اس وقت مودی نے کشمیریوں کو دبانے کے لیے جو ظالمانہ اور احمقانہ پالیسی اختیارکر رکھی ہے اس کے خلاف خود بھارتی سیاستدان اور سفارت کار کھل کر تنقید کررہے ہیں اور مودی کو بھارت کو بدنام کرنے سے باز رکھنے اور معقول سیاسی رویہ اختیارکرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مودی نے بلوچستان کی آزادی کی بات کرکے بھارت کی تمام شمال مشرقی ریاستوں اور خالصتان کی آزادی کا راستہ کھول دیا ہے۔

مودی سے بھارتی دانشور اور سیاستدان اس لیے بھی مایوس ہیں کیونکہ وہ آر ایس ایس کی مسلمانوں کے خلاف قتل وغارت گری کی پالیسی پرکاربند ہیں وہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے پہلے ہی پوری دنیا میں اپنا امیج خراب کرچکے ہیں اور اب کشمیریوں پرکھلی بربریت کے ذریعے کشمیر پر بھارت کے کمزور موقف کو مزید تباہ کررہے ہیں۔ بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے مودی کو اندرا کے بعد بھارت کا خطرناک ڈکٹیٹر قرار دیا ہے۔ جہاں تک بھارتی آئین کی شق 124-A کا تعلق ہے یہ پہلے انگریزوں کے ہندوستان کے لیے بنائے گئے آئین میں شامل تھی۔

انھوں نے 1857 کی غدر کے بعد حالات کو اپنے قابو میں رکھنے اور ہندوستانیوں کو آزادی کے حق میں آواز اٹھانے سے روکنے کے لیے یہ قانون بنایا تھا۔ آزادی کے بعد بھارتی پارلیمنٹ کو اس نوآبادیاتی قانون کو حذف کرنے کی ضرورت تھی مگر انھوں نے بھارتی آئین میں بھی اسے جاری رکھا اس سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی آئین آزادی اظہار کی اجازت نہیں دیتا چنانچہ بھارتیوں کا بھارت کو ایک آزاد جمہوری اور سیکولر ملک قرار دینا فریب کے سوا کچھ نہیں ہے پھر بھارتی حکمران تو کشمیریوں کی حق خود اختیاری کی تحریک کو کچلنے کے لیے پوٹا جیسے انسانیت کش قانون کو لاگو کرکے اس نوآبادیاتی جابرانہ قانون سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔

اگر کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انھیں زبردستی کیوں بھارتی بننے پر مجبورکیا جا رہا ہے۔ یہ سوال بھارتی دانشور اپنے حکمرانوں سے کر رہے ہیں ان لوگوں میں ارون دھتی رائے، نیابک بین،کنہیا کمار اور برکھا دت بھی شامل ہیں مگر مودی سے پہلے بھارت کی کانگریسی حکومت بھی کشمیریوں کی بات کرنے والوں کے خلاف بھارتی آئین کی ایسی شق 124-A کے تحت غدار قرار دے کر مقدمات قائم کرچکی ہے۔ بھارتی حکمران بڑی ڈھٹائی سے کشمیرکو اپنا اٹوٹ انگ اور اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں مگرکشمیرکے راجہ ہری سنگھ کا بیٹا کرن سنگھ تک اس منطق کو ماننے کو تیار نہیں ہے اس کا کہنا ہے کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کی جاگیر نہیں ہوسکتا۔

کیونکہ یہ ریاست کبھی بھی بھارت میں ضم نہیں ہوئی ادھر کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور ان کے والد فاروق عبداللہ بھی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ماننے کو تیار نہیں ہیں وہ کشمیر کو ایک خود مختار ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں وہ کشمیر کے موجودہ بگڑے حالات کا ذمے دار پاکستان کے بجائے مودی کو قرار دے رہے ہیں۔ بعض بھارتی تجزیہ کار مودی کے کشمیر میں جان بوجھ کر حالات خراب کرنے اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کو ان کی بھارت کی تین ریاستوں میں عنقریب ہونے والے انتخابات کی مہم جوئی کا حصہ قرار دے رہے ہیں وہ گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان کارڈ استعمال کرکے ملک گیر کامیابی حاصل کرچکے ہیں مگر شاید اس دفعہ مودی کا داؤ خالی جائے کیونکہ اب بھارتی عوام مودی کی نفرت انگیز اور احمقانہ سیاست کو خوب سمجھنے لگے ہیں۔

بہرحال مودی کو زیادہ خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ نہ تو امریکا کی کشمیر سے متعلق پالیسی تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کشمیرکے مسئلے سے لاتعلق ہے۔ یو این کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کشمیر کے موجودہ خونی حالات کا نوٹس لیتے ہوئے مودی حکومت کی سخت مذمت کی ہے اورکشمیر میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا اعلان کیا ہے تاہم اب تک کسی بھارتی حکومت نے کسی عالمی حقوق انسانی کی تنظیم کو مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔ دراصل بھارت کا یہ رویہ اس کے کشمیر پر جھوٹے دعوے کا آئینہ دار ہے۔

بھارت کی سابقہ حکومتیں کشمیر پر پاکستان سے باقاعدگی سے مذاکرات کرتی رہی ہیں مگر مودی نے مذاکرات سے انکار کرکے بھارت کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے جس سے سوئی ہوئی عالمی توجہ پھرکشمیریوں کی جانب مبذول ہوگئی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ یہ مسئلہ کبھی کا حل کرا چکی ہوتی اگر بھارت اسرائیل کو تسلیم کرکے امریکی خوشنودی کا حق دار نہ بنتا۔امریکا نے اس مسئلے کو جان بوجھ کر نظرانداز کرادیا ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو پھر اسرائیل کو بھی فلسطینیوں کو حق خود اختیاری دینا پڑے گا۔

بہرحال اب کشمیری کفن باندھ کر میدان کارزار میں اتر چکے ہیں اور لگتا ہے اب وہ آزادی حاصل کرکے ہی دم لیں گے چنانچہ پاکستان کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوچکا ہے اسے اب سوچ سمجھ کر بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ اس کی جانب سے کشمیریوں کو کوئی شکایت نہ ہونے پائے ساتھ ہی اب بھارت سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کرنے سے کسی طور بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، ویسے پاکستان خبردار رہے کہ مودی کا مشن پاک بھارت جنگ کرانا ہے کیونکہ یہ آر ایس ایس کی فرمائش ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں