ایک نیک سیرت سیاستدان
ہمارے ارب یا کھرب پتی وزیراعظم بھی ہماری طرح تنخواہ دار ہیں اور ان کی سالانہ تنخواہ 21 لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے
LONDON:
معلوم ہوا کہ ہمارے ارب یا کھرب پتی وزیراعظم بھی ہماری طرح تنخواہ دار ہیں اور ان کی سالانہ تنخواہ 21 لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے۔ ہمارا ایک پرانا سا خیال تھا کہ وہ اپنی خدمات کے عوض قومی خزانے سے کچھ نہیں لیتے ہوں گے مگر معلوم ہوا کہ وہ بھی ایک کاروباری شخص ہیں اور ایک کاروباری خاندان کے فرد ہیں اس لیے وہ باقاعدہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
قوم کی خدمت مفت میں نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں ایک روایت چلی آ رہی ہے کہ ہمارے اونچے لوگ تنخواہ نہیں لیا کرتے مثلاً قائداعظم صرف ایک روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے تھے لیکن وہ لوگ کسی ایسی دوسری نسل کے تھے کہ کاروباری ہونے کے باوجود قوم کے ساتھ کاروبار نہیں کرتے تھے اور ماشاء اللہ خود اتنے بڑے رئیس تھے کہ تنخواہ کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح ایک وکیل تھے اگرچہ وہ ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن اپنی روزی وکالت سے کماتے تھے اور بطور وکیل زندگی بسر کرتے تھے اگرچہ وہ ایک اونچے وکیل تھے اور لمبی چوڑی فیس لیا کرتے تھے لیکن اپنے اور بہن کے اخراجات وہ کسی تنخواہ سے نہیں اپنی محنت اور مقدموں کی فیس سے پورے کرتے تھے۔
وہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے پر بھی فائز رہے ملک کے بادشاہ رہے گورنر جنرل اور نہ جانے کیا کیا لیکن وہ ایک مزدور کی زندگی بسر کرتے رہے کماتے رہے اور کھاتے رہے حکومت کے بڑے عہدوں پر بھی رہے مگر خرچ اپنا کرتے رہے اور بھی ایسے کئی اونچے عہدوں پر فائز رہنے والے پاکستانی تھے جو اپنے اخراجات اپنی ذاتی آمدنی سے پورے کرتے تھے اور حکومت سے تنخواہ نہیں لیتے تھے مگر یہ سن کر سخت تعجب ہوا کہ ہمارے ملک کا رئیس ترین شخص ماشاء اللہ جب اعلیٰ منصب پر پہنچ گیا اور بظاہر وہ ہر طرح کے اخراجات پورے کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور اپنے اعلیٰ عہدے کی تنخواہ مقررکرائی اور اس سے وہ اپنے اخراجات پورے کرتا رہا۔ اگرچہ یہ تنخواہ بھی اس نے ایک اسپتال کو عطیہ کر دی لیکن وہ بہرحال حکومت پاکستان کا تنخواہ دار رہا۔
معلوم ہوا کہ وزیراعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام نے وزیراعظم کی ایک سال کی تنخواہ کا چیک سوات کے ایک کڈنی سینٹر کو دے دیا۔ یہ چیک 21لاکھ 69ہزار روپے کا تھا یہ ان کی ایک سال کی تنخواہ تھی جو خیبرپختونخوا کے ہاں ایک اسپتال کو دے دی گئی۔ اب محترم میاں صاحب سال کے باقی دن کیسے پورے کریں گے یہ نہیں بتایا گیا مگر ان کا نام ہی ایک بڑا چیک ہے جس کی رقم ختم نہیں ہوتی۔ میاں صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اپنی جائز آمدنی میں سے قوم کو بھی محروم نہیں رکھا اور مستحق مریضوں کے علاج معالجے کا خیال رکھا۔ میں خود چونکہ کڈنی کا مریض ہوں اس لیے کڈنی اسپتال کے لیے یہ چندہ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ کیا معلوم کسی دن سوات کے اس اسپتال میں جانا پڑجائے۔ اسے ایک خود غرضی بھی سمجھ لیں لیکن خدا نہ کرے میں کسی مستحق مریض کا حق نہ دوں۔
اصل بات یہ ہے جس کے لیے میں نے قارئین کو زحمت دی کہ میاں صاحب ایک تو تنخواہ بھی لیتے ہیں اور دوسرے وہ تنخواہ کسی خیراتی ادارے کو دے بھی دیتے ہیں۔ یہ ان کی نیکی ہے۔ اگرچہ مجھے تعجب ہوا کہ وہ تنخواہ ہی کیوں لیتے ہیں تنخواہ تو ہمارے جیسے مستحقین لیا کرتے ہیں جو ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ میاں صاحب کی دی ہوئی تنخواہ پر تو نہ جانے کتنے میرے جیسے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں اور میاں صاحب کو دعائیں دیتے ہیں کہ خدا انھیں اور دے اور میرے جیسے مزید لوگ ان کی تنخواہ پر وقت گزارتے رہیں اور انھیں دعائیں دیتے رہیں، ایک بات میں آپ کو بتا دوں کہ میاں نواز شریف طبعاً ایک نیک انسان ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اچھے لوگوں کی عملاً سرپرستی کرتے رہیں۔ میرے ذاتی علم میں کئی ایسے واقعات ہیں جو ان کی نیکی کا ثبوت ہے۔ اللہ دولت تو بہت لوگوں کو دے دیتا ہے لیکن ان میں ایسے کتنے ہوتے ہیں جو اس دولت کو خدمت خلق اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے میاں نواز شریف کو بہت کچھ دیا ہے وہ ایک سیاسی آدمی ہیں لیکن اس کے پیچھے ایک ایسا انسان چھپا ہے جو کوئی بھی رقم کسی نیکی کے کام پر خرچ کر سکتا ہے لیکن ان کی سیاست سے اختلاف ایک الگ معاملہ ہے جو ہمارا حق ہے لیکن یہ ہمارے اس حق کو ختم نہیں کرتا جو ان کی تنخواہ پر ہے۔