حکمرانی کا حق
جس ملک کی سیاست ذاتیات وشخصیات کے گرد گھومتی ہو بلکہ چند افراد کے قبضے میں ہو
جس ملک کی سیاست ذاتیات وشخصیات کے گرد گھومتی ہو بلکہ چند افراد کے قبضے میں ہو، وہاں نظریاتی، عوام دوست اورحب الوطنی کی سیاست کبھی پنپ ہی نہیں سکتی۔ بلکہ ایسی کوشش کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دینا شخصی اور وراثتی سیاست کے حامیوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ایسے ملک میں ملکی سالمیت و وقار کے خلاف نعرے لگیں، ملکی نظریاتی اساس کے منافی رویے اختیار کیے جائیں یا ملک کی ثقافتی املاک کو اپنی ذاتی شہرت کی خاطر نقصان پہنچایا جائے۔ میری ''ناقص رائے'' میں برابر کے جرائم ہیں یعنی ان کی ملک دشمنی ہی قرار دیا جائے گا۔
اب کمزور اور طاقتور کے فرق کے باعث انصاف کے انداز بدل جائیں تو وہ ایسے ملک میں جہاں کوئی بھی ادارہ اپنا کام کرنے کے علاوہ ہر وہ کام کر رہا ہو جس کا اس کو اختیار نہ ہو کوئی حیران کن بات نہیں ہوتی۔ کراچی میں پیر کو پیش آنے والی صورتحال جو بے قابو ہونے سے بہرحال محفوظ رہی کیونکہ رینجرز اہلکاروں نے اس پر بہت جلد اور مکمل طور پر قابو پا لیا تھا۔ صورتحال کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں اور مقامی قائدین نے اپنے لاپتہ، ماورائے عدالت قتل، اور بلاجواز (بلاتحقیق) گرفتاریوں پر مسلسل زبانی، بیانی اور پرامن احتجاج کے بعد عملی احتجاج بھوک ہڑتال کی صورت میں کیا جو تقریباً پانچ روز جاری رہی کئی ہڑتالیوں کی حالت بگڑنے پر انھیں اسپتال منتقل کیا گیا، کراچی کی اہم شخصیات ان سے اظہار یکجہتی کرنے کیمپ میں آتے رہے صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت کی گئی نہ ہی ہمدردی یا توجہ کا اظہار ہوا۔
ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم بھی اس دوران کراچی تشریف لائے، اطلاعات تھیں کہ وہ ایدھی صاحب اور امجد صابری کے لواحقین سے تعیزت کرنے بھی تشریف لے جائیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا، ہڑتالی کیمپ کا دورہ تو اس صورت میں ان کے منصب اعلیٰ کے منافی تھا کہ ہڑتالی شاید ان کی نظر میں پاکستان کے شہری تھے نہ اپنے حق کے لیے کسی احتجاج کے حقدار۔ مگر ایدھی صاحب جیسی عظیم شخصیت کو یوں نظرانداز کرنا جس رویے کا اظہار ہے اس کو ہم کوئی نام نہ بھی دیں تو ہر پاکستانی کے لیے باعث حیرت ضرور ہے۔
منتخب حکمراں جو کہ عوامی نمایندہ ہوتا ہے اپنی پارٹی کی ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا وزیر اعظم ہوتا ہے لہٰذا اس کا سلوک سب کے ساتھ یکساں ہونا چاہیے یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بھوک ہڑتالی کیمپ میں ایم کیو ایم کے (معلوم نہیں سابق یا اب تک بدستور موجود) قائد کے خطابات قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ قابل مذمت اور شرمناک ضرور تھے۔ حکومت پاکستان اور ایم کیو ایم مخالف لابی عرصے سے ایسے ہی موقعے کی تلاش میں تھی کہ موصوف کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر اس جماعت کا قلع قمع کر دیا جائے اس کوشش میں پہلے بھی کئی کارروائیاں ہو چکی تھیں مگر یہ ایسی سخت جان تھی کہ ہر بار مر کر زندہ ہو جاتی۔کراچی کے اصلی مسئلے پر کسی نے غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کسی پر الزام لگا دینے سے مسئلہ حل ہوتا بھی نہیں بلکہ اس کی جڑوں تک پہنچ کر وجوہات کا ادراک کر کے مسئلے کو حل کیا جائے تو نتائج جلد سامنے آ جاتے ہیں لہٰذا کراچی کی صورتحال عرصے سے 20-19 چلی آ رہی ہے۔ البتہ ضرب عضب کی کامیابی کے باعث کراچی (بلکہ پورے ملک کی) کے حالات میں کچھ بہتری آئی جس کو حکومت سندھ نے اپنا اور اہلکاروں نے اپنا کارنامہ قرار دیا۔
کراچی کی صورتحال پر وزیر اعظم نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، ایک ایک لفظ کا حساب کیا جائے گا، اس بیان کے ایک ایک حرف سے حب الوطنی کا اظہار ہو رہا ہے۔ بے شک یہی ہونا چاہیے مگر یہ بیان کچھ نامکمل سا لگتا ہے انھیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ ملک کے لوٹے ہوئے ایک ایک پیسے اور ملکی نظریے کے خلاف ہر عمل کا بھی حساب لیا جائے گا۔ بلوچ رہنماؤں اور ایم این ایز کے باغیانہ بیانات اور تقاریر پر بھی فوری ایکشن لینا ضروری تھا جس پر اب تک کوئی ردعمل سامنے نہ آسکا (حکومتی) اس سے قبل کئی ایسے مواقع پیش آچکے ہیں کہ وطن کی آزادی و خودمختاری پر ہرزہ سرائی کی گئی مگر کسی کے بھی خلاف اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی اور وہ وطن کی سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں۔
تو ایک سیاسی جماعت کے بیرون ملک بیٹھے شخص کی ہرزہ سرائی کی سزا یہاں موجود رہنماؤں اور کارکنوں کو فوراً دی جانے میں کیا راز پوشیدہ ہے؟ جب کہ اس نازیبا اور ملک دشمن تقریر سے قبل بھی اس جماعت کے کارکنان مسلسل عذاب و سزا سے گزر رہے ہیں۔ بے شک یہ بیان اور واقعہ بے حد قابل اعتراض اور قابل گرفت ہے مگر قومی اقدامات سب کے لیے یکساں ہوں تو ملک یوں بھی بڑے مسائل میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مثلاً بلوچ رہنما کو گرفتار فوراً کیا گیا؟ ایم این اے کو ان کی اسمبلی رکنیت سے بے دخل کیا گیا؟ صاف بات ہے کہ پاکستان میں اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی ہے (یعنی سب کو کھلی چھٹی ہے) مگر جس جماعت سے جاگیرداروں وڈیروں اور قومی خزانے کے لٹیروں کو اپنے مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں ۔
اس کی روز اول سے مخالفت اور منفی پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ کسی کو بار بار چور کہا جائے گا تو وہ معاشرے میں کوئی مثبت کردار تو ادا کرنے کے قابل نہیں رہ سکتا۔ شاید موجودہ صورتحال بھی اسی رویے کا ردعمل ہو۔ بہت دور کی بات نہیں قصہ ہے نصف صدی سے کم کا کہ ملک کے دولخت ہونے کا پس منظر بھی ایسے ہی حالات تھے اب تو کچھ قلم کار بھی واضح طور پر لکھنے لگے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کی وجہ ہمارا رویہ تھا۔ مگر اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی رویے تبدیل نہ ہوں اور ایسی قوم کو جس نے تشکیل پاکستان میں (موجودہ تمام صوبوں سے) بڑھ کر قربانیاں دیں تعمیر وطن میں مثبت کردار ادا کیا، محض وڈیروں، جاگیرداروں نے اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے کبھی ان کو پناہ گیر، بھوکے ننگے، کالے کلوٹے قرار دے کر بحیثیت پاکستانی نہ صرف قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کو تمام تر حقوق سے محروم کرنے کے اقدامات کیے گئے۔
مثلاً کوٹہ سسٹم صرف سندھ میں کیوں؟ کیا باقی صوبوں میں شہری و دیہی عوام کو یکساں تعلیمی، طبی اور روزگارکے مواقعے میسر ہیں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مایوسی اور احساس محرومی کے نتائج ملک کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ہوتے ہیں جب کہ کردہ و ناکردہ تمام گناہوں کا بوجھ اپنے سر اٹھانے والے اس طبقے نے بیروزگاری، لاشیں اٹھانے اور اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کے غم کو جھیل کر بھی اب تک کوئی بڑا احتجاج جیسا کہ دوسری سیاسی جماعتیں کرتی رہتی ہیں نہیں کیا۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ رویے تبدیل کیے جائیں ہم تو مشورہ (مخلصانہ) ہی دے سکتے ہیں عمل کرنا نہ کرنا تو صاحبان اقتدار کا اختیار ہے (قانونی نہیں ذاتی) مگر لگتا ہے کہ اس ملک پر حکومت صرف وڈیرے اور لٹیرے ہی کر سکے ہیں شرفا کے لیے تو اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرنے کا ہی راستہ رہ گیا ہے۔