ٹھیلا معیشت کتنا چلے گی

آپ کسی ملک کی معیشت کی کس طرح تعریف کریں گے؟ اس کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے


سید معظم حئی August 31, 2016
[email protected]

QADIRPUR: آپ کسی ملک کی معیشت کی کس طرح تعریف کریں گے؟ اس کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ دیکھیں کہ اس ملک کی معیشت کا وہ کون سا سیکٹر یا سیکٹرز ہیں جو وہاں کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے وسیع ترین ذریعہ ہیں، مثلاً دبئی کے معاملے میں یہ رئیل اسٹیٹ اور سیاحت ہیں، سنگاپور فری ٹریڈ، امریکا مینوفیکچرنگ اور کنزیومر اکنامی، چین مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹس، سعودی عرب آئل، سوئٹزرلینڈ بینکنگ اور سروسز کی معیشت کہلاتے ہیں اور پاکستان؟ 1970ء کی دہائی کے آغاز تک پاکستان کی معیشت ابھرتی ہوئی صنعتوں اور مالیاتی اداروں اور بہترین تعلیمی اداروں کے آئیڈیل امتزاج کے ساتھ دنیا میں سب سے تیزی سے آگے بڑھتی معیشتوں میں شامل تھی، جس کا جنوبی کوریا جیسے ممالک رشک سے مطالعہ کرتے تھے۔

اس کے شہر کراچی کا ذکر نیویارک اور لندن جیسے دیومالائی عالمی شہروں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی معیشت اگر اسی طرح ترقی کرتی رہتی تو پاکستان دنیا میں صف اول کا ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ ملک بن جاتا، جس سے ملک میں جاگیردار اور وڈیرہ راج اور کلچر کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ 1970ء کی دہائی میں ایک طرف تو عوامی سوشلزم کے نام پر تقریباً تمام چھوٹے بڑے صنعتی و مالیاتی اداروں کو قومیا کر انھیں سیاسی سفارش اور لسانی بنیادوں پر بھرتیوں، کرپشن اور نااہلیت کے مراکز میں تبدیل کر کے تباہ کر دیا گیا، دوسری طرف بہترین تعلیمی اداروں جو دنیا میں اپنا نمایاں مقام رکھتے تھے انھیں غنڈہ گردی کی سیاست کے گڑھ میں تبدیل کر کے ایک ترقی یافتہ تعلیمی کلچر کے ابھرنے کا سدباب کیا گیا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جاگیرداریوں، جہاں پاکستان کے مزدوروں کی بڑی اکثریت کام کرتی تھی، انھیں دکھاوے کی قومیانے کی پالیسی کے ذریعے نہ صرف محفوظ رکھا گیا بلکہ جاگیرداری اور وڈیرہ کلچر کو مضبوط بنایا گیا۔ چنانچہ پاکستان کی معیشت کی تباہی کا وہ آغاز ہوا جو آج اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔

اس وقت حال یہ ہے کہ پاکستان بیورو آف Statistic (شماریات) کے مطابق پاکستان کی برآمدات آٹھ سال کی کم ترین نچلی سطح پر پہنچ چکی ہیں کہ مالی سال 2015-16ء میں یہ صرف 20.8 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کی رہ گئیں۔ 2015-16ء کے مالی سال کے پہلے 11 مہینوں میں پاکستان کی ٹیکسٹائل اور کپڑے (سوتی مصنوعات) کی برآمدات میں سات فیصد کمی ہوئی۔ صنعتی شعبہ جو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتا ہے، مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔ 2000ء کے شروع میں پاکستان کے GDP میں انڈسٹریل سیکٹر کا حصہ 25 فیصد کے آس پاس تھا اب صرف 20 فیصد کے آس پاس رہ گیا ہے جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی سطح کو دیکھتے ہوئے انتہائی کم ہے۔

اگر ہم کچھ لمحوں کے لیے حکومتی معاشی اعداد و شمار کو بالکل درست بھی مان لیں جن کے مطابق مالی سال 2015-16ء میں معاشی نمو GDP گروتھ ریٹ 4.7 فیصد رہا تب بھی یہ کم ترین ہے، جہاں بنگلہ دیش کا GDP گروتھ ریٹ 6.6، بھارت کا 7.5، بھوٹان کا 8.4 اور میانمار کا 8.6 فیصد ہے۔ ادھر پاکستان کے بیرونی قرضے ہوش اڑا دینے والی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 2016ء کی پہلی سہ ماہی میں یہ قرضے 69558 ملین یا 69.558 بلین (ارب) ڈالر تھے جوکہ 2016ء کی دوسری سہ ماہی تک بڑھ کر 72978 ملین امریکی ڈالر ہو گئے یعنی صرف 3 مہینوں میں کوئی 3420 ملین ڈالر یعنی پاکستانی روپوں میں سو روپے فی ڈالر کی شرح تبادلہ (جو کہ اس وقت 105.095 ہے) بھی لگائیے تو یہ 342000 ملین یعنی 342 ارب یعنی چونتیس ہزار دو سو (34200) کروڑ روپے بنتے ہیں۔ ایک کروڑ میں سو لاکھ ہوتے ہیں۔

2004ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 33172 ملین امریکی ڈالر تھے جو بارہ سال میں دگنے سے بھی زیادہ یعنی 72978 ملین ڈالر ہوگئے۔ لیکن ملک اور عوام کی حالت، سرکاری اسپتالوں، اسکولوں کی حالت، معیشت کی حالت، پولیس، پٹواری کے نظام، فراہمی آب اور صفائی کے سسٹمز، بجلی کی پیداوار کہیں بھی کوئی بہتری خصوصاً قرار واقعی یا نمایاں بہتری نظر نہ آئی۔ تو آخر یہ ہزاروں کروڑوں ارب روپے کہاں گئے؟ ہمارے ناقابل اصلاح کرپٹ حکمراں طبقے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کی مسلسل کوششوں کی بدولت اب یہ ملک جہالت کے اس گہرے طوفان میں غرق ہو چکا ہے جہاں بڑے بڑے جمہوری مفکر، اینکر پرسنز، کالم نگار تک ملین اور بلین میں فرق نہیں بتا سکتے، جہاں عوام چٹ پٹی سیاست اور سطحی سیاسی نعروں کے رسیا ہیں اور ایسے لوگوں اور باتوں سے نفرت کرتے ہیں کہ جن سے انھیں اپنے علم اور نالج و معلومات میں سچ مچ کے اضافے کا خطرہ ہو۔ چنانچہ یہ اپنی جہالت پہ نازاں و شاداں لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ملک میں لوٹ مار کا کیا عالم ہے، معیشت کہاں پہنچ گئی ہے اور اس ملک اور قوم کا مستقبل کیا نظر آ رہا ہے۔

بہرحال اب ہم آگے بڑھتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں 28 اکتوبر 2015ء کو جاری ہونے والے ورلڈ بینک کے Ease of Doing Business Index کا جس کے مطابق کاروبار کرنے کی آسانی کے لحاظ سے پاکستان بجائے ترقی کے تنزلی کے مزید دو درجے گرنے کے بعد 189 معیشتوں میں 138 نمبر پہ آ گیا۔ ہر ملک کے چند شہروں کو اس کے معاشی انجن کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے، پاکستان میں یہ حیثیت کراچی کو حاصل رہی ہے تاہم مقدس وڈیرہ راج میں کراچی پہ ترقیاتی فنڈز، سہولتوں اور امن و امان کے دروازے سختی سے بند رکھے گئے ہیں وہیں کراچی کے شہریوں کو نہ صرف صوبائی وزارتوں، سرکاری نوکریوں یہاں تک کہ پینے کے پانی تک سے محروم رکھا گیا بلکہ اس شہر سے اس کی ایک بااختیار شہری حکومت کا بھی حق چھین لیا گیا اور تمام اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے قبضے میں کر لیے ہیں تا کہ کراچی کے وسائل سے کہیں کراچی اور اس کے شہریوں کو کوئی فائدہ اور آرام نہ پہنچ جائے۔ کراچی عرف کچرا کنڈی مقدس وڈیرہ راج میں جس مقام پہ پہنچا ہے اس کو عالمی طور پہ مانا جا رہا ہے۔

Economist Intelligence Unit کی Global Liveability Ranking کے مطابق کراچی دنیا بھر کے دس رہائش کے لحاظ سے بدترین شہریوں میں چھٹے نمبر یعنی 6th پوزیشن پہ آ گیا ہے۔ اور مقدس وڈیرہ راج اور اس کی کراچی سے نفرت اور اس کے وسائل سے لالچی محبت کو دیکھتے ہوئے کراچی کا عملی طور پہ کوئی مستقبل نظر نہیں آتا، سوائے مزید تنزلی کے۔ تو جناب پاکستان کا معاشی انجن کراچی تو بن گیا کچرا کنڈی۔ اب اگر آپ دیکھیں تو کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں مگر عملاً درجہ دوئم اور سوئم کے شہریوں سے لے کر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دیہاتوں کے لوگوں تک کے لیے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ آپ کو ٹھیلا، چھابڑی لگانا، چھوٹی موٹی دکان کھولنا نظر آئے گا۔

آپ کو ہر طرف ٹھیلے ہی ٹھیلے، دکانیں اور چھابڑیاں ہی نظر آئیں گی مگر جس رفتار سے ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس رفتار سے خریداروں اور ان کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہو رہا تو جناب یہ بڑھتے ٹھیلے، یہ ٹھیلا معیشت کہاں جائے، کتنا چلے گی؟ کرپشن سے پاک، یکساں انصاف و قانون کی عملداری، بااختیار شہری حکومتوں اور مسلسل اور قرار واقعی احتساب پہ مبنی نظام کے بغیر آپ کچھ بھی کر لیں یہ معیشت ٹھیلا معیشت Pushcart Economy ہی رہے گی مگر کسی کو اس کی کیا پرواہ ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔