انصاف نہ مانگو
پاکستان میں بتانا تو اب اس کے بعد ضروری نہیں رہا۔ کہاں سے دہشت گردوں کی نرسریوں نے آغازکیا تھا
ISLAMABAD:
''چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے''
جب شاعر نے یہ مصرعہ کہا تھا اس وقت معاشرہ آمریت کو سننے میں مصروف تھا! مگر گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے ایم این اے کو وزیرکے خلاف بولنے پر ڈانٹ دیا جس کا ذکر ان صاحب نے ٹیلی ویژن پرکر کے اس خبر کی تصدیق بھی کردی تو معلوم ہوا کہ:
جمہورکے انداز بھی کچھ کم تو نہیں ہیں
اپنے ہی ہمارے کوئی غم کم تو نہیں ہیں
اور اپنے اس شعر کی معنویت کے بھی ہم قائل ہوگئے کہ شعر یونہی تو سرزد نہیں ہوجاتے کوئی وجہ تسمیہ ہوتی ہے توارد کی بھی۔ یہ تو برسبیل تذکرہ بات آگئی، جس سے اندازہ ہوا کہ جاوید چوہدری کے انکشاف کے مطابق، آلو گوشت کے اثرات کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ اس پر Ph.D. کا مقالہ بھی لکھا جاسکتا ہے۔ گوشت خوری ویسے بھی انسان کے لیے ٹھیک نہیں ہے سوشل ہی سہی مگر ہے تو Animal اور وہ کیا کھاتے ہیں؟ تو آلو میں خرابی نہیں ہوگی گوشت کا قصور ہوگا۔ بھارت کے لوگ چراغ پا ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم نے یہ کیوں کہا کہ ہم زخمی کشمیریوں کا علاج کریں گے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ہم خود زخمی کریں گے، آنکھیں خراب کریں گے ان کی اور خود ان کا علاج کریں گے کہ ان کو ٹھیک طرح نظر نہیں آتا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے وہ ان کی کیا مدد کرے گا۔
پاکستان میں بتانا تو اب اس کے بعد ضروری نہیں رہا۔ کہاں سے دہشت گردوں کی نرسریوں نے آغازکیا تھا اور پھر یہاں سے کہاں کس طرح KPK میں روابط پروان چڑھے اور مطمع نظر نقطہ نظر ایک تھا۔ اس میں کافی کامیابی کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی سبق سکھانے اور اپنے اسلام کو نافذ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تو یہ پھیل کر داعش، احرار اور نہ جانے اور کتنے فتنوں میں تبدیل ہوچکا ہے مگر اس کا بیج پاکستانی ہے اس پر تحقیق کرنا ضروری ہے اگر کسی کو اعتراض ہے۔
بات کسی اور طرف نہ چلی جائے لہٰذا واپس آتے ہیں مضمون کے نفس کی جانب کہ جناب بات کو سمجھنے میں بھارت کے لوگوں کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔ بھلا یہ کب کہا گیا کہ کشمیریوں کو نہ مارو، زخمی نہ کرو۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جب یہ کرچکو تو ہمیں دے دو ہم علاج کردیں گے اور کس طرح تعاون کریں؟ یہ بھی تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک طریقہ ہے کہ ہم تمہارے کسی معاملے میں دخل نہیں دیتے، لیکن کیونکہ تمہاری کارروائی سے یہاں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، احتجاج ہوتا ہے، مشکل پیش آتی ہے لہٰذا ہم یہ تعاون کریں گے تو یہاں آرام رہے گا۔ ہمارے لوگ مدد کرنے کے عادی ہیں۔ افغان مہاجرین کی مدد کرکے مسلسل سزا پا رہے ہیں اور اخوت اور بھائی چارے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ایسے ہی ہیں یہ لوگ بس ووٹ دیتے ہیں پھر کچھ نہیں کرتے نہ ووٹ کی حفاظت نہ ووٹ کا تقاضا۔ اگر ہم نے کچھ کرنا ہوتا تو ہم اقوام متحدہ جاتے ہمارے سفارت خانے دنیا بھر میں اس کا ذکر کرتے مگر ہم نے ایک خبر دے دی ہے اور بس سفارتخانے وہی کام کر رہے ہیں جو پہلے کرتے تھے۔ خاموشی اور بیرون ملک پاکستانیوں سے عدم تعاون اور بدتمیزیاں۔
وجہ یہ ہے کہ یہ سارے سیاسی معاوضے ہیں جو ووٹ کی قیمت پر سفیر ہیں ان کا سفارت سے اور قومی مفادات سے کیا واسطہ۔ اگر سفیروں کی لیاقت کا اندازہ کروایا جائے تو ان سے پچاس گنا زیادہ قابل لوگ پاکستان میں بے کار پھر رہے ہیں۔
وزیروں کو محکمے دینے سے پہلے ان کی ٹریننگ بھی کرلی جائے تو اچھا ہے یونہی بجلی کا تار وزیر مملکت کے ہاتھ میں نہ دے دیا جائے وقت بے وقت فالٹ کرتے رہتے ہیں۔
لوگ مرجائیں، حادثوں میں، جرائم سے، قتل ہوجائیں دہشت گردی میں شہید ہوجائیں تو حکومت کا ایک ہی نقطہ نظر ہے، آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا۔ کراچی میں آہنی ہاتھ تیتر پکڑنے میں لگا دیا ہے اور بھی پرندے ہیں جوگلشن کو خراب کر رہے ہیں، انھیں چوگا کہاں سے مل رہا ہے ان کی ماں کو پکڑو، بکرا خود آجائے گا ماں کے پاس جب بکرے کی ماں قابو ہوجائے گی۔ یعنی دہشت گردی کی جڑ دہشت گردوں کے سہولت کار۔ پتا ہے آپ کے پاس ان کا۔
سلام کرتے ہیں دفاعی اداروں کو ان کا کام واقعی ڈسپلن کے تحت ہے اور کمال ہے اور یہی ادارہ ہے کہ استحکام پاکستان کا ہر فرنٹ پر فرض انجام دے رہا ہے۔
بہت کچھ گڈمڈ ہے ذہن میں۔ سیاسی اقربا پروری نے اداروں کو تباہ کردیا ہے اور سسٹم لائن میں نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کے آلہ کار اس میں آسانی سے داخل ہوگئے ہیں ہوجاتے ہیں۔
عارضی ملازم یہ سلسلہ ختم کرنا چاہیے۔ یا ملازم یا نہیں۔ یہاں سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ کانٹریکٹ اسٹاف یہ بھی ایک مشکل ہے اسے بھی ختم کرنا چاہیے صرف ڈیلی ویجز یا مستقل ملازم پہلے کی طرح نظام قائم کیا جائے۔ ڈیلی ویجز سے چھان بین، چھان پھٹک کر اگر ضرورت ہے تو مستقل ملازم رکھے جائیں۔ اور یہ بھی لازمی نہیں ہونا چاہیے صوابدیدی ہو تب اداروں میں جو چند فیصد ایماندار افسر ہیں وہ کام کرسکیں گے۔
سمجھ میں نہیں آتا قوم کس طرف جائے، کس سے منصفی چاہے، سرحد کے دونوں طرف آگ جل رہی ہے، دہشت گرد جب چاہتے ہیں ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتے ہیں۔ ملک کے ذمے داران کن ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔
لاشوں پر تجارت ہوگی، تعلقات بہتر بنائے جائیں گے۔ لب خاموش کو گویائی کب دے گی حکومت کہ کچھ بول سکے دنیا سے کچھ کہہ سکے ایسا لگے کہ یہ پاکستان ایک ریاست ہے اس کی ایک حکومت ہے جو عوام کی حفاظت کرسکتی ہے، عوام کے حقوق کے لیے دنیا سے لڑ سکتی ہے اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکتی ہے کہ ہم ہیں پاکستان۔
ابھی تو صرف صورتحال کا ایک منظر ہے۔ تمہارے گھر کے لوگ دے دو، مر جانے دو انھیں، دو ملازمین لے لو، چند لاکھ لے لو، سب کچھ مانگو، دہشت گردوں کے سہولت کار نہ مانگو، مجرموں کے پناہ دینے والے نہ مانگو، ملک میں جرائم کے ذمے دار اور سرپرست نہ مانگو، اے پاکستان کے ووٹرو انصاف نہ مانگو، ووٹ ایک پرچی ہے اور اس کا ایک وقت ہوتا ہے بس اس کے بعد کچھ نہ مانگو۔