’’یہ بھی کوئی زندگی ہے۔۔۔‘‘

سماجی میڈیا سے جنم لیتا احساس محرومی، نجات کیسے ممکن ہے؟


Munira Adil August 28, 2016
سماجی میڈیا سے جنم لیتا احساس محرومی، نجات کیسے ممکن ہے؟۔ فوٹو: فائل

فی زمانہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں لازمی سرگرمی کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا کی ویب سائٹس نے دنیا بھر میں اپنے صارفین کو سماجی رابطے بڑھانے اور مضبوط کرنے کا ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے کہ دنیا بھر میں فیس بک کے صارفین کی تعداد ایک ارب 65 کروڑ جب کہ ٹوئٹر کے صارفین کی تعداد 30 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جب کہ ہر ایک سیکنڈ میں 6 ہزار ٹوئٹس اور اس کے رد عمل میں ہر ایک منٹ میں 3 لاکھ 50 ہزار جوابی ٹوئٹس کی جاتی ہیں اور ایک سال میں 2 کھرب ٹوئٹس کی جاتی ہیں۔

یہ اعداد و شمار سماجی رابطے کی ویب سائٹس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سوشل میڈیا کے منفی اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بالخصوص انسانی نفسیات پر ہونے والے اثرات، جن میں شخصیت میں اعتماد کی کمی سرفہرست ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر دکھاوے کی ایک ایسی لا حاصل جنگ جاری ہے جو اکثریت کو احساس محرومی کا شکار کررہی ہے۔

یہ در حقیقت ایک مصنوعی دنیا ہے جہاں ایک سانولے اور کم پرکشش چہرے کو فلٹرز کی مدد سے خوب صورت بناکر پوسٹ کیا جاتا ہے تو تعریف و توصیف کے سیکڑوں کمنٹس تصویر کو پوسٹ کرنے والے کے لیے بہت بڑی کام یابی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایک تحقیق میں وہ افراد جو روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ ان ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں ان میں سوشل میڈیا کے استعمال اور نفسیاتی مسائل کے درمیان تعلق دریافت کیا گیا ہے۔ خصوصاً نوجوان اس کا سب سے زیادہ اثر قبول کرتے ہیں۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر پوسٹ کی ہوئی تصویر یا مواد پر دوستوں کا جو ردعمل ہو نوجوان خود کو ویسا ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ بعض نوجوان اس سرگرمی کو اس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ اگر کسی پوسٹ پر حسب توقع لائکس موصول نہ ہوں تو ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

اکثر طلبا اپنے دوستوں کے گروپ کی ایسی پوسٹ دیکھ کر دکھی ہوجاتے ہیں جس میں وہ دوست سیر و تفریح کررہے ہوں یا کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہوں جو وہ خواہش رکھنے کے باوجود نہ کرپاتے ہوں۔ اسی طرح وہ خواتین جو گھریلو یا ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہوں یا ناخوش ہوں سوشل میڈیا پر خوش وخرم جوڑوں کی تصویریں ان کے لیے اداسی کا سبب بنتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر حاصل ہونے والے لائکس یا کمنٹس کی بنیاد پر خوشی یا غمی کے جذبات در حقیقت لوگوں میں احساس محرومی اور احساس کمتری پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر یا مختلف اسٹیٹس (Statas) وغیرہ دکھاوے کی ایک ایسی شکل ہے جس نے خاموشی سے پورے معاشرے کو اپنے جال میں جکڑ لیا ہے جو حسد کا باعث بھی بنتا ہے۔ لوگ تصاویر دیکھ کر ایسا بھی سوچ سکتے ہیں کہ شاید ان کے علاوہ باقی تمام لوگ اپنی زندگیوں میں خوش اور مطمئن ہیں، جب کہ اکثر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ دکھاوے کی اس دوڑ میں لوگ پیسے کا زیاں بھی کرتے ہیں اور بسا اوقات پوسٹ کی جانے والی تصویر یا تحریر خاندان میں غلط فہمیوں کی بنیاد بھی بن جاتی ہے۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ متوسط، کچھ امیر اور کچھ امیر تر۔ اکثریت کی یہ عادت ہے کہ اپنی زندگی کے حالات وواقعات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مادی آسائشات اور پر تکلف کھانوں کی تصویریں شیئر اور احوال بیان کرتے ہیں۔ اس سے ان لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہورہا ہے جنھیں یہ سب میسر نہیں ہے۔ اس لیے تو ہمیں سوشل پر ایسے نام ملتے ہیں پرنس فلاں، پرنسز فلاں، سنڈریلا وغیرہ۔

فیکس بک پر خواتین سے متعلق اشیا کے صفحات کی بھرمار ہے۔ خاص طور پر کپڑوں کے صفحات کی ہر طرح کے برانڈز اور ریپلیکا (Replica) یعنی اسی لباس کی ہوبہو نقل کی تصویریں پوسٹ کی جاتی ہیں، جن کی قیمتیں اکثریت کی قوت خرید اور استعداد سے باہر ہوتی ہیں۔ جو خواتین انھیں اپنے مالی مسائل کی وجہ سے نہیں خرید سکتیں وہ احساس محرومی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مادی آسائش کو حاصل کرنے کی خواہش میں بعض نادان لڑکیاں اپنا گھر چھوڑدیتی ہیں یا غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ شادی شدہ خواتین کے شوہر ان کی فرمائشیں پوری نہ کرپائیں تو احساس محرومی پیدا ہونے کی صورت میں وہ خواتین اپنے شوہر کو بھی چھوڑسکتی ہیں۔

اسی طرح اکثر طلبا جب اپنے ہم جماعتوں کی تصاویر اور پوسٹس دیکھتے ہیں تو وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سب کا تعلق صرف گھومنے پھرنے یا منہگے ریستوراں میں کھانے کی تصاویر سے ہی نہیں ہوتا بل کہ ساتھی طلبا کو کسی اچھی کمپنی میں انٹرن شپ یا ملازمت مل جائے تب بھی وہ یاسیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ماہرین کی رائے میں اپنی ذات کا دوسروں سے موازنہ کرنا یا سماجی تقابل انسانی فطرت ہے۔ انسان دوسروں کی طرف دیکھتا ہے، دوسروں سے سیکھتا ہے اور محض سامنے نظر آنے والے مناظر کی بنا پر خود کو کمتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ درحقیقت مکمل کہانی سے آگاہ نہ ہونے کی بنا پر وہ منفی سوچ کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے مواد یا تصاویر کی پس پشت کیا عوامل ہیں، کسی نے پرانی اچھی ملازمت چھوڑ کر نئی ملازمت کیوں جوائن کی، تصاویر میں خوش اور مطمئن نظر آنے والے لوگوں میں سے کسی کے رشتوں میں کیا مشکلات ہیں؟ کسی کو کیا بیماری ہے؟ کوئی مالی مسائل میں الجھ کر معاشی خوش حالی کے لیے تگ و دو میں مصروف عمل ہے؟ یہ سب لوگ پوسٹ نہیں کرتے، لہٰذا یہ سب سے پوشیدہ رہتا ہے۔ درحقیقت ہم تصویر کے دونوں رخ دیکھے بغیر خود کو کوسنا شروع کردیتے ہیں اور بدقسمت یا بے وقعت سمجھنے لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے جب یہ محسوس کریں کہ وہ مسلسل اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں کے فیکس بک پر پوسٹ کیے جانے والے فوٹو المبز اور پوسٹ سے کررہے ہیں تو اس رجحان کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فیس بک پر اپنی نیوزفیڈ کی صفائی کریں دوستوں کی پوسٹس کو ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت نہیں سیٹنگ تبدیل کرلیں اس طرح اس شخص کی پوسٹ نیوز فیڈ میں نظر نہیں آئیں گی۔ اس کے علاوہ ایسے گروپ یا پیجز جوائن کریں جو آپ کی خوداعتمادی میں اضافہ کریں، جو اپنی قدروقیمت کا احساس دلائیں۔ ایسے لوگ جو مسلسل آپ کی پوسٹ یا تصاویر وغیرہ پر تنقیدی کمنٹس دیتے ہیں ان کو اپنے دوستوں کی فہرست سے نکال دینا بہتر ہے۔

بچے بہت حساس ہوتے ہیں اور ہر بات کا اثر جلد قبول کرلیتے ہیں لہٰذا بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے اوقات میں ان کے ساتھ رہیں۔ انہیں سمجھائیں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی جگہ جاتا ہے اور مسلسل چیک ان پوسٹ کرتا ہے یا پھر کھانے سے پہلے کھانوں کی تصاویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے تو اس طرح وہ دکھاوا کر رہا ہے۔

اسی طرح بالغ افراد سوشل میڈیا کی وجہ سے ہونے والی اُداسی یاسیت اور دیگر نقصانات سے بچنے کے لیے سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت صرف نہ کریں۔ خود کو سکون پہنچانے کے لیے آن لائن دنیا سے وقفہ لینے کی کوشش کریں۔ اگر مسلسل اپنے فون، ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں تو اب یہ وقت ہے کہ آپ ان سب کو ایک جگہ پر رکھ کر ایک وقفہ لیں۔

اگر آپ حقیقتاً سماجی رابطے رکھنے کے خواہش مند ہیں تو حقیقی دنیا میں لوگوں سے ملیں باتیں کریں یقینا زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں