یہ چیخیں اور یہ آہ و بکا
فیکٹری کے اندر موجود تقریباً تین سو مزدور تڑپتے، چیختے، چلاتے اور جان بچانے کے لیے شور کرتے رہے
مرتے تو لوگ روز ہی ہیں۔ کچھ بھوک سے، کچھ بیماری سے، کچھ حادثات سے، کچھ گولیوں سے اور کچھ جل کر۔ یو این اے کی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں بھوک سے روزانہ پچہتر ہزار انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بیماریوں سے لاکھوں لوگ مر رہے ہیں، حادثات میں بھی لاکھوں عوام ہر سال جان سے جاتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ میں بھی لاکھوں انسان اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، جب کہ ڈوب کر اور جل کر کم لوگ مرتے ہیں۔ موت تو موت ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ پانی میں ڈوب کر اور جل کر مرنا ہے۔ پانی میں ڈوبتے وقت جنھیں تیرنا آتا ہے وہ کچھ تو ہاتھ پاؤں مار لیتے ہیں اور جن کو نہیں آتا وہ جلدی اس دنیا سے چل دیتے ہیں۔ مگر جل کر مرنے والوں کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک تو وہ جو بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار سکتے ہیں یا بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کر لیتے ہیں لیکن بند کمرے میں اگر آگ لگ جائے اور بھاگنے کا کوئی راستہ بھی نہ ہو تو اس سے اور کوئی زیادہ تکلیف دہ موت نہیں ہوتی۔
یہی صورتحال 11 ستمبر 2013 کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں کروڑوں روپے کی بھتہ خوری کی وجہ سے پیش آئی۔ ہائی روف میں کچھ لوگ آئے، ان کے ساتھ ایک کیمیکل کا بڑا ڈرم تھا، ان چھ افراد میں سے تین کیمیکل کے چھڑکاؤ میں لگے رہے اور تین گیٹ پر کھڑے پہرہ دیتے رہے۔ جب فیکٹری میں آگ لگی تو گیٹ بند ہوگیا۔ آگ کے شعلے بھڑکتے رہے، نتیجتاً پوری فیکٹری آگ سے جل اٹھی۔ فیکٹری کے اندر موجود تقریباً تین سو مزدور تڑپتے، چیختے، چلاتے اور جان بچانے کے لیے شور کرتے رہے۔
ان کی آہ و بکا سے زمین و آسمان بھی کانپ اٹھا ہوگا۔ وہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھاگ نکلنے کے لیے دیواروں پہ اپنا سر مارتے رہے، مگر وہ لاچار اور بے سہارا تھے۔ نہ جانے کس کس تکلیف سے مرے ہوں گے، کیسے مرے ہوں گے، کیسے تڑپے ہوں گے، کیسے دھوئیں سے دم گھٹا ہوگا، کیسے سسک سسک کر مرے ہوں گے، کس طرح سے کس کس کو پکارا ہوگا۔ ان مرنے والوں میں زیادہ تر اورنگی ٹاؤن، بلدیہ اور نیو کراچی کے مرد و زن مزدور تھے۔
اس واقعے کے دوران جب مزدور اندر تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے، اس وقت ایک ٹرک ڈرائیور نے ٹی وی چینل پر کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ٹرک مار کر دیوار کا ایک حصہ توڑ دوں، جس میں دیوار ٹوٹنے سے کچھ تو لوگ نکل آئیں گے، مگر اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر وہ ڈرائیور حکام کی بات نہ مانتا اور دیوار توڑ دیتا تو وہ آج کا ہیرو کہلاتا۔ مگر ہمارے ہاں عوام کی کہاں چلتی ہے، جو کچھ ہوتا ہے وہ ریاست اور اس کے ذیلی ادارے کرتے ہیں۔ کاش اگر یہ اسٹیٹ لیس سماج ہوتا اور سب کو آزادی ہوتی تو ڈرائیور دیوار توڑ کر کچھ آہ و بکا کرنے والوں کو نکال پاتا۔
اس المناک اور ہولناک واقعے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعظم پاکستان نے ان شہید مزدوروں کے ورثا کو معاوضہ دینے کا اعلان تو کردیا تھا، مگر آج تک انھیں کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ اگر کوئی نوکرشاہی، جاگیردار، سرمایہ دار، علماء ، نام نہاد دانشور، حکمران طبقات کا آدمی، وزرا مرتے تو ان کے لواحقین کو ساری زندگی وظیفہ، اعزازی نشانات اور معاوضوں سے نوازا جاتا، جب کہ مزدوروں کے مرنے پر تین سال گزرنے کے باوجود کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اور پھر مزدوروں کو معاوضہ کیوں دیں؟ ان ہی کا خون نچوڑ کر سرمایہ دار کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتا ہے، کبھی کبھی خیرات بانٹ کر سخی کہلاتا ہے۔ ان مزدوروں کے شہید ہونے پر گلوکار جواد احمد نے گیت لکھا اور سائٹ لیبر اسکوائر کراچی میں ہزاروں مزدوروں کی موجودگی میں گایا، جس پر ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔
ڈاکٹر چی گویرا کا کہنا تھا کہ 'ساری دنیا کی دولت ایک جانب تو دوسری جانب ایک انسان کی جان اس سے زیادہ قیمتی ہے'۔ ہمارے ملک میں اربوں روپے کا بجٹ اسلحہ سازی، اس کی تجارت اور نقل و حرکت میں لگایا جاتا ہے، لیکن ایسے حادثات (قتل) میں نہیں لگایا جاتا، اس لیے کہ یہ تو مزدور ہیں۔ ایسے حادثات چین، یورپ، ہندوستان، امریکا کے کوئلے کی کانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ مزدور منوں مٹی تلے دب کے مر جاتے ہیں۔ کہیں حفاظتی انتظام بہتر ہوتے ہیں اور کچھ معاوضہ بھی دیا جاتا ہے، مگر مکمل حفاظت کہیں نہیں ہوتی اور نہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔
یہ طبقاتی نظام کا وطیرہ ہے، یہ اسے برائی نہیں سمجھتے۔ اگر سرمایہ دار اور حکمران اسے برائی سمجھتے تو روزانہ اس دھرتی میں پچہتر ہزار انسان جان سے نہ جاتے ہوتے اور دوسری جانب سرمایہ دار اور حکمران محلوں میں رہتے اور نہ ریزرو ہوائی جہازوں میں سفر کرتے۔ یہ موٹر وے، اورنج ٹرین، ماڈل ولیج اور ماڈل اسکول کس کام کے؟ جہاں سیکڑوں جھلس کر مر جانے والے مزدوروں کے لواحقین کو کوئی معاوضہ ملا اور نہ ان کے اہل خانہ کو کوئی ملازمت۔ ان کے اہل خانہ سے کوئی تعزیت کرنے آیا اور نہ کوئی دادرسی کرنے آیا۔ اس لیے یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ریاست جبر کا ادارہ ہے، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ کہیں بورژوا عوام کا استحصال کرتا ہے تو کہیں مراعات یافتہ طبقہ۔ ہر صورت میں عوام کا استحصال ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس جبر کی ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کو تیز تر کریں۔
اصلاحات صدیوں سے ہوتی آرہی ہیں۔ لوٹ مار کے طریقوں میں فرق بھی آ تا رہتا ہے لیکن استحصال جوں کا توں رہتا ہے۔ صرف لوٹ کے نت نئے طریقے بدل جاتے ہیں۔ پاکستان میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں ہزاروں کوئلے کے کان کن منوں مٹی تلے دب کر مرجاتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اطلاع تک نہیں ہوتی۔ اس لیے بھی کہ وہ ایسے دور دراز علاقے ہوتے ہیں کہ وہاں ابھی تک ہمارے میڈیا کی پہنچ نہیں ہوپائی ہے۔ 11 ستمبر 2013 کا واقعہ اس لیے سب کو پتہ چل گیا کہ یہ کراچی شہر کا واقعہ تھا۔
آج دنیا بھر میں اس واقعے کی اطلاع ملنے کے باوجود کہیں سے کوئی امداد آئی اور نہ کوئی معاوضہ۔ ہم جو زندہ ہیں، وہ بھی مر مر کر جی رہے ہیں، یہاں تو تقریباً نوے فیصد لوگ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آئیے ان جھلس کر مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دلوانے کی جدوجہد تیز تر کریں۔ ہر چند کہ محنت کشوں کے مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔ جہاں طبقات، ملکیت، جائیداد، خاندان، مردوں کی غلامی، اسمبلی، فوج، میڈیا، سرحدیں، مذہبی رجعت پسندی اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوکر ایک نسل انسانی کا سماج تشکیل پائے گا اور دنیا ایک ہوجائے گی۔ پھر پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش عوام جینے لگیں گے۔