پھر چاک زندگی کو رفوگر ’’نہ ملے گا‘‘

رفوگری کا فن مر رہا ہے، اس پیشے سے وابستہ افراد حالات کے باعث اپنی زندگی کے اُدھڑے بخیے بھی سینے سے عاجز.


فوٹو : فائل

ہُنر اور ہُنرمند، فن اور فن کار، دست کاری اور دست کار، دنیا بھر میں ان کی قدر کی جاتی ہے۔

انہیں قومی اثاثہ سمجھا جاتا ہے، ان کے فن پارے آرٹ گیلریوں کی زیب و زینت بننے کے ساتھ ان کے لیے آسائشوں کے دَر کھولتے ہیں۔ دنیا بھر میں مرتے ہوئے فنون کو دوبارہ زندگی دینے کے لیے ہر ممکن تدابیر کی جا رہی ہیں۔ انہیں تعلیمی ادارے اپنے نصاب کا حصّہ بنا رہے ہیں، تاکہ نئی نسل کو اپنے ماضی سے سیکھنے کا موقع ملتا رہے۔ دنیا بھر میں جہاں اب ہر کام کے لیے مشین ایجاد ہوچکی ہے۔

سہولتیں اور آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، ایسے میں دست کاری کی اہمیت کم نہیں ہوئی، مزید بڑھ گئی ہے۔ ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء بیش قیمت اور فیشن کا حصہ ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کیا صورت حال ہے، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ فن اور فن کار کی حالت روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔

فنِِ رفوگری بھی ان ہی فنون میں سے ایک ہے، جو دم توڑ رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل تو رفوگری کے بارے میں سرے سے لاعلم ہے۔ برادر اسلامی ملک ایران میں آج بھی رفو گروں کی قدر کی جاتی ہے۔ انہیں سماج میں ایک فن کار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ وہ آسودگی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنا فن نئی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ اسی طرح جاپان میں بھی ہے۔ فنِ رفوگری کا دم توڑتا ہوا ہنر۔۔۔۔۔ کیا گلہ کیا جائے کہ یہاں تو انسان دم توڑ رہا ہے۔ مہذب اقوام اپنے ہنر مندوں کی قدر کرتی ہیں، ہم تو یہاں قدر کے لفظ سے بھی ناآشنا ہیں۔ لیکن سوال داناؤں کے لیے ہوتے ہیں، ہم نے فنِ رفوگری کے دو ماہرین سے گفتگو کی ہے۔ دیکھیے، وہ کیا کہتے ہیں۔

علی بھائی کی کہانی:

محمد علی کو لوگ علی بھائی کے نام سے پکارتے اور پہچانتے ہیں، اب ان کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے، فنِ رفوگری کے ماہر، خوش خلق اور ملن سار علی بھائی سے ہم نے پوچھا، رفو کیا ہوتا ہے اور وہ اس فن کی طرف کیسے آگئے؟ علی بھائی مسکرائے اور دریا رواں ہوا۔

میں تو جب گھر سے نکلا تو نیکر پہنے ہوئے تھا، مطلب یہ کہ واقعی بہت چھوٹا تھا، والد کا سایہ سر پر سے اٹھ گیا تھا، کوئی نہیں تھا، چچا، ماموں، بھائی کوئی بھی نہیں۔ بس ایک میں اور میری ماں، بس دو رہ گئے۔ والد کے انتقال کے بعد ظاہر ہے مجھے باہر نکلنا تھا، سو میں نکلا۔ کام کی تلاش میں نکلا تو میں نے نیکر پہنا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، بس قسمت لے آئی یہاں تک۔ میں ایک ڈرائی کلین کی دکان کے سامنے کھڑا ہوا دیکھ رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ ان سے پوچھوں، کوئی کام ہے تو دے دیجیے۔

04

میں نے ہمت کی تو دکان دار نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہ کیوں کام کرنا چاہتے ہو؟ میں نے اپنے حالات بتائے تو انہوں نے مجھے اپنی دکان پر صفائی وغیرہ کرنے اور کپڑوں پر نشان لگانے کے لیے رکھ لیا۔ بس اس طرح میرا سفر شروع ہوگیا۔ 1962ء میں مجھے اس دکان پر 12 گھنٹے کام کے صرف 60 روپے ملتے تھے۔ مرتا کیا نہ کرتا، لیکن کام بہت زیادہ تھا اور تن خواہ کم تھی۔ ہماری دکان کے باہر ایک رفو گر بیٹھا کرتا تھا۔ میں اسے کام کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وہ اپنی مرضی سے آتا تھا۔ جب چاہے چھٹی کرکے چلا جاتا تھا، اس کے باوجود وہ مہینے میں چار پانچ سو روپے کما لیتا تھا۔ مجھے پیسوں کی تو ضرورت تھی ہی اور پھر میں دکان پر کام کرتے کرتے تھک بھی جاتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے رفو کا کام سیکھ لینا چاہیے۔ اب دکان چھوڑ کر تو میں یہ فن سیکھ نہیں سکتا تھا۔ جب دوپہر میں لوگ کھانا کھاتے تھے، میں اس رفو گر کو دیکھتا رہتا تھا کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔

دیکھنے میں ہی تین سال گزر گئے۔ قریب ہی ایک اور رفوگر کام کرتے تھے۔ میں نے ان سے بات کی کہ مجھے کام سکھائیں، انہوں نے کہا کہ کھانے کے وقفے میں تم یہ کام نہیں سیکھ سکتے۔ لیکن انہوں نے میرے شوق اور مشاہدے کو دیکھتے ہوئے اتنی مہربانی ضرور کی کہ سوئی میں دھاگا ڈالنا سکھایا۔ ہم سوئی میں دھاگا ایک خاص طریقے سے ڈالتے ہیں، پھر ہوا یوں کہ ہماری دکان کے مالک نے ایک اور دکان کھول لی اور مجھے وہاں بھیج دیا۔

اب ایک عجیب سی بات آپ کو بتاتا چلوں جو آدمی ایک مرتبہ ڈرائی کلین کی دکان پر کام کرچکا ہو اسے دوسرا کام نہیں بھاتا۔ یہ ڈرائی کلین کی دکان عجیب پُراسرار سی ہوتی ہے۔ اچھا تو ڈرائی کلین اور رفوگر ایک دوسرے کے بغیر کام نہیں کرسکتے۔ اب بھی آپ دیکھیں رفوگر آپ کو ہمیشہ ڈرائی کلینر کے پاس ہی بیٹھے ہوئے ملیں گے۔ رفوگر اور دکان والے کا ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ کام دکان والے کے پاس آئے یا رفوگر کے پاس 70 فی صد رفوگر لیتا ہے اور 30 فی صد دکان والا، لیکن رفوگر آنے جانے میں دکان والے کا پابند نہیں ہوتا۔ اتنا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے اور جو وقت دیا جائے اس پر گاہک کو کام مل جائے۔

جب میں دوسری دکان پر چلا گیا تو وہاں بھی ایک رفوگر تھا۔ میں نے ان سے بات کی کہ میں مجبور ہوں، مجھے کام سکھا دیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا مجبوری ہے، تو میں نے انہیں بتایا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے، بس میری ایک ماں ہے اور ساری ذمے داری میری ہے۔ انہوں نے بہت شفقت کی اور مشورہ دیا کہ تم آدھا دن دکان پر کام کرو اور آدھا دن میرے پاس بیٹھو۔ تب جاکر یہ کام سیکھ سکو گے، اور میں تمہیں بہت جلد یہ کام سکھانے کی پوری کوشش کروں گا۔ میں نے دکان والے سے بات کی تو وہ اس بات پر راضی ہوگئے۔ اس طرح میں اپنے استادِ محترم جناب غلام محمد کشمیری کے پاس کام سیکھنے لگا۔ میرے استاد گرامی بہت نام ور کاری گر تھے۔ میرا مشاہدہ بھی تھا اور سوئی میں دھاگا ڈالنا سیکھ گیا تھا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میرے استاد محترم مجھے بہت توجہ اور پیار سے کام سکھانے لگے۔ اللہ کا احسان کہ میں تین سال میں ہی کام سیکھ گیا۔

رفو کی تین اقسام ہیں، ایک ہوتی ہے ''رفو مجازی''، دوسری ہوتی ہے ''رفو تارتوڑ'' اور پھر ''عام رفو''۔ رفو مجازی میں بہت مہارت درکار ہوتی ہے۔ اس میں تانا بانا بہت اہم ہوتا ہے۔ تانا اوپر سے نیچے آنے والے دھاگے اور بانا سیدھے دھاگے کو کہتے ہیں، یعنی تانا بانا ایک دوسرے کو کراس کرتے ہیں۔ رفو مجازی میں پورے دھاگوں کا حساب رکھ کر رفو کیا جاتا ہے، رفو مجازی پر بالکل اصل کا گمان ہوتا ہے۔ وہ سامنے سے دیکھنے پر تو بالکل اصل لگتا ہے، لیکن نیچے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ رفو شدہ ہے۔ ''تار توڑ رفو'' میں ہر دھاگے کو نیچے سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ بہت محنت طلب کام ہے۔ جس کپڑے پر تار توڑ کام کیا جائے وہ نیچے سے بھی بالکل اصل لگتا ہے۔

عام رفو میں بس سوراخ کو بند کرنا ہوتا ہے۔ میں کام سیکھ گیا تو میرے استاد نے کہا، تم دعا کرو کہ میں دبئی چلا جاؤں۔ اس زمانے میں لوگوں پر دبئی کا جنون سوار تھا۔ استاد نے کہا کہ میں دبئی چلا گیا تو تمہیں یہ ٹھیّا دے کر جاؤں گا۔ یہ بات میں آپ کو بتا رہا ہوں 1970ء کی۔ پھر میرے استاد دبئی چلے گئے اور مجھے اپنا ٹھیّا مل گیا۔ بہت خوشی ہوئی مجھے کہ کام سیکھ کر اپنا ٹھکانا بھی مل گیا۔ اب میں اچھے پیسے کمانے کے ساتھ آزاد بھی تھا۔ ہمارے کام میں ایک سوئی درکار ہوتی ہے۔ دھاگے تو ہم اسی کپڑے میں سے نکال لیتے ہیں۔ اگر باہر سے دھاگا لیں تو میچنگ بہت مشکل سے ملتی ہے۔ بس ایک سوئی ہو، انسان جم کر، بیٹھ کر، دھیان سے کام کرے اور ذہانت ہو اور محنت کرے تو وہ ایک اچھا رفوگر بن سکتا ہے۔

میرے تین بچے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ بیٹی تو بیاہ دی، ذمے داری ادا کردی۔ دونوں بچے پڑھ لکھ گئے۔ اب وہ کام کرتے ہیں۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ جب اس رفو کے کام میں آزادی ہے تو آپ نے اپنے بچوں کو یہ کام کیوں نہیں سکھایا تو ایسا نہیں ہے۔ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو یہ کام سکھانے کی پوری کوشش کی۔ کچھ کام سکھایا بھی۔ لیکن آپ جانتے ہیں، نئی نسل کو اس کام کا شوق نہیں ہے۔ میں نے بہت سارے لوگوں کو کام سکھایا، لیکن دنیا کا دستور ہے، پرندوں کی طرح ہوتے ہیں شاگرد۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پرندے کے بچے جب تک چھوٹے ہوں وہ اپنے گھونسلے میں رہتے ہیں اور جب پَر نکل آئیں تو وہ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے، بس دنیا یہی ہے۔ بزرگوں کی یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ہنرمند بھوکا نہیں مرتا۔ کمی بیشی تو ہوتی رہتی ہے، میں نے اسی کام میں اپنا گھر بنایا، شادی کی، بچوں کی اچھی طرح سے پرورش کی، بیٹی کی شادی کی، بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ میں نے بہت محرومیاں دیکھیں، لیکن محنت سے جی نہیں چرایا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا صلہ بھی دیا۔

آپ صحیح کہہ رہے ہیں، یہاں فن و فنکار کی قدر نہیں ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک دن ایک شیخ میرے استاد کے پاس ایک کپڑا لے کر آیا۔ استاد نے کھول کر دیکھا تو اس پر دھاگوں سے ایک بہت ہی عالی شان خوب صورت مور بنا ہوا تھا، لیکن مور کا سر اور گردن نہیں تھی۔ وہ بوسیدہ ہوکر پھٹ گئی تھی، شیخ نے میرے استاد سے پوچھا اسے رفو کرسکتے ہو؟ استاد نے بہت سوچ کر کہا، انشاء اللہ ضرور کرلوں گا۔ جب معاوضے کی بات ہوئی تو استاد نے اب مجھے اصل رقم یاد نہیں، یوں سمجھیے کہ بہت زیادہ پیسے مانگے۔ استاد یہ سمجھے کہ اتنے پیسے نہیں دیں گے اور چلے جائیں گے۔ اس طرح میری جان بچ جائے گی، لیکن وہ شیخ صاحب راضی ہوگئے۔ اب تو استاد کو یہ کام کرنا ہی تھا۔

استاد نے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اس کام پر توجہ دینی شروع کی۔ پورا ایک ماہ لگ گیا، لیکن صاحب جب وہ تیار ہوا تو آس پاس کے لوگوں کی عقل دنگ رہ گئی۔ بال برابر بھی فرق نہیں تھا، حالاں کہ اتنے سارے رنگوں کے دھاگے استعمال ہوئے تھے۔ مور میں رنگ بھی تو بہت سارے ہوتے ہیں ناں۔ شیخ صاحب آئے تو انہیں دکھایا وہ بہت دیر تک حیرت سے استاد کو دیکھتے رہے۔ پھر جتنا معاوضہ طے ہوا تھا اس سے دس گنا زیادہ معاوضہ دیا اور استاد کو بہت داد دی۔ حوصلہ افزائی کا زمانہ تھا۔ قدر کرتے تھے لوگ۔ اب تو بس گزارہ ہے یہاں۔ ہنر کی قدر ہی نہیں ہے۔ پہلے مہنگائی کم تھی، آمدن خاصی تھی، میں نے اس کام میں ہفتے میں آٹھ، دس ہزار روپے کمائے ہیں۔ سستا دور تھا، گزر بسر بہت اچھی تھی، بلکہ خوش حالی تھی، بچت بھی ہوجاتی تھی۔ لوگوں میں دکھاوا اور اسراف نہیں تھا، نہ ہی لوگ فضول خرچ تھے، جتنے کپڑے آج لوگ بناتے ہیں اس زمانے میں نہیں بناتے تھے۔ دونوں عیدوں پر بنا لیتے تھے۔ وہ بھی بس دو تین جوڑے، جو سال بھر چلتے تھے، بلکہ سالہا سال۔ لوگوں میں بچت کی عادت تھی۔ جب کوئی کپڑا پھٹ جاتا تھا تو لوگ رفو کرالیا کرتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

دکھاوا ہے، اک دوجے کو نیچا دکھانے کے لیے، لوگ فضول خرچی کرتے ہیں۔ اب بھی دن بھر میں تین چار لوگ آ ہی جاتے ہیں، اتنا کام نہیں ہے۔ ہم تقریباً 18 ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔ کبھی کم بھی ہوجاتے ہیں، اور جب ہڑتال ہو یا حالات خراب ہوں تو کام بھی بہت متاثر ہوتا ہے۔ اب لوگ صرف وہ کپڑے رفو کرواتے ہیں، وہ بھی پہلی نسل کے ، جن کے کپڑے بہت قیمتی ہوں۔ ظاہر ہے اگر پچاس ہزار روپے کا سوٹ خراب ہوجائے اور وہ ہزار روپے میں بہترین رفو ہوکر دوبارہ استعمال کے قابل ہوجائے، تو اس سے اچھی بات کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مہنگائی میں لوگ اپنے کپڑے زیادہ رفو کرواتے اور انہیں استعمال کرکے بچت کرتے، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اب نئی نسل رفو کرانا اچھا نہیں سمجھتی، اگر ان کی جینز پھٹ جائے تو اس پر اسٹیکر لگا لیتی ہے بلکہ جینز بوسیدہ ہوکر جگہ جگہ سے پھٹ جائے تو زیادہ فیشن والی ہوجاتی ہے۔

اب تو ریڈی میڈ کا زمانہ ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سب ہی بے قدرے ہیں۔ اب بھی کام ہے، اب کام کرنے والا نہیں ہے۔ رفوگری کا فن دم توڑ رہا ہے، کچھ عرصہ پہلے ایک درزی میرے پاس آیا، ایک کوٹ لے کر ،کہ آپ اسے رفو کرسکتے ہیں؟ میں نے دیکھا تو خاصا کام تھا۔ میں نے کہا کوشش کرتا ہوں۔ وہ بہت پریشان تھا۔ کہنے لگا، پوری کوشش کریں، میں بہت پریشان ہوں۔ ایک گاہک باہر سے یہ کپڑا لائے تھے، غصے کے بھی بہت تیز ہیں۔ تقریباً70 ہزار کا سوٹ بنا ہے، کوٹ بُری طرح سے کٹ گیا ہے۔ آپ مہربانی فرمائیں۔ میں نے وہ کوٹ اُسے صحیح کرکے دیا۔ معاوضہ تو اتنا نہیں ملا، لیکن اس کے سر سے بلا ٹل گئی۔ خوشی بھی ہوتی ہے ایسا کام کرنے میں، لیکن ہمارے ہاں فن کو زوال آگیا ہے اور دہشت گردی ترقی کر رہی ہے۔ اسی طارق روڈ پر اتنے غیر ملکی گھومتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ان سے کام بھی ملتا تھا۔ خوشی بھی ہوتی تھی۔ اب تو غیر ملکی کیا ، مقامی بھی سکون سے نہیں گھوم سکتے۔ ہمیں نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔

میں نے اس کام میں آسودگی سے زندگی گزاری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ محنت کا کام ہے، آنکھوں پر بہت اثر پڑتا ہے، بیٹھ کر کام کرنے سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ گھٹنے پر کپڑا رکھ کر رفو کرنا پڑتا ہے، تو درد بھی ہوتا ہے، لیکن مجھے بتائیے، کس کام میں یہ سب نہیں ہوتا؟ ہماری نئی نسل محنت سے جی چراتی ہے اور محنت کے بنا کوئی بڑا کام تو کیا، چھوٹا سا کام بھی نہیں ہوسکتا۔ میں خوش ہوں کہ میں نے یہ کام سیکھا۔ اپنے شاگردوں کو بھی سکھایا، لیکن میرا فن میرے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا، یہ سوچ کر میں اکثر دکھی ہوجاتا ہوں۔

ہر جملے میں ''اللہ بھلا کرے'' کی دعائیں دینے والے، خوش خلق، ملن سار علی بھائی اپنے اس عظیم فن کو مرتا ہوا دیکھ کر رنجیدہ ہیں۔

عبدالستار صاحب نے فنِ رفوگری میں 1971 میں قدم رکھا۔ ان کے بڑے بھائی کا شمار بھی اس فن کے ماہرین میں ہوتا تھا۔ انہیں رفوگری سیکھنے میں چار سال لگ گئے، لیکن مہارت حاصل کرنے میں تو برس ہا برس لگے۔ اب ان کا شمار بھی بہت سینیر لوگوں میں ہوتا ہے، لیکن وہ اب بھی خود کو ماہر نہیں سمجھتے۔ عبدالستار اپنے کام سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے آسودگی سے جیون گزارا ہے۔ ان کے چار بچے ہیں، لیکن ایک بھی اس فن کی طرف نہیں آیا۔ انہیں شکوہ ہے کہ یہ فن آہستہ آہستہ مر رہا ہے اور نئی نسل اس طرف نہیں آرہی۔ اس کی وجہ وہ نوجوان نسل کی کاہلی سمجھتے ہیں۔ عبدالستار نے بہت تلخ لہجے میں بتایا، ہماری نئی نسل محنتی نہیں ہے اور یہ کام بہت محنت اور دل جمعی سے کرنے کا ہے، ہماری نئی نسل میں مستقل مزاجی نہیں ہے، وہ دوسروں کی غلامی کرنے میں خوشی اور اپنا ہنر سیکھنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے ان سے اختلاف کیا تو وہ کہنے لگے۔

دیکھیے صاحب میرا تجربہ تو یہی ہے۔ میرے بچے بھی اس فن کی طرف نہیں آئے، ہاتھ کا ہنر انسان کو آزاد رکھتا ہے۔ محنت تو ہر کام میں کرنی پڑتی ہے۔ کھانا کھانے میں بھی تو محنت ہوتی ہے۔ اگر وہ یہ کام سیکھتے تو آزاد رہتے، اور یہ فن بھی آگے بڑھتا۔ یہ بات درست ہے کہ اب یہ کام پہلے سے کم ہوگیا ہے، یہ ہوائی روزی ہے، کبھی پانچ، سات گاہک آجاتے ہیں، کسی دن بالکل بھی نہیں آتے۔ میں نے اس کام میں بہت اچھے پیسے کمائے ہیں، بچت بھی کی ہے، اب بھی پندرہ سولہ ہزار روپے کما ہی لیتا ہوں۔ اس مہنگائی میں اتنے پیسوں سے گزارہ نہیں ہوتا، مشکل سے گزر بسر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں فن کی قدردانی نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ فن ہی چھوڑ دیا جائے۔

دیگر ممالک میں اس فن کی قدر ہے۔ وہ باشعور قومیں ہیں، ہم قوم ہیں کہاں؟ ہم تو منتشر عوام ہیں، وقتی نعرہ بازی میں اپنا وقت برباد کرنے والے۔ فن تو بہت لاڈ مانگتا ہے۔ یہ ایک لاڈلے بچے کی طرح سے ہوتا ہے، آپ اگر اسے توجہ نہ دیں تو یہ روٹھ جاتا ہے۔ بے قدرے کبھی فن کی قدر نہیں کرتے، لیکن فن کار اپنے فن کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ انسان محنت کرے تو فن اُسے کبھی تنگ دست نہیں ہونے دیتا۔ ہم اور ہمارے استادوں نے اس فن کو خونِ جگر سے سینچا تھا، لیکن اب یہ فن ہمارے سامنے مر رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اب میری عمر بھی اتنی ہوگئی ہے، میرا فن میرے ساتھ ہی مرجائے گا۔ کیا سناؤں جی جلتا ہے اور آپ نے سنا تو ہوگا ناں:

آنسو نہ بہا' فریاد نہ کر
دل جلتا ہے تو جلنے دے

رفو گروں کی کہانی' جو ہر رفو گر سناتا ہے

پرانے زمانے میں بادشاہ ہوا کرتے تھے اور بادشاہ تو پھر بادشاہ ہوتے ہیں، ان ہی میں سے ایک بادشاہ تھا ، لیکن بہت دانا، بینا اور عقل مند ۔ اس زمانے میں کاغذ کے نوٹ نہیں ہوا کرتے تھے، سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے۔ لین دین انہی میں ہوتا تھا۔ دولت مند لوگ سونے کی اشرفیاں رکھتے تھے۔ مال و دولت جمع کرنے کا جنون تو انسان اپنے ساتھ ہی لایا ہے، ہابیل اور قابیل کا بھی یہی مسئلہ تھا۔ زن، زر اور زمین ہر دور میں فساد کی جڑ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

خیر! بادشاہ کے پاس سونے کی اشرفیوں کا انبار تھا اور اشرفیاں مضبوط کپڑے کی تھیلیوں میں رکھی جاتی تھیں۔ بہت نقش و نگار والی خوب صورت اور مضبوط تھیلیاں۔ آج بھی جو پرانے بڑے بوڑھے لوگ ہیں، ان کے پاس ہوتی ہیں، خاص کر وہ بزرگ خواتین جو پان سے شوق فرماتی ہیں۔ ان تھیلیوں میں کتری ہوئی چھالیا، لونگ اور الائچی رکھتی ہیں ۔ ایک دن بادشاہ کو اس کے دوست نے اشرفیوں کی تھیلی تحفے میں بھیجی۔ غلام جو تھیلی لارہا تھا بہت وزنی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس میں سونے کی اشرفیاں ہیں تو وہ لالچ میں آگیا اور وہ سوچنے لگا کہ اب تھیلی میں سے اشرفیاں کیسے نکالوں۔ اس لیے کہ تھیلی سر بہ مہر تھی۔ اس پر تو بادشاہ کے نام کی مہر لگی ہوئی تھی۔

بہت سوچ بچار کے بعد اس غلام کے ذہن میں یہ بات آئی کہ تھیلی کو نیچے سے کاٹ کر اشرفیاں نکال لی جائیں، پھر کیا تھا اس نے یہی کیا، خاصی سونے کی اشرفیاں نکال لیں ۔ لیکن اب یہ بھی مسئلہ تھا کہ تھیلی کو کیسے سیا جائے کہ کاٹنے کا شبہ تک نہ ہو۔ تو وہ تھیلی لے کر ایک بہت ماہر کے پاس پہنچا۔ اس نے وہ تھیلی اس مہارت سے سی دی کہ بالکل پتا نہیں چلتا تھا ۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ کون ماہر تھا ؟ جی، وہ ایک رفوگر تھا ۔

بادشاہ کی خدمت میں جب وہ تھیلی پہنچی اور اس نے اسے کھول کر دیکھا، تو اسے شک ہوگیا کہ تھیلی میں اشرفیاں کم ہیں۔ لیکن وہ خاموش رہا، جب اسے تنہائی ملی اور اس نے غور سے دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ اشرفیاں غلام نے خورد برد کرلی ہیں ۔ اب بادشاہ نے ایک منصوبہ بنایا اور اپنا شاہی لباس ایک جگہ سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اس غلام نے جب وہ شاہی لباس دیکھا تو بہت پریشان ہوا کہ اتنا قیمتی لباس شاید اس کی غفلت کی وجہ سے کٹ گیا ہوگا۔ وہ پھر سے اس ماہر کے پاس گیا اور اسے درست کراکر لے آیا۔

دوسرے دن بادشاہ نے اپنے منصوبے کے مطابق وہ لباس دیکھا تو غلام کو طلب کیا اور پوچھا کہ یہ لباس کس طرح درست ہوگیا؟ آخر وہ اس ماہر تک پہنچ گیا۔ ماہر کو اس نے اپنے دربار میں طلب کیا۔ جب وہ آیا تو بادشاہ نے اسے اشرفیوں والی تھیلی دکھائی اور دریافت کیا کہ اسے بھی تم نے درست کیا تھا؟ ماہر نے اقرار کرتے ہوئے تسلیم کرلیا کہ میں نے درست کی تھی ۔ اس طرح بادشاہ نے سر بہ مہر تھیلی میں سے اشرفیاں خورد برد کرنے والے اپنے غلام کر برخاست کرکے قید کردیا اور اس ماہر رفوگر کو اپنے پاس دربار میں رکھ لیا۔

یہ کہانی کم و بیش ہر رفو گر کو یاد ہے ۔ جب آپ ان سے پوچھیں کہ جناب رفوگری کی ابتداء کیسے ہوئی؟ تو وہ آپ کو یہی کہانی سنائیں گے۔ الفاظ و انداز یقیناً مختلف ہوں گے۔ لیکن مرکزی خیال یہی ہوگا۔

رفو کی تاریخ:
رفو کی تاریخ پر حتمی بات کرنا انتہائی مشکل ہے۔ گمانِ غالب ہے کہ انسان نے ابتداء میں تن ڈھانپنے کے لیے پتوں کا استعمال کیا، رفتہ رفتہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق کپڑا ایجاد ہوگیا۔ تب سے رفو نے بھی جنم لیا۔ رفو ایک ایسا ہُنر ہے جس سے کپڑے کے سوراخ کو دھاگے سے بھرا جاتا ہے۔ انسان نے جب کپڑا ایجاد کیا تب اس کا حصول بھی انتہائی مشکل تھا ۔ امراء ہی اُسے استعمال کرتے تھے۔ استعمال کے دوران کپڑے میں سوراخ ہوجایا کرتے تھے، تو انسان نے اسے دھاگے کی مدد سے بھرنا شروع کیا۔

یوں رفو کا ہُنر وجود میں آگیا۔ دورِ جدید تک آنے میں رفو کا سفر بھی ترقی اور جدّت کے مراحل طے کرتا رہا۔ رفوگری کو جاپانی زبان میں ''شی شی کو'' کہا جاتا ہے۔ اب جاپان میں اس فن نے بہت ترقی اور جدّت پیدا کرلی ہے۔ اس سے شاہ کار تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ رفو کا ہنر دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ رفو اب پھٹے ہوئے پرانے کپڑوں کو درست کرنے میں ہی استعمال نہیں ہو رہا ، بلکہ اب یہ فیشن میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ 1700 کے بنے ہوئے رفو شدہ کپڑوں کے نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ جنہیں ''نیڈل ورک میگزین'' نے جون 1996 کے شمارے میں شایع بھی کیا۔ نیڈل ورک میگزین سوئی دھاگے کی مدد سے رفو شدہ کاموں کی تشہیر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کا ہر شمارہ خاص شمارہ ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں