جہاں رنگ باتیں کرتے ہیں

شاہی قلعہ میں تصاویر سے مزین چار سو پچاس میٹر طویل دیوار کا احوال جس کی بے مثال خوبصورتی سے بہت کم لوگ واقف ہیں.


Basheer Wasiq December 09, 2012
فوٹو : فائل

مبہوت رہ جانے کا محاورہ تو سب نے سنا ہے مگر اس کا صحیح معنوں میں ادراک تب ہوتا ہے جب انسان اس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔

شاہی قلعہ لاہور میں یوں تو دیکھنے کے لائق بہت سی عمارتیں، دالان ، باغیچے اور برج ہیں اور انسان ان کے فن تعمیر اور سطوت سے متاثر بھی ہوتا ہے مگر مبہوت رہ جانے والی کیفیت شاہی قلعے کی 17میٹر بلنداور 145میٹر لمبی مصور دیوار کو دیکھ کر ہی طاری ہوتی ہے، بس انسان کی جمالیاتی حس بیدار ہونی چاہئے۔ اتنی بڑی پینٹنگ کا تصور ہی حیران کر دینے کے لئے کافی ہے چہ جائیکہ وہ آپ کے سامنے موجود ہو۔ مصور دیوار پر نظر پڑتے ہی جمالیاتی ذوق رکھنے والوں کے ذہنوں میں شاعر کا یہ مصرہ ضرور گونجتا ہے

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

دنیا کی چند نادر دیواروں میں شمار کی جانے والی مصور دیوار(picture wall)شاہی قلعہ لاہور کے شمال اور شمال مغرب میں واقع ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس طرف توجہ دے پاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حضوری باغ کے سامنے شاہی قلعہ کے عالمگیری دروازے سے داخل ہونے کے بعد تمام لوگ دیوان عام کی طرف مڑ جاتے ہیں اور پھر قلعے کی خوبصورت عمارتوں کے سحر میں کھوئے ہوئے آخر میں شیش محل میں داخل ہوتے ہیں ۔

تب تک وہ تھکن کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کا دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ وہ اب اس تاریخی یادگار سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لیں، پھر وہ وہاں سے نکل کر ہاتھی پیر سے ہوتے ہوئے شاہ برج دروازہ سے گزر کر قلعے سے باہر نکل جاتے ہیں اور شاہ برج دروازے کے دائیں طرف دالان کو صرف سرسری طور پر دیکھتے ہیں۔ حالانکہ شاہ برج دروازے کے ساتھ ہی وہ مصور دیوار شروع ہو جاتی ہے جو ایسا فن پارہ ہے جس کی شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔

02

مصور دیوار کی تعمیر عہد جہانگیر میں شروع ہوئی اور شاہ جہانی عہد( 1631-32ء) میں مکمل ہوئی۔تین منزلہ دیوار کے سب سے اوپر شیش محل ، دیوان خاص اور دیگر عمارتیں واقع ہیں ۔ شیش محل کے بالکل نیچے اس سے ڈیڑھ گنا رقبے کا سمر ہال واقع ہے جو اس دیوار کی دوسری منزل بنتی ہے ،جس کا اب واحد دروازہ ہاتھی پیر کی طرف ہے جس پر موٹا سا تالا جھولتا رہتا ہے ،کہا جاتا ہے کہ گرمیوں میں شاہی خاندان کے لوگ وہاں قیام کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں دریائے راوی سے دو سرنگیںاس طرف نکالی گئی تھیںتاکہ ادھر سے آنے والی ہوا سے ہال ٹھنڈا رہے۔ سمر ہال کے خوبصورت محرابی دریچے اور روشن دان ہیں جن سے قلعے کے باہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

ان میں کچھ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے امتداد زمانہ کی نذر ہو چکے ہیںتاہم ان کے نشان باقی ہیں۔ اسی منزل پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر خوبصورت طاقچے بنے ہوئے ہیں جن میں کسی زمانے میں دیے جلائے جاتے ہوں گے (اب ان میں سے جو بچ گئے ہیں ان میں کبوتروں نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے )جس سے شب کو حسین سماں بندھ جاتا ہو گا،انسان ذرا تصور کرے کہ خوبصورت تصویروں سے مرصع چار سو پچاس میٹر طویل دیوار پر جب یہ دیے جلائے جاتے ہوں گے تو ایسا سحر آفریں منظر ابھرتا ہوگا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پہلی منزل پر گزرتے وقت نے تصاویر کے نقش مٹا دئیے ہیں مگر جو نشان رہ گئے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ کسی دور میں یہاں بھی رنگوں کی بہتات رہی ہو گی، اسی منزل پر مغرب کی طرف دیوار کے تقریباً وسط میں ایک محراب ہے جس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی زمانے میں یہاں دروازہ رہا ہو گا ۔

مصور دیوار کی سجاوٹ میں ایک خاص ترتیب ہے ، مختلف نمونوں کی حسن ترتیب اسے دنیا بھر میں ممتاز کرتی ہے ۔ ٹائلوں پر بنی یہ تصاویر تناسب اور تنوع کا بہترین امتزاج ہیں ۔آرائش کو دو کارنسوں کی مختلف جسامت کے محرابی طاقچوں کی دوہری دیوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دیواری تصویریں محرابی طاقچوں میں بنائی گئی ہیں جب کہ ہموارحصوں کو ٹائلوں پر بنی تصاویر سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ان ٹائلوں پر انسانوں ، پریوں ، ہاتھیوں ،شیروں،دیو مالائی اژدہوں اور جانوروں کی لڑائی ، پولواور دیگر کھیلوں کے مناظر ہیں۔ دیوار وں پر موجود انسانی تصویروں کے لباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں شاہی خاندان ،جنگجو طبقہ اور نوکر پیشہ لوگوں کا لباس کس قسم کا ہوتا تھا ۔

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس نابغہ روزگار شاہکار کی قدر نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اس پر بنی تصویریں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور بہت سے حصوں کو ُکہنہ سالی کھا رہی ہے جیسے ڈھلتا سورج اپنی آخری کرنیں بکھیر رہا ہو ہے ۔انتظامیہ کی غفلت اگر یونہی جاری رہی تو شاید ایساہی ہو ۔ حکومت کو چاہئے کہ اس نادر دیوار کو بچانے کے لئے اقدامات کرے تاکہ پاکستان کا تاریخی ورثہ محفوظ رہ سکے۔

شاہ برج دروازہ
مغل بادشاہ شاہ جہاں نے 1631-32ء میںیہ دروازہ تعمیر کرایا۔ اسے آپ شاہی قلعے کا خارجی دروازہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اب اس کا استعمال یہی ہے۔ حالانکہ جب یہ دروازہ تعمیر کرایا گیا تواس کا مقصد شاہی خاندان کے افراد کے گزرنے کے لئے الگ سے دروازہ قائم کرنا تھا۔ شاہی خاندان کے افراد ہاتھی پر سوار ہو کر یا پیدل شاہ برج کے ساتھ ہی موجود ہاتھی پیر سے گزر کر شیش محل تک آسانی سے پہنچ سکتے تھے ۔ دروازے پر فارسی کتبہ نصب ہے جس میں اس کی تعمیر کی تفصیل موجود ہے۔ یہ دروازہ معمور خان کی نگرانی میں شاہ جہاں کی تخت نشینی کے چوتھے سال مکمل ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں