کراچی سے ایسی بے اعتنائی
ڈروخوف کا کچھ عرصہ پہلے ایسا سلسلہ بڑھ گیا تھا کہ لوگوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تھا
کراچی کافی عرصے سے حکمرانوں کی بے اعتنائی کو سہہ رہا ہے ایک وقت تھا یہاں کی تفریح گاہیں لوگوں کے لیے ایک کشش رکھتی تھیں۔ اولڈ کلفٹن، بوٹ بیسن، مچھلی گھر، ساحل سمندر ، جہاں پورے پاکستان سے لوگ تفریح کے لیے آتے سیپیوں سے بنی ہوئی چیزیں خریدتے مچھلی متعدد ٹھیلے تھے، جہاں مچھلی کھانا لوگ پسند کرتے اور یہاں آکر مچھلی روٹی کھائے بغیر نہیں رہ سکتے تھے مگر اب جگہ جگہ فوڈ سینٹر تو بن گئے لوگوں کی تعداد بھی بڑھ گئی مگر وہ روایتی رونقیں عرصہ دراز سے ماند پڑ چکی تھیں۔
ڈروخوف کا کچھ عرصہ پہلے ایسا سلسلہ بڑھ گیا تھا کہ لوگوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تھا دوسرے شہروں سے لوگ بحالت مجبوری تو آتے تھے مگر باقاعدہ گھومنے کے لیے آنے کا سلسلہ موقوف ہوچکا تھا۔ ایک عشرے سے زائد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی یہاں کے حکمران رہے مگر حاصل حصول کچھ نہ ہوا سوائے اس کے کہ آپس کی رنجشوں، لڑائیوں نے کراچی کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ قائم علی شاہ کی عمرکا تقاضا تھا کہ ان کا تو ہرچیز سے ہی دل اچاٹ ہوگیا تھا، سوائے اپنی کرسی بچانے کے کسی طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہ ملی ۔
عرصہ درازکے بعد کراچی کے لوگوں کو نئے وزیراعلیٰ کی صورت دیکھنے کو ملی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی اب نئے سرے سے اپنے اندرتبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور ری فریش ہو رہی ہے تاکہ نئے عزم کے ساتھ حقیقی معنوں میں لوگوں کی خدمت کرسکے مگر دعا ہے کہ دل بہلانے کو خیال اچھا نہ ہو بلکہ حقیقت ہو تاکہ صوبے کے لوگوں کو بھی بشمول کراچی ریلیف ملے کیونکہ کراچی اس وقت عملی طور پر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے جگہ جگہ سیوریج سسٹم بے کار ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئے ہیں گندا پانی چار سو اپنی بدبو پھیلا رہا ہے جس کی وجہ سے خسرہ، ٹائی فائیڈ، ہیپاٹائٹس، یرقان اور پیٹ کی بیماریاں اور دیگر امراض پرورش پاکر جوان ہو رہے ہیں کوئی چیز ایسی نہیں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو خاموشی سے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں نہ ستائش کی پرواہ نہ نمود کی خواہش ان میں ایک نام پیپلز پارٹی کی صوبائی رکن اسمبلی شمیم ممتاز کا بھی ہے جو اب پیپلز پارٹی کی اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے وزیر بن چکی ہیں ان کی طرف ہماری توجہ پارٹی کی سینئر رہنما شاہدہ یامین نے ایک ای میل کے ذریعے مبذول کروائی انھوں نے ہم سے شکایت کی ہے کہ آپ صحافی لوگ ہر چیز میں منفی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہیں مگر مثبت باتوں کی طرف توجہ کم ہی دیتے ہیں۔
شمیم ممتاز نے اپنے حلقے اور دوسری جگہوں پر بہت سے ایسے کام کیے ہیں جس سے خلق خدا فائدہ اٹھا رہی ہے ۔کراچی کے کئی گورنمنٹ اسکولوں میں بچوں کے لیے ذاتی دلچسپی لے کر پینے کے پانی کی سہولیات طلبا کے لیے بہم پہنچائیں انفرااسٹرکچر برباد تھا فرنیچر نایاب تھا مگر شمیم صاحبہ نے ذاتی دل چسپی لے کر ان اسکولز کی حالت کو بہتر بنایا سڑکوں کی حالت کو بہتر کیا اب وہ سوشل ویلفیئر کی وزارت کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے عہدے کی ذمے داریوں کو بہ احسن طریقے سے پورا کریں گی کیونکہ یہ تو ہم نے بھی ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ وہ اپنے حصے کے کاموں کو اپنی ٹیم کے ہمراہ جس طرح سر انجام دیتی ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ کس جانفشانی لگن اور دلی جذبے سے عوام الناس کی بہبود کے لیے عبادت سمجھ کر کام کرتی ہیں اگر یہی لگن کراچی میں رہنے والے ہر نمایندے کو ہوجائے تو یہ شہر پھر امن کا گہوارا اور روشنیوں کا شہر بن جائے۔
آج یہ حالت ہے کہ اگر بارش کی دعا مانگنے کے لیے ہزار ہاتھ اٹھتے ہیں تو لاکھوں لوگ بادلوں کو دیکھ کر یہ دعا مانگ رہے ہوتے ہیں کہ بارش نہ ہو کیونکہ بارش کی چند بوندیں گرتے ہی جو صورتحال پیدا ہوتی ہے جو تباہی کا منظر نظر آتا ہے وہ سب پر عیاں ہے جگہ جگہ گٹروں کا پانی باہر نکل کر بارش کے پانی کے ساتھ مل کر سیلابی کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔ نالے بہنے لگتے ہیں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوجاتا ہے کیونکہ اسے نکاسی کا راستہ نہیں ملتا مہینوں اس بارش کے اثرات بیماریوں اور پریشانیوں کی صورت میں موجود رہتے ہیں۔
پچھلے دنوں بارش کے دورانایک یونیورسٹی کے آگے نالہ دو فٹ اونچا بہہ رہا تھا گندے اور بارش کے پانی نے مل کر سیلابی کیفیت پیدا کردی تھی جس کی وجہ سے طلبا اور آنے جانے والوں کو ازحد پریشانی ہوئی جب ایسے علاقوں میں یہ حال ہوگا تو کچی آبادیوں اور پس ماندہ علاقوں میں صورت حال کتنی خراب ہوگی اس کا اندازہ لگانے کے لیے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلے دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا ایک جگہ سفر کے دوران شدید بارش نے آ لیا طوفانی بارش کی شدت نے برا حال کردیا جگہ جگہ سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی لگتا تھا کہ اب یہ پانی کبھی ختم نہیں ہوگا بہ مشکل اپنی رہائش گاہ پہنچے یقین تھا کہ دوسرے دن کیچڑ اور گندے پانی کا سامنا ہوگا مگر جب اگلے دن گھر سے نکلے تو حیران رہ گئے کہ پانی خشک، سڑکیں صاف، کیچڑ کا کہیں نام و نشان نہیں یا اللہ رات بھر میں جن بھوت آکر صفائی کرگئے انسانوں کے تو یہ کام نہیں لگ رہے جب ایک وزیر اعلیٰ اپنے شہر کو ایسا کر سکتے ہیں تو سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے بھی امید ہے کہ 70 فیصد ریونیو دینے والے شہر کو بھی دوبارہ انٹرنیشنل سٹی جیسا بنایا جاسکتا ہے۔
رینجرز نے آکر امن و امان کے مسائل تقریباً حل کردیے تو وزیر اعلیٰ سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ آپ بھی پورے کراچی کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اس کے مسائل حل کریں، کراچی کو کچرا کنڈی سے باہر نکالیں اور صفائی، سیوریج اور دیگر اہم ترین مسائل جن سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام اور صحت ہیں ان کو بہتر بنانے کے لیے منصوبے نہیں، کوشش شروع کردیں عملی اقدامات کریں۔ امید ہے نئے الیکشن سے پہلے اس شہر کا حلیہ تبدیل ہوجائے گا تبدیلی کاغذوں میں نہیں شہر میں نظر آنی چاہیے سیاسی بحث و مباحثہ الگ چیز ہے سیاسی صفائی بھی جاری ہے۔
امید ہے اس کی وجہ سے بھی فرق پڑے گا جہاں دو برتن ہوں وہ کھڑکتے ہیں مگر بدزبانی، دل آزاری ملک کے بارے میں نازیبا کلمات کسی طور بھی قبول نہیں پاکستان ویسے ہی نازک دور سے گزر رہا ہے بلوچستان ہو، کراچی یا خیبر پختون خوا ہر جگہ دشمن گھات لگا کر بیٹھا ہے کہ کوئی بھی موقع وہ ضایع نہیں کر رہے مگر ایسے نازک موقع پر بھی ہم دشمن کی زبان بولنے لگیں تو اس سے بدتر کوئی بات نہیں آپس کے اختلافات ایسے موقع پر بھلا دیے جاتے ہیں کیونکہ یہ اندرونی معاملہ ہے۔ ایسے مسائل سے بعد میں نمٹیں گے مگر جب بات آجائے دشمن کی تو ہم سب ایک ہوجائیں مگر کچھ لوگ علانیہ اور کچھ غیر علانیہ دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔