ایسے تھے وہ
تیکھی اور مسکراتی یادیں چھوڑ جانے والے اردشیرکائوس جی کا خاکہ بناتے کچھ دل چسپ قصے.
قدیم دانش کے پرچارک، دیپک چوپڑا نے کہا تھا:
''عمل، ایک یاد پیدا کرتا ہے!''
یاد۔۔۔ ہاں تیکھے اسلوب کے حامل، رسیلے کٹیلے، گجراتی تڑکے کے ساتھ اردو بولنے والے اُس خوش لباس شخص کا ہر عمل، ایک دمکتی یاد کی صورت، آج ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اور اِسی بابت سوچتے ہوئے، دریا کو کوزے میں بند کرنے کی انوکھی صلاحیت سے مالامال، خلیل جبران کی طرف ذہن چلا جاتا ہے، جس نے لکھا تھا:
''میرے خواب عجیب و غریب ہیں!''
کیا اردشیرکائوس جی کے سپنے بھی عجیب و غریب تھے؟ اِس سوال کا جواب اثبات ہی میں ہونا چاہیے کہ وہ بوڑھا، اور بہ ظاہر لاتعلق، شخص، ایک خاص قسم کی بے خوفی اور دیوانگی کے ساتھ، تن تنہا بدعنوان مافیا کے خلاف برسرپیکار رہا۔
ایک سمت جہاں کائوس جی کی بے باکی اور صاف گوئی اُن کی شناخت بنی، وہیں، اُن کی حسِ مزاح، یا اُن کے اُچھوتے انداز سے جنم لینے والی پُرمزاح صورت حال بھی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ یہاں، اِس تحریر میں، چند ایسی ہی یادیں کھوجنے، ایسے ٹکڑے اکٹھے کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا تعلق کائوس جی کے پُراثر، اور ایک حد تک چونکادینے والی شخصیت سے ہے۔ کاؤس جی کی شخصیت واقعات کی مدد سے بنایا گیا یہ خاکہ ان سے شرف ملاقات حاصل کرنے والوں میں سے چند کی یادوں تشکیل پایا ہے۔
٭ ''انڈیکس کہاں ہے؟''
بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار اور صحافی، محمد حنیف جب اُس شام کائوس جی سے ملے، تو ضعیف العمر کالم نگار کے سادہ جملوں میں چُھپتی معنویت بڑی خوبی سے آشکار ہوئی۔
یہ 2008 کا ذکر ہے۔ محمد حنیف کے ناول A Case of Exploding Mangoes کی تقریب رونمائی تھی۔ اِس ناول میں اُچھوتے ڈھب پر ضیاالحق کے دورِحکومت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقریب میں جب محمد حنیف کا کائوس جی سے سامنے ہوا، تو اُنھوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا،''تم نے ہسٹری پر کتاب لکھی ہے، مگر اِس میں انڈیکس کہاں ہے؟''
محمد حنیف نے کہا،''سر، یہ ناول ہے!''
اُنھوں نے اِسے ناول ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا،''تم جھوٹ بولتا ہے!''
محمد حنیف اُن کی بات میں چھپے معنی سمجھ گئے۔ بولے،''آپ دُرست ہی کہہ رہے ہیں۔ جھوٹ ہی لکھا ہے، کیوں کہ فکشن میں سب جھوٹ ہی ہوتا ہے۔''
٭ ''جب کائوس جی نے ہاتھ جھٹک دیا!''
بہ ظاہر کائوس جی لاتعلق اور لاابالی نظر آتے تھے، پر حقیقتاً وہ ایک چوکس انسان تھے۔ کون، کیا ہے، کس سے کس طرح ملنا ہے، اِس کا خوب علم تھا۔
سنیئر صحافی، نادر شاہ عادل 27 مئی 2007 کو، کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ اے پی این ایس ایوارڈ کے تقریب میں اُسی میز پر موجود تھے، جس کی ایک کرسی پر کائوس جی براجمان تھے۔
وہ بتاتے ہیں، کائوس جی آنکھیں بند کیے، اپنی چَھڑی کے دستے پر سر ٹکائے بیٹھے تھے۔ اِسی دوران کراچی سے نکلنے والے ایک روزنامے کے مدیر ہال میں داخل ہوئے۔ وہ سب سے ہاتھ ملاتے ہوئے اُس میز تک بھی آئے۔ دیگر سے مصافحہ کرنے کے بعد اُنھوں نے کائوس جی کی جانب ہاتھ بڑھایا، جو کسی گہرے خیال میں گُم تھے۔ ساتھ بیٹھے شخص نے کائوس کو متوجہ کیا۔ اُنھوں نے آنکھیں کھولیں۔ ہاتھ بڑھایا، لیکن جوں ہی سامنے کھڑے صاحب کا چہرہ دیکھا، اُنھیں ''چور'' گردانتے ہوئے غصے سے ہاتھ جھٹک دیا۔ اُن صاحب نے ازراہِ مذاق میز سے کانٹا اٹھا لیا، اور کائوس جی پر حملہ کرنے کی مضحکہ خیز پوزیشن بنالی۔ خیر، صورت حال زیادہ نہیں بگڑی۔ کائوس جی کرسی پر بیٹھے اُنھیں گھورتے رہے، اور وہ صاحب مسکراتے ہوئے دیگر میزوں کی جانب چلے گئے۔
٭ ''آپ مسلمانوں کے بارے میں اتنے تنقیدی کیوں ہیں؟''
آمرانہ اقدامات، ناانصافی اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والے کائوس جی نے بگڑتے حالات اور مایوسی کے باوجود ساری زندگی پاکستان میں گزاری۔ نام وَر نقاد اور دانش وَر، محمد علی صدیقی اُنھیں ایک محب وطن شخص کے طور پر دیکھتے ہیں، اور کائوس جی کے خاندان کو کراچی کا ''معمار خاندان'' گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی اُن کے مخصوص اور ایک حد تک غیرمحتاط انداز، لااُبالی طرز بیاں اور حس مزاح کا بھی ذکر کرتے ہے۔ وہ بتاتے ہیں:
''ایک بار علی امام کے ہاں کسی صاحب نے کائوس جی سے سوال کیا، آپ پاکستان اور مسلمانوں کے حوالے سے اتنی تنقیدی نگاہ کیوں رکھتے ہیں؟ اُنھوں نے، (غالباً، فارس سے زرتشت مذہب کے ماننے والوں کی نقل مکانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اپنے خاص انداز میں جواب دیا،''تم لوگوں نے ہمیں، ہمارے ملک سے نکال دیا، پھر ہم سے غیرتنقیدی ہونے کی توقع کیسے رکھ سکتے ہو!''
٭ ''ہر اردو اخبار آپ کا کالم ہضم نہیں کرسکتا!''
ایک ایسا وقت بھی آیا تھا، جب کائوس جی اپنے کالموں کی اشاعت کے لیے نئے امکانات پر غور کرنے لگے تھے۔
معروف ادیب اور صحافی، انور سن رائے یہ واقعہ سُناتے ہوئے 94ء میں پہنچ جاتے ہیں۔ اُن دنوں وہ روزنامہ پبلک، کراچی کے ایڈیٹر تھے۔ انقلاب ماتری اخبار کے سرپرست تھے، جن کے کائوس جی سے دوستانہ روابط کی بنا پر ''ڈان'' میں شایع ہونے والا اُن کا کالم، اردو میں ترجمہ ہو کر ''پبلک'' میں چَھپا کرتا۔ انور صاحب کے مطابق، کبھی کبھار کائوس جی کالم لے کر خود بھی چلے آتے۔
انور سن رائے کے بہ قول، اُن ہی دنوں کائوس جی نے اپنے ایک کالم میں فیڈرل سیکریٹری، سلمان فاروقی کو موضوع بنایا۔ ماتری صاحب سے مشورے کے بعد ''بپلک'' میں کالم، اگلے روز تک کے لیے، روک لیا گیا۔ اتفاقاً وہ ''ڈان'' میں بھی نہیں چھپا۔
اِس پر ناراض کائوس جی ''پبلک'' کے دفتر پہنچے۔ انور صاحب سے، اپنا تکیہ کلام برتتے ہوئے، کہا،''تم نے میرا کالم نہیں چھپا۔ ۔۔۔۔ کیا تم پیسے لیتا ہے؟''
انور سن رائے اُنھیں بیٹھے کے لیے کہا۔ اِسی اثنا میں ماتری صاحب بھی آگئے۔ کالم کے کا موضوع زیر بحث آیا۔ دونوں نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔
اگلے ہفتے بھی کائوس جی کا کالم ''ڈان'' میں نہیں چھپا۔ اِسی اثنا میں ایک بڑے میڈیا گروپ نے اُن سے رابطہ کیا، اور اپنے انگریزی اخبار کے لیے لکھنے کی پیش کش کر دی۔ وہ اِس بابت سنجیدگی سے سوچنے لگے۔
کچھ روز بعد کائوس جی پھر ''پبلک'' کے دفتر میں موجود تھے۔ یہی پیش کش موضوع بحث تھی، جس پر ماتری صاحب کے تحفظات تھے۔ انور صاحب بتاتے ہیں، ماتری صاحب نے اُنھیں سمجھایا کہ ماضی میں اُن کے تمام کالم، اپنے سخت لہجے کے باوجود، چھپتے رہے ہیں، فقط ایک کالم شایع نہ کرنے پر اپنے اخبار سے ناتا توڑ لینا دُرست نہیں۔ احتجاجاً یہ بھی کہا،''اگر آپ کے کالم اُس اخبار میں چھپیں گے، تو 'پبلک' انھیں نہیں چھاپے گا۔'' یہ سوال بھی زیر بحث آیا کہ کیا اُنھیں پیش کش کرنے والا میڈیا گروپ انگریزی اخبار کے ساتھ اپنے اردو اخبار میں بھی اُن کا کالم چھاپے گا؟
چند روز بعد، انور صاحب کے بہ قول، کائوس جی پھر ''پبلک'' کے دفتر آئے، اور بتایا کہ اُس گروپ نے اُن کے کالم کا اردو ترجمہ چھاپنے سے انکار کر دیا ہے۔ تب ماتری صاحب نے کہا،''اب آپ نے اندازہ لگایا کہ ہر اردو اخبار آپ کا کالم ہضم نہیں کرسکتا!''
خیر، بعد میں کائوس جی نے اخبار تبدیل کرنے کا خیال ترک کر دیا، اور زندگی کے اختتام تک ''ڈان'' ہی میں لکھتے رہے۔
٭ لائیو پروگرام سے اجتناب!
معروف صحافی اور اینکرپرسن، مظہر عباس کو کائوس جی کے کالموں میں جہاں ''خبریت'' نظر آتی ہے، وہیں وہ اُن میں موجود بھٹو مخالف عنصر کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
وہ کائوس جی کے بے لاگ تبصروں اور مخصوص زبان کے استعمال کے تعلق سے کہتے ہیں، اُنھیں جب پروگرام میں مدعو کیا جاتا، تو احتیاط کے پیش نظر کوشش کی جاتی کہ ''لائیو'' کرنے کے بجائے پروگرام ریکارڈ کر لیا جائے کہ کوئی ایسی ویسی بات ''آن ایئر'' نہ چلی جائے۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں، ایک بار پروگرام ایڈٹ کرتے ہوئے، غالباً وقت کی کمی کے باعث اُن کی گفت گو کے چند حصے کٹ گئے، جس پر اُنھوں نے فون کرکے اپنے مخصوص انداز میں سوال کیا۔
مظہر صاحب کے مطابق کائوس جی وقت کے بہت پابند تھے۔ اُن کی اِس عادت کے پیش نظر، خیال رکھا رکھا جاتا کہ پروگرام وقت پر مکمل ہو جائے، مگر قومی اسمبلی میں ریکارڈ ہونے والے ایک پروگرام کے دوران تیکنیکی مسائل کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی۔ اُس روز خاصی گرمی تھی۔ مظہر صاحب نے محسوس کیا کہ کائوس جی خاصے بے آرام ہیں، تاہم وہ حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے۔
مظہر صاحب کے مطابق کائوس جی ایک جی دار انسان تھے، اور اُنھوں نے اپنے صحافتی کیریر میں فقط ایک بار اُنھیں پریشان دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب اُن کے مخالفین فتوؤں کے ساتھ میدان میں اتر آئے تھے۔ اِس اقدام نے اُنھیں دل برداشتہ کر دیا، اور کچھ عرصہ وہ بیرون ملک رہے۔
٭ نیند کا سوانگ بھرنا
حس مزاح کائوس جی کی شخصیت کا نمایاں حوالہ تھی۔ سینئر ٹی وی پروڈیوسر، ساجدہ زیدی اِس تعلق سے اپنے تجربات بانٹتی ہیں۔
اُن کے بہ قول، رتی جناح پر پروگرام ریکارڈ ہونا تھا، وہ کائوس جی کو مدعو کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ کسی طرح قابو میں نہیں آرہے تھے۔ گھر فون کیا جاتا، تو کوئی ملازم یا رشتے دار ریسور اٹھاتا۔ خدا خدا کرکے رابطہ ہوا۔ اُنھوں نے چُھوٹتے ہی پوچھا،''میں کیوں پروگرام میں آئوں؟ میرا اِس موضوع سے کیا تعلق؟''
اس روز خاصی نوک جھونک ہوئی۔ ساجدہ زیدی نے اُن کے تند و تیز سوالات کا جہاں مدلل جواب دیا، وہیں حس مزاح بھی برتی۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے دو دوستوں میں بحث ہورہی ہے۔ خیر، وہ راضی ہوگئے۔
بعد میں ایک اور پروگرام کے لیے اُنھیں مدعو کیا گیا۔ ساجدہ صاحبہ بتاتی ہیں، پروگرام کے دوران جب کبھی کوئی مہمان اُن سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتا، تو پلٹ کر جواب دینے کے بجائے، خود کو انتہائی لاتعلق ظاہر کرتے ہوئے وہ سر جھکا کر آنکھیں بند کر لیتے۔ ایسا ظاہر کرتے، جیسے وہ سو رہے ہیں۔ یوں ایک مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوجاتی، لوگوں کے لیے ہنسی روکنا مشکل ہوجاتا۔ کیمرے کے پیچھے سے ساجدہ زیدی پکارتی،''کائوس جی!'' وہ ایک آنکھ کھول کر دیکھتے۔ مسکراتے۔ پھر دوبارہ بند کر لیتے۔
ساجدہ صاحبہ اُن کے رکھ رکھائو کا بھی ذکر کرتی ہیں۔ بتاتی ہیں، ایک روز اتفاقاً اُن کی ایک اسپتال میں کائوس جی سے ملاقات ہوئی۔ وہ اُنھیں دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے۔ بڑی محبت سے ملے، کرسی پیش کی۔
٭ ''جب کائوس جی نے ڈانٹا، اپنی چھڑی گُھمائی!''
مرحوم کائوس جی کو جانوروں سے عشق تھا۔ اُنھیں بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ اُن کی کوٹھی کی بیرونی دیوار پر، قدیم زبان کی ایک عبارت درج ہے، جو تنبیہ کرتی ہے، ''جو شخص جانوروں سے نفرت کرتا ہے، وہ اِس گھر میں قدم نہ رکھے!'' اگر اُن کے سامنے کوئی جانوروں سے سختی سے پیش آتا، تو وہ فوراً ڈانٹ دیتے۔ روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ فوٹو گرافر، اشرف میمن بھی، 2009 کی ایک صبح، کچھ ایسے ہی تجربے سے گزرے۔
اُس روز وہ انٹرویو نگار کے ساتھ کائوس جی کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے ہی تھے کہ قوی الجثہ، کاکاٹو نسل کے پالتو توتے کی تیز، کاٹ دار آواز نے اُن کا استقبال کیا۔ پھر جیک رسل ٹیریر نسل کا کتا کمرے میں داخل ہوا، جو دو اجنبیوں کو دیکھ کر بھونکنے لگا۔ اشرف میمن نے اُسے اونچی آواز میں ''دھمکانے'' کی کوشش کی۔ بس، اُسی پل کائوس جی پردے کے پیچھے سے نمودار ہوئے، اور یہ منظر دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ ڈانٹنے لگے،''تم کو شرم نہیں آتی۔ یہ میرے بچوں کی طرح ہے۔ اِسے مارتا ہے۔ اِسے (اشرف میمن کو) باہر نکالو۔'' خیر، کسی نہ کسی طرح اُنھیں ''شانت'' کیا گیا۔ انٹرویو شروع ہوا۔ دوران انٹرویو کائوس جی اپنے پالتو کتے کو گود میں لیے بیٹھے رہے، جس کی وجہ سے تصاویر اتارنے میں خاصی دقت پیش آئی۔ بعد میں کائوس جی نے اشرف میمن کو کتے کی پیٹھ تھپتھپانے کا حکم صادر کیا۔ حکم کی تکمیل کے بعد اُن کا غصہ دور ہوگیا۔ بعد میں لان میں لے جاکر ان کی تصاویر اتاری گئیں۔
ایک بار اشرف میمن کا سوک سینٹر، کراچی میں کائوس جی سے سامنا ہوا تھا۔ وہ میئر کے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔ اشرف تصاویر اتارنے کے لیے آگے بڑھے۔ نہ جانے کائوس جی کس سوچ میں غلطاں تھے کہ جُوں ہی کیمرے کا فلیش چمکا، وہ غصے میں آگئے۔ اپنے مخصوص انداز، مخصوص تکیہ کلام کے ساتھ چلائے،''۔۔۔۔تم میرا تصویر بنا کر کیا کرے گا؟'' پھر باقاعدگی چھڑی گھمائی، اور کہا،''تم میرے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔ میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں!'' اور بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔
٭ ذکر حالاتِ زندگی کا۔۔۔
لگ بھگ تین عشروں قبل مراسلہ نگار سے کالم نویس کے قالب میں ڈھلنے والے، تیکھے اسلوب کے حامل اردشیرکائوس جی نے 13 اپریل 1926 کو کراچی میں مقیم ایک قدیم اور معروف پارسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، رستم کائوس جی شپنگ کے میدان کا مستحکم نام تھے۔ تقسیم کے وقت اُن کی کمپنی ساحلی شہر کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی تصور کی جاتی تھی۔
بی وی ایس ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کائوس جی نے ڈی جے کالج سے گریجویشن کا مرحلہ طے کیا، جس کے بعد وہ کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ 1953 میں وہ نینسی ڈنشا سے شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ نینسی سے اُن کے دو بچے تھے۔ بیٹی، ایوا نے شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد خاندانی کاروبار میں دل چسپی لی۔ بیٹے، رستم نے آرکیٹیکٹ بننے کا فیصلہ کیا، اور نئے امکانات کی تلاش میں امریکا کا رخ کیا۔ 1992 میں کائوس جی کو اپنی زوجہ کی وفات کا کرب سہنا پڑا۔
1973 میں، جب ذوالفقار علی بھٹو کرسیِ اقتدار پر براجمان تھے، کائوس جی کو پاکستان ٹورازم ڈیویلمپنٹ کارپوریشن (PTDC) کے مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ سونپا گیا۔ بھٹو دور ہی میں اُن کی کمپنی قومیانے کی زد میں آئی، اور اُسی حکومت میں، بدلتے حالات اُنھیں جیل یاترا پر لے گئے، جہاں اُنھوں نے 72 دن بیتائے۔ عام خیال ہے کہ اِس کا سبب بھٹو صاحب کے اختیارات پر کائوس جی کی بے لاگ تنقید تھی۔
آنے والے برسوں میں اُن کے خطوط ڈان اخبار میں شایع ہونے لگے۔ ''لیٹر ٹو دی ایڈیٹر'' کے لیے بھیجی جانے والی تحاریر کچھ عرصے بعد اُنھیں کالم نگاری کے میدان میں لے آئیں۔ کالموں کا بلند آہنگ اور تیکھا لہجہ جلد ہی توجہ کا مرکز بن گیا۔ بے لاگ تبصروں نے اُن کی شہرت کو مہمیز کیا۔ بڑے ہی مُنَظّم انداز میں اُنھوں نے بدعنوانی، نااہلی اور قبضہ مافیا کے خلاف آواز اٹھائی۔ 1988میں شروع ہونے والے سفر کے طفیل چند ہی برس میں اُنھوں نے ملک گیر شہرت حاصل کر لی۔ آنے والے وقت نے اُنھیں بیرون ملک بھی شناخت عطا کردی۔ سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروہوں پر، اپنے مخصوص انداز اور ترش لہجے میں کڑی تنقید کے باعث وہ متنازعہ بھی ٹھہرے۔
سماجی سرگرمیاں بھی اُن کی شناخت بنیں۔ ''کائوس جی فائونڈیشن'' نے تعلیم کے میدان میں خاصا کام کیا۔ کئی طلبا کو اسکالر شپ اور اداروں کو گرانٹ دی۔ لیاری میں ماڑی پور روڈ پر بھی اُن کا اسکول کیمپس ہے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ باقاعدگی سے نوجوان لکھاریوں کی مالی معاونت کیا کرتے تھے۔ شعبۂ صحت کے لیے بھی اُنھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
وہ لگ بھگ 25 برس ڈان میں لکھتے رہے۔ اُن کا آخری کالم دسمبر 2011 میں شایع ہوا، جس میں اُنھوں نے لکھا تھا:''اب، جب کہ میں 85 برس کا ہوچکا ہوں، تھکن سے چور، التباسات میں گھرا ہوا، ایک ایسے ملک میں مقیم، جو خود کو متحد اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب یہ سلسلہ (کالم نگاری) ترک کر دیا جائے!''
وفات سے چند ہفتوں قبل دیے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا تھا: ''اب میں 86 برس کا ہوگیا ہوں، اتنا بوڑھا کہ ہفتہ وار کالم نہیں لکھ سکتا۔ اور پھر بات یہ ہے کہ لکھنے کے لیے ہے ہی کیا؟ وہی پرانی سیاست، پرانے چہرے۔ میں اُن کے بارے میں لکھ لکھ کر بور ہوچکا ہوں!''
24 نومبر 2012 کو 86 برس کی عمر میں وہ طویل علالت کے بعد جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ سینے کے انفیکشن کے باعث گذشتہ بارہ دن سے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔