یادگار تقریبات اور ملاقاتیں
کراچی میں جشن آزادی کے جلوے اور رونقیں ایک طویل عرصے کے بعد دیکھ رہا تھا اور دل کو ایک ٹھنڈک سی محسوس ہورہی تھی
کراچی شہر ہمیشہ سے مختلف نوعیت کی تقریبات کا مرکز رہا ہے اور لوگ روزانہ ہی آپس میں ملنے ملانے کے بہانے تلاش کیا کرتے تھے، مگر اب لگتا ہے کراچی کو کسی کی نظر لگ گئی ہے اور پھر شہر کی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کراچی کے طول و عرض میں نہ سمائی جارہی ہے اور نہ ہی سنبھالی جارہی ہے۔ ٹریفک ایک مسلسل عذاب کی شکل اختیار کرچکا ہے، اب لوگ سڑکوں پر ٹریفک جام کی صورت میں مبتلا ہوکر خود کو بے یارومددگار محسوس کرنے لگے ہیں اور اب ہر کوئی گھر سے بلاضرورت نکلتے ہوئے گھبراتا ہے اور سو بار سوچتا ہے کہ وہ کسی شام یا رات کسی سے ملنے جائے یا نہ جائے اور اب یہ صورتحال کراچی کے لوگوں کے لیے روز بروز پریشانی میں اضافے کا باعث بنتی جارہی ہے، بس اب شادی بیاہ کی تقریبات رہ گئی ہیں جو لوگوں کے مل بیٹھنے اور ملاقاتوں کے وسیلے بناتی ہیں۔
گزشتہ دنوں میں چار ہفتوں کے لیے نیو جرسی سے کراچی آیا تو میرا پہلا مقصد اپنے چھوٹے بیٹے فہد علی کی شادی کا فریضہ ادا کرنا تھا اور تمام رشتے داروں، احباب اور دیرینہ دوستوں کو یکجا کرنا تھا۔ سو اس مقصد میں مجھے کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی اور اس شادی کے سلسلے میں کافی دنوں کے بعد میری بہت سے دیرینہ دوستوں سے بھی ملاقات رہی، جن میں دوست محمد فیضی، مختار علی عاقل، پروفیسر غیاث وہاب خان، آفتاب زیدی، ضیاء الاسلام زبیری اور صحافی دوستوں میں خاص طور پر اطہرظہیر صوفی، وسیع قریشی، جنید رضوی، پروفیسر مظہر، مشہور نیوز کاسٹر رائٹر اور کے ایم سی کے میڈیا منیجر علی حسن ساجد، رائٹر اور ڈپٹی میڈیا منیجر اطہر اقبال اور مقامی صحافی اور چھوٹے بھائی صابر علی کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری سندھ سمیع صدیقی نے بھی بطور خاص میرے بیٹے کے ولیمے میں شرکت کی۔
اس اہم تقریب کے بعد ہی جشن آزادی کی تقریب آگئی اور میں تیرہ سال کے بعد 14 اگست کی اس تقریب کا حصہ بننے کے لیے کراچی میں موجود تھا۔ کراچی شہر خوب سجا ہوا تھا، جشن آزادی کے رنگ سارے شہر میں بکھرے ہوئے تھے، مختلف گلیوں، چوراہوں پر یوم آزادی کے گیت بجائے جا رہے تھے اور جب میں نے یہ گیت سنا ''یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران، اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان'' تو میں ایک کونے پر چپ چاپ کھڑا رہا اور یہ گیت سنتا رہا جو میرے کانوں سے ہوتا ہوا میرے دل کے دریچوں تک پہنچ گیا تھا۔
اور میری آنکھیں کچھ دیر کے لیے نم ہوگئی تھی۔ پھر مجھے نیویارک میں پاکستان ڈے پریڈ کے مناظر بھی یاد آگئے، جہاں پاکستان ڈے ہر سال بڑی آن بان سے نہ صرف نیویارک بلکہ جس جس ریاست میں پاکستانی رہتے ہیں وہ بڑی خوش دلی سے یوم پاکستان کا جشن مناتے ہیں اور نیویارک کے علاقوں خاص طور پر براڈ وے اور بروکلین میں تو پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اپنے وطن کا پرچم ہاتھوں میں لیے موجود ہوتے ہیں اور ہر سال پاکستان سے مشہور فنکاروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران نیویارک میں جشن آزادی کی تقریبات میں میری بے شمار فنکاروں سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، جن میں خاص طور پر اداکار مصطفیٰ قریشی، عمر شریف، ثمینہ پیرزادہ، ریما، رونا لیلیٰ، عالمگیر، فریحہ پرویز، شازیہ منظور، ارشد محمود اور شاہدہ منی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ اب میں پھر کراچی کی طرف آتا ہوں۔
کراچی میں جشن آزادی کے جلوے اور رونقیں ایک طویل عرصے کے بعد دیکھ رہا تھا اور دل کو ایک ٹھنڈک سی محسوس ہورہی تھی اور میرے لیے یہ بھی بڑی خوشی کی بات تھی کہ جشن آزادی محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا اور جس میں خود میں بھی شامل تھا اور اس کو میں اپنی خوش قسمتی سمجھ رہا تھا۔ اس مشاعرے کی صدارت کراچی کے ایک بہت ہی نامور اور بزرگ شاعر رسا چغتائی کررہے تھے، جو اب 80 برس سے بھی زیادہ عمر کے ہوچکے ہیں اور یہ ہم سب کے لیے دبستان ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس مشاعرے میں کراچی کی نامی گرامی ادبی شخصیات نے شرکت کی تھی۔
جن شعرا اور شاعرات نے اس مشاعرے میں شرکت کی ان میں ڈاکٹر فاطمہ حسن، حجاب عباسی، پروین حیدر، وضاحت نسیم،، عارف شفیق، عقیل عباس جعفری، اے ایچ خانزادہ، فاضل جمیلی، قیصر وجدی، سلمان صدیقی، سعید آغا، سحر حسن، رضیہ سلطانہ، کشور عدیل جعفری، قیصر منور، گل دہلوی، بہزادم بھرم، اورنگ زیب، سجاد ہاشمی اور دیگر نے کلام پیش کیا اور مہمان اعزازی کے طور پر میں نے بھی اس مشاعرے میں ایک غزل اور ایک نظم کراچی کے بارے میں سنائی جس کا عنوان تھا ''یہ شہر تو پیار سمندر تھا''۔ مشاعرے کی میزبانی کے فرائض علی حسن ساجد اور سید نصرت نے انجام دیے تھے جب کہ مہمان خصوصی ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ اب کراچی اپنی ادبی، علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کی طرف لوٹ رہا ہے اور کراچی کے لوگوں نے اس مشاعرے میں جوق در جوق شرکت کرکے اخوت، یگانگت، شائستگی، مساوات اور محبت کو فروغ دیا ہے۔
میری کراچی سے نیو جرسی واپسی میں ابھی دو ہفتے باقی تھے، اسی دوران میرے چھوٹے بھائی اور مقامی صحافی صابر علی نے بتایاکہ سابقہ رکن اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر راحیلہ ٹوانہ نے میرے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا ہے اور وہ اپنے ثقافتی ادارے پاکستان اسٹڈی سرکل کی طرف سے امریکا میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں میری خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک تقریب کا انعقاد کررہی ہیں۔
بھلا میں ان کی اس محبت اور اخلاص کو کیسے ٹھکراسکتا تھا۔ اتوار 20 اگست کو راحیلہ ٹوانہ کی ڈیفنس میں رہائش گاہ پر نہ صرف ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا بلکہ ایک شعری نشست بھی سجائی گئی جس کی صدارت دوست محمد فیضی صاحب نے کی اور مختار علی عاقل اور آغا مسعود حسین مہمان اعزازی کے طور پر شریک ہوئے۔ اس تقریب میں بھی کراچی کے مقامی صحافیوں کے علاوہ چیدہ چیدہ ادبی شخصیات نے شرکت کی اس دوران کراچی ہی کے ایک مشہور ادیب اور شاعر عرفان عابدی نے اپنی دو کتابوں کا تحفہ پیش کیا اور شعری نشست کا آغاز انھی کی غزل سے ہوا۔
اس دوران دوست محمد فیضی، آغا مسعود حسین اور صحافی صابر علی نے راحیلہ ٹوانہ کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں بھی سیر حاصل تبصرہ کیا اس دوران راحیلہ ٹوانہ نے بحیثیت نغمہ نگار، شاعرہ اور کالم نگار اپنے ثقافتی ادارے پاکستان اسٹڈی سرکل کی جانب سے ایک تعریفی سند کے ساتھ ایک تمغہ پیش کیا اور مجھے امریکا میں اپنے ادارے کا اعزازی سفیر بنانے کا بھی اعلان کیا، آخر میں کلام شاعر بزبان شاعر کے ساتھ نصف گھنٹے تک شعری محفل نے ایک چھوٹے سے مشاعرے کی صورت اختیار کرلی اور پھر رات گئے خوبصورت محفل بڑے خوشگوار انداز میں اپنے اختتام کو پہنچی۔
(نوٹ: گذشتہ ایک کالم میں یونس ہمدم نے معروف شاعر شبی فاروقی کے حوالہ سے لکھا تھا کہ ''وہ گوشہ نشین ہوگئے تھے ، پھر پتا چلا کہ وہ کینیڈا چلے گئے، میرا ان سے کافی دنوں سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔'' اسی ضمن میں ایکسپریس کے رائٹر جناب عبدالقادر شیخ نے فون کر کے بتایا کہ شبی فاروقی کو انتقال ہوئے کئی برس ہوچکے ہیں، وہ کینیڈا شفٹ نہیں ہوئے تھے۔)