کہ ساون آیا
مون سون اس خطے کا ہزاروں برسوں پر محیط موسمیاتی سرکل ہے
بادل گھر کر آئے۔ ہفتے کی دوپہر سے سہ پہر تک جم کر برسے۔ پھر اتوار کو بھی فجر سے دوپہر تک زور دار مینہ برستا رہا۔ شام تک پورا شہر جل تھل ہوگیا۔ ادھر لاہور سمیت پنجاب بھر میں دو روز خوب جم کر بارش ہوئی۔ کراچی کو پانی میں ڈوبتے کھلی آنکھوں دیکھا ۔ لاہور کو وینس بنتے ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ ہفتے کی شام کراچی پریس کلب سے واپسی پر گھنٹے بھر کا سفر تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کی سب سے بڑی سڑک پانی میں ڈوبی کسی آبی شاہراہ کا منظر پیش کر رہی تھی۔20کلومیٹر طویل اس سڑک پر نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے؟ یہ حکمران بتائیں۔
آسمان پر چھائی گھنگھور گھٹائیں، رم جھم پڑتی پھوار جوانی تو پھر جوانی، اس عمر میں بھی دل میں گدگدیاں مچا دیتی ہے، مگر یہ خوشی اور رومانیت محض کچھ ہی دیر کی مہمان ہوتی ہے۔ پھر جو کچھ ہوتا ہے اورجس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ناقابل بیان ہوتا ہے۔ ادھر چند بوندیں گریں، ادھر بجلی غائب۔ ادھر چند ملی میٹر پانی گرا، ادھر سڑکیں تالاب و جھیل بنیں۔پھرسڑک کے کنارے لگے کچرے کے ڈھیر بہتے ہوئے پوری سڑک پر پھیل کر ریاست کے انتظامی اداروں کا منہ چڑانے لگتے ہیں۔ کسی ایک برس کی کہانی نہیں، یہ صدیوں کی داستان ہے۔ ہربار بھاگو دوڑو، پھر وہی قبرستان کا سا سکوت۔ نہ ریاستی اداروں کو فکر، نہ عوام کی توجہ، سبھی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
مون سون اس خطے کا ہزاروں برسوں پر محیط موسمیاتی سرکل ہے۔ جیسے ہی گرمیاں جاتی ہیں، برسات کا موسم آجاتا ہے۔ جسے ہمارے یہاں ساون بھادوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ موسم رومان پروری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ کہیں چٹپٹے پکوان پک رہے ہیں۔ کہیں باغوں میں پڑے جھولوں پہ حسیناؤں کا جھرمٹ۔کہیں کوئی محبوبہ اپنے محبوب سے نہ ملنے کا یوں شکوہ کررہی ہے کہ ''تیری دو ٹکیاں دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے۔'' تو سسرال میں سکھیوں کو یاد کرتی نوبیاہتا بیٹی کے جذبات کو امیر خسرو یوںبیان کرتے ہیں کہ ''اماں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا، اماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا'' گویا بارش کا موسم کبھی سرمستی و رنگینی کا حسین امتزاج ہوا کرتا تھا، مگر کم از کم پاکستان کی حد تک اب ساون بھادوں کی رومانیت باقی نہیں رہی ہے، بلکہ برسات کا موسم الجھنوں اور پریشانیوں میں اضافے کا موسم بن گیا ہے۔ اس کے آتے ہی خوشی کے بجائے لوگوں کی تشویش بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی اور بدانتظامی کے طفیل اکیسویں صدی میں ہم اٹھارویں صدی میں جینے پر مجبورکردیے گئے ہیں۔
ابن صفی مرحوم نے لکھا تھا کہ دعوے ہمیشہ بزدل اور نااہل کیا کرتے ہیں۔ جرأت مند اپنے عمل سے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کراتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی فرد کی اہلیت دعوؤں سے نہیں، اس کی کارکردگی سے نظر آتی ہے۔ مگر جہاں Genes میں غلامی اس حد تک رچ بس گئی ہوکہ اپنی عقل کا استعمال کرنے کا اعتماد ہی باقی نہ رہاہو، وہاں دور اندیشی پر مبنی دور رس فیصلوں کی توقع عبث ہوتی ہے۔ لاکھ دعوے کیے جائیں، مگر جو نظر آتا ہے، وہی تو حقیقت ہوتی ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے70برس میں نظم حکمرانی میں کسی قسم کی کوئی بہتری لانے کے بجائے پہلے سے موجود نظام کو بھی اپنی نااہلی سے تباہ کردیا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ نظام کی فرسودگی کے مظاہر مزید بدنما ہوکر سامنے آنے لگے ہیں۔ مگر حکمرانوں کو محلاتی سازشوں اور اپنے مفادات کے حصول سے فرصت ملے تو کسی اور جانب دیکھیں۔ جو ممکن نہیں ہے۔
دنیا میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں، جب حکمرانوں نے اپنے سیاسی عزم و بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے شکست خوردہ اقوام کی تقادیر بدل دیں۔ دور کیوں جائیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد کے جاپان کو سامنے رکھیں جس کے دو شہر جوہری حملوں میں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے، امریکا قابض ہوگیا۔ مگر چند ہی برسوں میں اس قوم کے رہنماؤں نے دانائی اور دیدہ وری سے اپنے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ وہ جاپان جو جنگ کے بعد مضمحل ہوچکا تھا، نئے عزم و حوصلے کے ساتھ عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرتا نظر آیا۔ اس کی مصنوعات جلد ہی پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ یہ سب کیوں ہوا کیسے ہوا، ان کے عمل میں ذی ہوش و ذی شعور لوگوں کے لیے سوچنے کا بہت کچھ مواد ہے۔ اس سلسلے میں جاپان پر قابض امریکی فوج کے کمانڈر میک آرتھر کی سوانح کے کچھ اقتباسات قابل توجہ ہیں۔
جنرل میک آرتھر لکھتے ہیں کہ ایک روز علی الصبح ان کا اردلی اطلاع دیتا ہے کہ سائیکل پر ایک شخص کیمپ آفس کی طرف آرہا ہے۔ شکل سے یہ شخص جاپان کا بادشاہ ہیرو ہیٹو محسوس ہو رہاہے۔ حیرت میں گھرا جنرل اس سے کہتا ہے کہ انھیں عزت کے ساتھ ڈائنگ روم میں بٹھاؤ اور ناشتے کا انتظام کرو، میں غسل خانے سے فارغ ہوکر ابھی آتا ہوں۔ جنرل لکھتا ہے کہ جب میں کمرے میں داخل ہوا، تو شاہ جاپان ایک کرسی پر بیٹھے تھے، ڈائنگ ٹیبل پر تین اوزار رکھے تھے، جن میں ہتھوڑی، پلاس اور پیچ کس شامل تھے۔ میں نے ادب کے ساتھ بادشاہ کو خوش آمدید کہا اور آنے کا سبب جاننا چاہا۔ شاہ ہیرو ہیٹو نے کہا ، شکست و فتح فوجوں کی مہارتوں کے علاوہ قوموں کے نصیب کا کھیل ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں ہمیں شکست اور آپ کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ ان اوزاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ہمیں ان کے استعمال کی اجازت دے دیں۔ جنرل لکھتا ہے کہ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں سمجھا نہیں۔ بولے ریاستی انتظام آپ جیسے چاہیں چلائیں، ہمیں اپنی صنعت کا پہیہ چلانے دیں۔
جنرل میک آرتھر لکھتا ہے کہ میں نے اثبات میں سرہلادیا۔ مگر آج اس واقعے کے بیس برس بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس وقت میں نے اس معاملے کو سرسری سمجھتے ہوئے اہمیت نہ دی تھی، آج وہ کس قدر اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔ کیونکہ وہ جاپان جو جنگ کے نتیجے میں مکمل طورپر تباہ ہوگیا تھا آج نہ صرف اپنے پیروں پرکھڑا ہے، بلکہ اس کی معیشت اس قدر مضبوط ہوچکی ہے کہ مغرب کی ترقی یافتہ دنیا سمیت ہر چھوٹے بڑے ملک میںآج اس کی مصنوعات پائی جاتی ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آج کی دنیا میں طاقتور فوج نہیں بلکہ مضبوط معیشت ہی قوموں کو ممتاز بنانے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ہم نے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، مگر اس ملک نے اپنی مصنوعات کو ہمارے ہر گھر میں پہنچا کر ہمیں اپنا اقتصادی غلام بنا لیا ہے۔
یہ ان قوموں کی داستانیں ہیں، جہاں تحقیق و تخلیق اور جدت طرازی(Innovation)کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے فوقیت دی جاتی ہے۔ ہم 1950 سے بھکاری بنے چالیس برس امریکا کے درپر پڑے رہے۔ جس نے اس عمل کی مخالفت کی اس پر ملک دشمنی اور غداری کا الزام عائد کیا۔ اب ہماری آرزوؤں اور تمناؤں کا محورCPEC ہے۔ یعنی پہلے امریکی خیرات پر پلتے رہے اب چین کے قرضوں پر زندگی گزاریں گے۔ لیکن خود کچھ نہیں کریں گے۔ اپنے وسائل نام نہاد سلامتی کے نام پر لٹاتے رہیں گے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ سوویت یونین سیکڑوں کی تعداد میں جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود کیوں ٹوٹا؟ جاپان اور جرمنی بدترین شکست سے دوچار ہونے کے باوجود کیوں دنیا میں ممتاز ہیں؟ تو ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ آج کی دنیا میں عسکریت نہیں مضبوط معیشت اور خوشحال عوام ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہوتے ہیں ۔
ساون آتے اور جاتے رہیں گے۔ اگر عقل وخرد اور دور اندیشی سے فیصلے کیے جائیں، جذبات کو جھٹک دیا جائے، تو کوئی سبب نہیں کہ اگلے برس بارشیں پھر ماضی کی طرح رومان پرور نہ بن جائیں اور لوگ برسات کے بعد جن الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں نہ ہو پائیں۔ مگر عزم، حوصلہ اور بصیرت کے ساتھ اخلاص اور نیت نیتی بھی ضروری ہوتی ہے۔ آخری بات یہ کہ جس کی جو ذمے داری ہے، وہ سرانجام دے اور ماورائے آئین ایڈونچر سے گریز کرے۔اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ طاقت بازوکی نہیں عقل کی ہوتی ہے۔ تلوار نہیں قلم کی ہوتی ہے، توملک ومعاشرے کا سنورنا مشکل نہیں رہتا۔ یاد رہے کہ زندہ قوموں کے ہیرو اہل علم ودانش ہوتے ہیں شمشیر زن نہیں۔