سیاست کا بے لوث سپاہی
اول، 70 برس گزر جانے کے باوجود ریاست کے منطقی جواز کی گتھی سلجھائی نہیں جا سکی
اس دنیا کی رنگارنگی ان لوگوں کے دم قدم سے ہے، جو اپنے مفادات کے بجائے عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنی زندگی تیاگ دیتے ہیں۔ زندہ قومیں وقتاًفوقتاً کسی نہ کسی شکل میں ایسے بے لوث وبے غرض افراد کی خدمات کا اعتراف کرتی رہتی ہیں۔ مگر پاکستانی معاشرہ مختلف وجوہات کی وجہ سے صائب سوچ کی ترویج اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔
اول، 70 برس گزر جانے کے باوجود ریاست کے منطقی جواز کی گتھی سلجھائی نہیں جا سکی، جس کی وجہ سے حکمران اشرافیہ ہر وقت قومی سلامتی کے خوف میں مبتلا رہتی ہے۔ نتیجتاً ہر اس شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جو ریاستی بیانیہ سے مختلف بات کر رہا ہو۔ دوئم، معاشرہ فکری بالیدگی کی اس سطح پر نہیں پہنچ سکا ہے، جہاں مختلف الخیال اہل دانش، محققین اور بے لوث سیاسی وسماجی کارکنوںکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے بارے میں معلومات نئی نسل تک پہنچائی جا سکیں۔ سوئم، مردہ پرست ہونے کی وجہ سے اپنے بزرگوں، محسنوں اور احباب کی خوبیاں اس وقت یاد آتی ہیں، جب وہ اس دنیا میں نہیں رہتے۔ ان کی زندگی میں ان پر اظہار خیال میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔
اس روایت کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ ان اکابرین کی کاوشوں اور خدمات کو نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے، جن کا بیانیہ بے شک حکمران اشرافیہ کے بیانیہ سے مختلف رہا ہو، مگر اپنی سوچ اور قول وفعل کی صداقت کے باعث عوام میں عزت وتوقیر کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں صف اول کے رہنما بھی شامل ہیں اور وہ سیاسی دانشور بھی، جنھوں نے اپنے قلم کی طاقت سے ایسی معرکۃ الآرا دستاویزات تحریر کیں، جو ملک کا مقدر بدلنے کی صائب کوشش تھیں۔ یہ دستاویزات، جن میں سیاسی جماعتوں کے منشور، مضامین اور جاری ہونے والی پریس ریلیز شامل ہیں۔
ایسی ہی ایک شخصیت کا نام بیاتل محی الدین کٹی ہے، جو عرف عام میں بی ایم کٹی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ کٹی پاکستان کے سیاسی افق پر موجود وہ شخصیت ہیں، جنھوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک نہ صرف عملی سیاست میں حصہ لیا بلکہ اس دوران منظرعام پر آنے والی بیشتر سیاسی دستاویزات ان کے زور قلم کا نتیجہ رہی ہیں۔ ان کی زندگی ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ اور خطے میں پائیدار امن سے مشروط رہی ہے۔ آج بھی پیرانہ سالی اور بیماریاں جوجھنے کے باوجود وہ اپنے آدرش کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں۔
بی ایم کٹی بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مالابار سے حاصل کی۔ مدراس (تامل ناڈو) سے گریجویشن کرنے کے بعد 1949ء میں پاکستان آ گئے۔ ان کی پہلی منزل کراچی تھی۔ پھر بسلسلہ ملازمت لاہور چلے گئے۔ پانچ برس لاہور میں مختلف غیر ملکی کمپنیوں میں ملازمت کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ کراچی واپسی پر انھوں نے باضابطہ طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان کا تعلق بنیادی طور پر کمیونسٹ پارٹی سے رہا ہے، جس کی ہدایت پر دیگر ترقی پسندوں کے ساتھ انھوں نے حسین شہید سہروردی کی زیر قیادت عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی، جس کے جنرل سیکریٹری ایک اور معروف ترقی پسند سیاسی رہنما محمودالحق عثمانی تھے۔
عوامی لیگ سے نیشنل عوامی پارٹی۔ پھر پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) سے ہوتے ہوئے نیشنل ورکرز پارٹی (جو آج عوامی ورکرز پارٹی ہے) تک بائیں بازو کی سیاست میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ اسی طرح ملک میں بننے والے مختلف سیاسی اتحادوں کی تشکیل، ان کی سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دینے میں بھی ان کی انتھک محنت شامل رہی ہے۔ حاصل بزنجو کی زیر قیادت نیشنل پارٹی سمیت ملک کی چھ ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے آئین اور منشور بھی انھی کے زور قلم کا نتیجہ ہیں۔ سیاسی موضوعات پر مختلف اخبارات میں مضامین، اظہاریے اور کتابیں اس کے سوا ہیں۔
جو لوگ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے دو برس بعد ہی مکمل طور پر امریکا کے زیر اثر آ گیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی جو نئے ملک میں عوامی حقوق کی جدوجہد میں مصروف تھی، 1950ء میں اس پر راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور میجر اسحٰق سمیت کئی اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن 1954ء میں سابقہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی نے جگتو فرنٹ (United Front) کی حمایت کی۔
فرنٹ نے 309 کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کر کے امریکا نواز حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ کیونکہ سابقہ مشرقی پاکستان کے راستے بائیں بازو کی سیاست کے مغربی پاکستان میں مستحکم ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ اس لیے بہتر یہ سمجھا گیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ڈیموکریٹ اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) اور انجمن ترقی پسند مصنفین پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔
کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعد کمیونسٹ مختلف ترقی پسند جماعتوں میں شامل ہو گئے۔ ایک بہت بڑی تعداد حسین شہید سہروردی کی زیر قیادت عوامی لیگ میں شامل ہو گئی۔ لیکن 1957ء میں جب سہروردی سے اختلافات گہرے ہوئے، تو ایک نئی جماعت کی تشکیل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اسی برس ملک بھر کی ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کا ایک نمایندہ اجلاس ڈھاکا میں ہوا۔
جس میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی زیر قیادت عوامی لیگ سے الگ ہونے والا دھڑا، میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی، سائیں جی ایم سید اور شیخ عبدالمجید سندھی کی زیر قیادت سندھ محاذ، باچا خان کی خدائی خدمت گار تنظیم، ان کے فرزند عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو کی زیر قیادت استھمان گل (عوامی جماعت) کے علاوہ سابقہ مشرقی پاکستان کی کئی قوم پرست جماعتوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ان جماعتوں نے باہم ضم ہو کر ایک نئی جماعت نیشنل عوامی پارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
کٹی مرحوم بھی نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ بنے۔ یہیں ان کی بابا غوث بخش بزنجو سے ملاقات ہوئی اور ایسا تعلق پیدا ہوا، جو میر صاحب کی آخری سانس تک قائم رہا۔ جب میر صاحب کے افغان ثور انقلاب کے حوالے سے خان عبدالولی خان سے اختلافات ہوئے، تو میر صاحب نے پاکستان نیشنل پارٹی تشکیل دی۔ جس میں ملک بھر کے ترقی پسند عناصر شامل ہوئے۔ کٹی بھی پاکستان نیشنل پارٹی کا حصہ بنے۔ اس سے قبل جب میر صاحب بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے، تو کٹی ان کے سیاسی مشیر مقرر ہوئے تھے۔ میر صاحب کے انتقال کے بعد جب پاکستان نیشنل پارٹی تحلیل ہوئی تو وہ یوسف مستی خان اور عثمان بلوچ کے ساتھ نیشنل ورکرز پارٹی (حالیہ عوامی ورکرز پارٹی) میں شامل ہو گئے۔
بی ایم کٹی جہاں ایک طرف سیاسی اتحادوں کے قیام اور ان کی دستاویزات کی تیاری میں فعال رہے، وہیں حکومتوں سے مذاکرات میں بھی ان کا نمایاں کردار رہا۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران طویل قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور دشنام طرازیوں کی زد میں بھی رہے، مگر ان کے نظریات اور فکر میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی۔
میر صاحب کے انتقال کے بعد انھوں نے محنت کشوں کے حقوق اور ان کی تربیت کے لیے قائم کی جانے والی سماجی تنظیم پائلر میں شمولیت اختیار کر لی۔ لیکن سیاسی سرگرمیوں سے غافل نہیں رہے۔ عابد حسن منٹو کی زیر قیادت نیشنل ورکرز پارٹی کے پلیٹ فارم سے فعال رہے۔ لیکن ساتھ ہی علاقائی امن کے لیے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی اور دیگر سیاسی وسماجی دانشوروں کے ساتھ مل کر پاکستان انڈیا عوامی فورم برائے امن و جمہوریت (PIPFPD) کی بنیاد رکھی۔ جس کا مقصد دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط کی بحالی اور تنازعات کا مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے پر زور دینا تھا۔ ساتھ ہی پاکستان پیس کولیشن قائم کی جو خطے میںجوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تخفیف کی حامی ہے۔ یہ تنظیم عقیدے، قومیت اور لسانی بنیادوں پر تشدد اور دہشت گردی کے خلاف عوامی آواز بھی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے اکابرین کی انتھک محنت اور خدمات کو اپنی نئی نسل تک پہنچائیں، جنھوں نے کسی ذاتی مفاد، منفعت اور مقاصد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کی حقیقت پسندانہ بنیادوں پر تشکیل اور اس کی ترقی کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی۔ جو نام و نمود کی پروا کیے بغیر اپنی دھن میں مگن رہے۔ ان کا بیانیہ گوکہ حکمرانوں کے بیانیہ سے مختلف تھا، مگر ان کا اخلاص اور نیک نیتی ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر رہی ہے۔
بی ایم کٹی بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں، جنھوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ اس ملک کے عوام کو باوقار زندگی دلانے کے لیے صرف کیا۔ انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور غداری جیسے الزامات سہے۔ مگر اپنے ارادوں میں لغزش نہیں آنے دی۔ بی ایم کٹی ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں اور فالج جیسے موذی مرض کا شکار ہونے کی وجہ سے سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے دور ہو چکے ہیں۔ مگر ذہنی طور پر آج بھی توانا ہیں۔ انھوں نے ان گنت مضامین اور اظہاریوں کے علاوہ میر غوث بخش بزنجو کی سوانح In Search of Solutions اور اپنی سوانح Sixty Years In Self Exile:No Regrets تحریر کر کے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ ان کی زندگی اور جدوجہد ہماری آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔