شہید خوشی محمد
ہمارے گاؤں کے جنوب میں واقع قدیم قبرستان میں شہید خوشی محمد ابدی اور پُرسکون نیند سو رہے ہیں
ہمارے گاؤں کے جنوب میں واقع قدیم قبرستان میں شہید خوشی محمد ابدی اور پُرسکون نیند سو رہے ہیں۔ نائیک خوشی محمد افواجِ پاکستان کے اُن بے مثال اور جانثار جوانوں میں سے ایک تھے جو خوشی خوشی دینِ اسلام اور مادرِ وطن کی حُرمت پر قربان ہو گئے۔ دشمن نے للکارا تو وہ جان ہتھیلی پر رکھے میدانِ کار زار میں اترے۔ ہمارے وطن کے اس قابلِ فخر سپوت کی دلہن کے ہاتھوں میں رچی حنا کے رنگ ابھی مدہم بھی نہ پڑے تھے کہ فرض نے پکارا۔ وہ چھُٹیاں ختم ہونے سے پہلے ہی اس فرض کی پکار پر لبیک لبیک کہتے ہوئے اپنی یونٹ میں پہنچ گئے۔
بھارت نے رات کی تاریکیوں میں وطنِ عزیز کی پاک چھاتی پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی جسارت کی تھی۔ چوہدری سلطان کا سب سے بڑا فرزند نائیک خوشی محمد، جو شیشم کے درخت کی طرح تنومند تھا اور جس کے رخسار انار کے دانوں کی طرح دہکتے تھے، جارحیت کے مرتکب بنیئے کے خلاف دیوانہ وار میدانِ جنگ کی بھٹی میں اترا۔ تیسرے ہی روز اُن کا جواں لہو مادرِ وطن کی مٹی پر بہہ گیا۔ آتش و آہن کی برسات میں ممکن نہ تھا کہ فوری طور پر شہید کا جسدِ اطہر گاؤں منتقل کیا جاتا؛ چنانچہ محاذِ جنگ پر ہی انھیں وردی میں عارضی طور پر دفن کر دیا گیا۔
جنگ کے خاتمے کے کتنے ہی روز بعد شہید کی میت باقاعدہ تدفین کے لیے گاؤں لائی گئی۔ اس سہ پہر لاتعداد فرشتے بھی آسمان کی بلندیوں سے ہمارے گاؤں میں اتر آئے تھے کہ شہید کا جنازہ آیا تھا۔ ارد گرد کے دیہاتوں کے اَن گنت لوگ اُمنڈ اُمنڈ آئے تھے۔ میرے بڑے بھائی محترم حافظ جمیل، جو سینئر بینک افسر رہے ہیں اور ماشاء اللہ حافظِ قرآن بھی ہیں، بتاتے ہیں کہ تدفین سے قبل خوشی محمد کا چہرہ اور جسدِ خاکی دیکھنے کی سعادت مجھے بھی ملی، میرے سمیت سبھی حیرت زدہ تھے کہ شہید کا چہرہ گلاب کی مانند تروتازہ تھا۔ چھاتی اور چہرے کے زخموں سے ابھی تک سرخ سرخ لہو رِس رہا تھا۔ آج بھی جب جنوب کی طرف سے آنے والی ہوائیں ہمارے گاؤں کے اوپر سے گزرتی ہیں تو محسوس کرنے والے واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ان ہواؤں میں ایک شہید کی خوشبو رچی بسی ہے۔
یاد کے افق پر ایک منظر اور ابھر رہا ہے۔ شہید نائیک خوشی محمد کی قبر کے ارد گرد ڈھائی فٹ اونچی دیوار ہے۔ بچپن میں کئی بار دیکھا کہ ایک بزرگ خاتون سہ پہر کے وقت اس مدفن پر آتی ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں بڑی تقطیع کا قرآن شریف ہوتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں چوبی رحل۔ وہ آتے ہی پہلے قبر پر جھاڑو دیتیں۔ پھر بڑے اطمینان اور صبر سے تلاوتِ قرآنِ مجید میں محو ہوجاتیں۔
دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ مَیں کبھی کبھار انھیں اس محویت میں دیکھتا تو حیران رہ جاتا۔ خاتون کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔ یہ خوشی محمد کی والدہ محترمہ تھیں جو اب خود بھی اپنے شہید فرزند کے پہلو میں آرام کر رہی ہیں۔ مجھے جب بھی اپنے مرحوم والدین، دادا جان، دادی جی اور مرحومہ بھاوج کی آخری آرامگاہوں پر جا کر فاتحہ خوانی کا موقع ملتا ہے، شہید خوشی محمد کو سلامِ عقیدت پیش کرنا نہیں بھولتا۔ میرا جواں سال بھتیجا، جو اللہ کے فضل سے فوجی افسر ہے، جب کبھی میرے ساتھ قبرستان گیا ہو تو وہ بھی مرقدِ خوشی محمد کو سیلوٹ ضرور کرتا ہے۔ یہ ایک فوجی کی دوسرے فوجی کے لیے عزت و تکریم اور ہدیۂ تحسین کی علامت بھی ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ نے شہید کو جس عظمت اور حیاتِ جاوداں سے سرفراز فرمایا ہے، اس پس منظر میں مجھے حق الیقین ہے کہ خوشی محمد کی شہادت کے طفیل ہمارے گاؤں کے قبرستان میں دفن تمام انسانوں کو اللہ نے آسودگی، بخشش اور مغفرت سے نواز دیا ہو گا۔
مرے خاک و خون سے تُو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تابِ جاودانہ!
یومِ دفاعِ پاکستان آتا ہے تو افواجِ پاکستان کے کئی خوشی محمد یاد آنے لگتے ہیں۔ اب پھر یہ دن آ رہا ہے اور پھر سے رگوں میں دوڑتے خون کی حدت میں اضافہ ہو گیا ہے کہ دشمن کی سازشیں اور جارحیت آج بھی وطن کے خلاف جاری ہیں۔ لیکن یہ کیا ستم ہے کہ ہمارے درمیان بعض ''اہلِ دانش'' ایسے بھی ہیں جو غیروں کی لکھی گئی تاریخ کے ٹوٹے باہم جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یومِ دفاعِ پاکستان کا جشن منانا سرے ہی سے ''غلط'' ہے۔ ہمارے ایک انگریزی اخبار کے دانشور، جو خیر سے دو انگریزی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، اپنے آرٹیکل میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی (ناکام) کوشش کرتے پائے گئے ہیں کہ ستمبر 65ء کی جنگ کا ذمے دار بھارت نہیں بلکہ پاکستان تھا اور یہ کہ یومِ دفاعِ پاکستان کا منایا جانا بے جا عمل ہے۔
پڑھ کر افسوس ہوا۔ کیا ایسی تحریریں 65ء، 71ء، کارگل اور سیاہ چن میں ہمارے شہداء کی بے حرمتی کے مترادف نہیں؟ یہ فی الحقیقت ہمارے عظیم الشان اور عظیم المرتبت شہداء کی توہین ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ چھ ستمبر کی جنگ کا نتیجہ ہم سب کے لیے اس لیے بھی قابلِ فخر ہے کہ افواجِ پاکستان نے اپنے سے کئی گُنا بڑے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے۔
ہمارے بعض دانشور مگر ہم سے ہمارا یہ فخر اور اطمینان بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ سابق بھارتی جنرل، ہربخش سنگھ، بھی اعتراف کرتا ہے کہ جنگِ ستمبر کسی کی شکست تھی نہ فتح۔ جوڑ برابر کا رہا۔ معروف بھارتی اخبار نویس جناب کلدیپ نیئر نے اپنی ضخیم سوانح حیات (Beyond the Lines) میں ایک پورا باب جنگِ ستمبر پر لکھا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ بھارتی افواج تعداد میں پاکستان سے کئی گنا زیادہ تھیں اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے وسائل بھی بہت زیادہ تھے لیکن اس کے باصف ان کا لاہور پر قابض ہونے کا خواب بکھر کر رہ گیا۔
انھوں نے افواجِ پاکستان کے غیرتمند فوجیوں کے کئی حیران کُن واقعات بھی رقم کیے ہیں۔ کلدیپ نیئر نے لکھا ہے: ''پاکستانیوں کے لیے جنگِ ستمبر کافروں کے خلاف ایک بڑے جہاد کی حیثیت رکھتی تھی۔ ایک مثال اس پاکستانی فوجی افسر کی ہے جو اس جنگ میں شدید زخمی ہو کر فیروز پور سیکٹر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اسے اسپتال میں لایا گیا تا کہ خون لگایا جا سکے لیکن اس نے کڑک کر کہا کہ مَیں موت قبول کر لوں گا لیکن کسی کافر کا خون اپنے بدن میں نہیں جانے دوں گا۔ اسی حالت میں وہ دم توڑ گیا۔''
سرِ خاکِ شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہالِ ملتِ ماساز گار آمد!
بھارت کے ساتھ جنگِ ستمبر کا یہ معرکہ، جس دوران اہلِ پاکستان نے بے مثال اتحاد و اتفاق قائم کیے رکھا، کہنے کو تو سترہ روز بعد ختم ہو گیا تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ بعد میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ بھارت اب دہشتگردوں اور دہشتگردی کی شکل میں ہم پر حملہ آور ہے۔ بلوچستان میں تو اس کا شیطانی اور مکروہ چہرہ پوری طرح عیاں ہو چکا ہے۔
اُس نے چند روز قبل امریکا سے جس نئے دفاعی معاہدے کا رشتہ قائم کیا ہے، ایسے میں تو پاکستان کے لیے یومِ دفاعِ پاکستان کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔ اسی لیے تو سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف کو ببانگِ دہل یہ کہنا پڑا ہے: ''نریندر مُودی ہو یا ''را'' یا کوئی اور، ہم دشمن کی چالوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ ملکی سلامتی کے لیے ہم آخری حد سے بھی آگے جائیں گے۔'' انشاء اللہ۔ جنرل صاحب کے یہ الفاظ یومِ دفاعِ پاکستان پر ہم سب کے لیے تحفظ، امید اور اطمینان کا پیغام ہیں۔