دولت کی طاقت
اول تو ملک میں جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا، کوئی بھی انتخاب شاید شفاف نہ ہوسکا۔
ہم نے گزشتہ اظہاریے میں بھی کہا تھا کہ جب کسی ملک میں سیاست ذاتیات و شخصیات تک محدود ہو اور حکومت چند افراد کے قبضے میں تو وہ ملک ترقی تو کیا اپنی خودمختاری تک کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اس وقت جب کہ آدھی دنیا آگ و خون کے دریا سے گزر رہی ہے، دہشت گردی ختم ہونے کے جتنے جتن ہو رہے ہیں اتنی ہی برق رفتاری سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عراق، شام، افغانستان، یمن، حتیٰ کہ سعودی عرب تک میں خودکش دھماکے ہوچکے ہیں۔ مغربی ممالک اس صورتحال کو اسلام سے جوڑ کر مطمئن ہوجاتے تھے مگر اب بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو (بظاہر) آمادہ نہیں کہ یورپ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گر رہا ہے۔ اب جب کہ کئی یورپی ممالک اور امریکا میں بھی کچھ اسی قسم کے واقعات رونما ہوئے تو عالمی ذرایع ابلاغ نے وہی زبان سے کہنا شروع کیا کہ عالمی قیادت کے جنون میں مبتلا ہوکر درپردہ جو دہشت گردی اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی اب وہی ان کے پروردہ خود انھیں بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ اس پس منظر میں جب ہم وطن عزیز کی صورتحال دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ یہ ملک لاکھوں انسانی قربانیوں کے بعد جس جذبے کے تحت حاصل کیا گیا تھا آخر وہ جذبہ کہاں گیا؟
ملک کی موجودہ صورتحال ایک دن میں یا اچانک ہی اس نہج پر نہیں پہنچی، بلکہ قائداعظم کی حیات میں ان کی بیماری کے دوران ہی سازشوں کا جال پھیلایا جاچکا تھا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی تو کبھی تو ملک کو پٹڑی پر چلانے کی کوشش کرتا۔ مگر خودغرضی، مفاد پرستی، اقربا پروری میں روز افزوں اضافے کے باعث نہ کوئی سیاسی جماعت اور نہ کوئی صاحب اقتدار ملک سے مخلص ثابت ہوا۔
اول تو ملک میں جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا، کوئی بھی انتخاب شاید شفاف نہ ہوسکا۔ قائداعظم کی ہمشیرہ کو باوجود ملک بھر کی حمایت حاصل ہونے کے شکست سے دوچار ہونا پڑا تو اور کوئی کس منہ سے بھاری مینڈیٹ کی بات کرسکتا ہے۔ ایسے انتخابات جن کے نتائج سوائے بھاری اکثریت حاصل کرنے والی جماعت اور کوئی بھی قبول نہ کرے کس طرح شفاف کہلائے جاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود ماضی آج سے بہتر نظر آتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ ملک موجودہ صورتحال کو آہستہ آہستہ ہی پہنچا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہمارے کئی سابق حکمرانوں کی طرز حکمرانی پر انگلیاں اٹھائی جاچکی ہیں۔ کئی بار حکومتوں کو قبل از وقت فارغ کیا گیا۔ موجودہ حکومت سے پہلے دو وزرائے اعظم برطرف ہوچکے، ظاہر ہے کہ ان پر کوئی نہ کوئی الزام عائد کیا گیا تھا، محض تفریحاً تو ان کو گھر نہیں بھیجا گیا ہوگا۔ مگر موجودہ حکمرانوں پر جو الزام پانامہ لیکس کے نام سے عائد ہوا ہیوہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
مجھے بار بار وہ تحریر یاد آجاتی ہے جس میں پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے پر لکھا تھا کہ اس فہرست میں اور بھی کئی ممالک کی بڑی شخصیات شامل ہیں، دنیا بھر میں ان کے خلاف کچھ نہ کچھ ہوجائے گا مگر پاکستان میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ اندازہ کس قدر درست ثابت ہوا۔ عمران خان اور دیگر کئی سیاستدان بار بار یاد دلاتے رہتے ہیں کہ حکمران اس معاملے سے جان نہیں چھڑا سکتے مگر جوں توں کرکے انھوں نے اپنی مدت حکمرانی کا آدھے سے زیادہ حصہ مکمل کرلیا ہے اور باقی بھی مکمل کرلیں گے۔
بلکہ بار بار یہ بھی باور کرایا جا رہا ہے کہ 2018 کا انتخاب بھی ہم ہی بھاری اکثریت سے جیتیں گے۔ ''ہمت مرداں مدد خدا''۔ یہ دعویٰ وہی کرسکتا ہے جو فتح حاصل کرنے کے طور طریقوں سے واقف ہوتا ہے۔ ملک کی 60 فیصد سے بھی زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو اور بڑے بڑے منصوبے جن پر کثیر دولت صرف ہو رہی ہو تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ کیونکہ دولت کے انبار میں رہنے والے، بھوک، بے روزگاری، طبی سہولت نہ ملے، فٹ پاتھوں اور کھلے میدانوں میں زندگی بسر کرنے والوں کے درد کو کیا محسوس کریں گے، ان کی نظر میں ترقی یہی ہے کہ موٹروے بناؤ اور عوامی مسائل کو بھول جاؤ۔
دوسری صورت ہمارے محب وطن حکمرانوں نے یہ نکالی ہے کہ پورے پاکستان کو کراچی دھکیل دو اور پھر وہاں کے بے قابو حالات کو قابو کرنے کے لیے سندھ سے باہر کے افراد کو بطورسکیورٹی اہلکاروں کے جمع کرلو۔ دوسرے صوبوں کے جب تمام افراد کراچی آجائیں گے تو دیگر علاقوں میں خودبخود امن قائم ہوجائے گا (مگر پھر بھی ایسا ہوا نہیں) حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سارے پڑوسی ہم پر زبانی اور عملی طور پر حملہ آور ہیں، دنیا بھر میں ہمارا امیج بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور ہمارے یہاں کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں جو عالمی سطح پر اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا جواب دے اور اپنے امیج کو واضح کرے۔
دشمن اس حد تک کامیاب ہے کہ اب تو جس کے منہ میں جو آتا ہے ملک و قوم کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیتا ہے۔ قائد متحدہ نے ملک کے خلاف نعرے لگوادیے، تو اس سے قبل براہمداغ بگٹی نے کیا ملک کی شان میں قصیدہ پڑھا تھا اور محمود اچکزئی نے قومی ترانہ پیش کیا تھا ؟ ملک چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں ہے اور ہمارے سیاستداں ایک دوسرے کے عیب اچھال کر خود کو دودھ کا دھلا سمجھنے میں مصروف ہیں۔
کیا سیاست کے معنی ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا ہے؟ دراصل حکمرانوں کی پرتعیش زندگی دیکھ کر ہر کوئی کرسی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہا ہے۔ جب کہ دیگر ممالک میں حق حکمرانی ان کو دیا جاتا ہے جو نچلی سطح سے عوام ک ی خدمت اور ان کے حق کے محافظ ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاستداں عوام کی خدمت کرنے کے بجائے عوام سے اپنی خدمت کراتے ہیں۔ ان کو ایک وقت ایک پلیٹ بریانی کھلا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد انھیں بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ پورے عرصہ حکمرانی عوامی بہبود کا کوئی منصوبہ زیر غور ہی نہیں آتا۔ مگر دعویٰ یہ کہ ہم تو اگلا انتخاب بھی اکثریت سے جیتیں گے۔ کیوں نہ جیتیں دولت میں بڑی طاقت ہے۔