کراچی زندہ باد

صاحبو، آج کل کراچی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا ہے


Iqbal Khursheed September 05, 2016

صاحبو، آج کل کراچی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا ہے۔

ایک سبب تو اگست کا مہینہ ٹھہرا۔جیسے گیارہ ماہ غافل رہنے والامسلمان رمضان میں یکدم جاگ اٹھتا ہے، ویسے ہی یار لوگ ماہ اگست میں اچانک سبز چولا پہن لیتے ہیں۔ بھلا ہو رینجرز کا،گزشتہ چند برس سے کراچی میں یوم آزادی سمیت ہر تہوار بڑے جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔ ویسے تو رینجرز 12 مئی اور 27 دسمبرکو بھی کراچی میں تھے، مگر تب شاید معاملہ کچھ اور تھا۔تو ہم کہہ رہے تھے کہ اس بار14 اگست کو شہر بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ مصطفی کمال ضرور خوش ہوئے ہوں گے۔حواریوں سے کہا ہوگا'' دیکھو، پورے شہر میں ہمارا پارٹی پرچم لہرا رہا ہے'' البتہ جیل میں بیٹھے انیس قائم خانی شاید اتنے خوش نہ ہوں۔ ممکن ہے، ناراض ہوں کہ یہاں لایا گیا اورگرفتارکروا دیا گیا۔

خوش تو وسیم اختر بھی نہیں ہوں گے۔ ایک عرصے انھوں نے پرجوش کارکن کا کردار نبھایا۔ میئر کی ذمے داری ملی، تو بہ قول فاروق ستار، اُنھیں نیا اسکرپٹ دیا گیا تھا، تاکہ خود کو نئے سانچے میں ڈھال لیں۔ اب اس مشق کے لیے جیل کسی طور مناسب نہیں۔ میئر کی حیثیت سے شہر کی چابی تو انھیں مل گئی۔البتہ جیل کی چابی نہیں دی گئی۔ ویسے آج میئرکراچی کے پاس اتنے قلیل اختیارات ہیں کہ شاید وہ خود بھی جیل میں رہنا مناسب سمجھیں، باہر نکل کر کیا حاصل۔ جوشیلے بیانات کے دوران ارشد وہرہ ٹوکتے رہے ہیں۔ اہل پنجاب سے متعلق بھی نرم رویہ اختیارکرنا پڑے گا۔ فاروق ستار کہہ چکے ہیں، اِس بار لندن سے آنے والی کوئی کال وصول نہ کی جائے۔

ویسے کہنا پڑے گا صاحب، فاروق ستار چھپے رستم نکلے۔ کچھ ہی روز میں وہ کرگزرے، جس کے بارے میںکچھ چند ہفتوں قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔میئر بھی منتخب کروا لیا، کالعدم ہونے کا خطرہ ٹل گیا،گرفتاریاں بھی تھم گئیں ۔کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ایم کیو ایم کو ریاست کے لیے ایک حد تک قابل قبول بنا لیا ہے۔ بھائی مصطفی کمال، جوکل تک انھیں معصوم کہا کرتے تھے، شاید اسی بات پراُن سے ناراض ہیں۔ ایک معروف اینکرپرسن کوبھی یہ غم کھائے جارہا ہے کہ جس گدی پر وہ نظریں گاڑے بیٹھے تھے، وہ فاروق ستار لے اڑے۔اب آم کھا کر غم غلط کرتے ہیں۔

تو مترو، ہم کہہ رہے تھے کہ آج کل کراچی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ ہر پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما یہ نعرہ لگاتے ہیں، ان کے گرفتار ارکان عدالتوں کے باہر پاکستان زندہ بادکے ساتھ سیکیورٹی فورس کے حق میں بھی نعرے لگاتے دکھائی دیے۔(ایک صاحب کے بہ قول، عامرخان کی فلم ''پی کے ''والا معاملہ ہے۔ مرکزی کردار لوگوں کے تھپڑوں سے بچنے کے لیے دونوں گالوں پر دیوی دیوتاؤں کے اسٹیکرچپکا لیتا تھا) ادھر ایم کیو ایم پر تنقید کرنے والے بھی پاکستان زندہ باد کہنا خود پر لازم کرچکے ہیں۔ اداروں کی جانب سے آنے والے بیانات میں بھی یہی نعرہ۔ویسے اس کے پیچھے جذبۂ حب الوطنی تو ہے ہی، مگر یہ جو تازہ لہر ہے، سبب اس کا ایم کیو ایم کے بانی کی 22 اگست کی پاکستان مخالف تقریر۔اس تقریر سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی مقامی قیادت نے تو خود کولندن سے دور کرلیا،لیکن اگر بانی ایم کیو ایم پر غداری کا کیس وغیرہ بنتا ہے، تو اسے منطقی انجام تک پہنچانا ریاست کی ذمے داری ہوگی۔ براہ مہربانی یہ ذمے داری شہر کراچی پر نہ ڈالیں۔

ہم سمجھ سکتے ہیں صاحب، آپ پر پاناما لیکس کا دباؤ ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری نے ناک میں دم کر رکھا ہے، شیخ رشید کی ایک نشست بھی درد سر بن گئی،اس کے باوجود درخواست ہے،کراچی پر توجہ دیجیے۔صنعتی مرکز ہے۔ 70 فی صد ریونیو دیتا ہے۔ یہ کچرے کے ڈھیر تلے دفن ہوتا جارہا ہے۔سڑکیں ٹوٹی ہوئیں، جگہ جگہ سیوریج کا پانی کھڑا ہے، بدحالی سی بدحالی ہے۔ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے آپ وزیراعظم ہیں۔ نظرکیجیے۔

پی پی سے کراچی کے معاملے میں ہمیں کوئی شکوہ نہیں۔ بڑی قربانیاں ہیں اُن کی۔ تجربے کارجماعت ہے۔ جمہوریت کو انتقام کے لیے برتنے کا ہنر خوب جانتی ہے۔ پی پی کے بیشتر نمایندے اندرون سندھ سے منتخب ہوتے ہیں۔ اب یہ اُن کی مجبوری کہ اسمبلی یہاں، صوبائی ادارے ادھر، وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں، تومجبوراً شہر میں رہنا پڑتا ہے۔ البتہ رویہ بڑا سلجھا ہوا ہے، بالکل مہمانوں جیسا۔شرفا کے مانند سوچ یہی کہ کراچی کی فکر وہ کرے، جس کے پاس اس کا مینڈیٹ ۔ہم کسی کے کام میں ٹانگ کیوں اڑائیں۔ میئر کے اختیارات محدود کیے ہیں، تو اس کے لیے بھی انھوں نے آئینی طریقہ استعمال کیا۔ اس جمہوری سوچ کوسرخ سلام۔

جب ہم کہتے ہیں کہ کراچی کو انتظامی بنیادوں پر الگ یونٹ بنایا جائے، توکچھ دوست یوں بھڑک اٹھتے ہیں، جیسے ہم نے کشمیر بھارت کوتحفتاً دینے کی بات کردی ۔ اُن کے شدید ردعمل سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ غالباً کراچی سندھ کا اٹوٹ انگ وغیرہ ہے۔یہ کیسی دعوے داری ہے۔ کبھی یہ شہر مغلوں کے زیر تسلط رہا۔ کبھی خان آف قلات کی ملکیت۔1839 میں انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔ کچھ مورخین کا خیال کہ ترقی کا سفر تب ہی شروع ہوا۔ 1936میں سندھ کو صوبے کی شکل دی گئی، تب کراچی اِس صوبے کا کیپٹل بنا۔ بٹوارے کے بعد یہ جغرافیائی طور پر سندھ کا حصہ ہونے کے باوجود وفاقی شہر ٹھہرا۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے آج اسلام آباد پنجاب کا حصہ ہونے کے باوجود وفاقی حیثیت رکھتا ہے۔ 1958 میں ایوب خان کو جانے کیا سوجھی، دارالحکومت اٹھا کر اسلام آباد لے گئے، وفاقی اداروں کو منتقل ہوتے ہوتے ایک عشرہ لگا۔ ون یونٹ ختم ہونے کے بعد وہ شکل سامنے آئی، جو آج ہے۔ یعنی کراچی سے متعلق انتظامی بنیادوں پر ردوبدل یا کسی تبدیلی میںاچھنبے کی کوئی بات نہیں صاحب۔

ہمیں کہنے دیجیے، کراچی کو سندھ سے الگ نہ کرنے کے پیچھے اڑیل پن تو ہوسکتا ہے، منطق اور دلیل نہیں۔ دیگر باتیں تو رہنے دیں، فقط یہ جوازکافی کہ اس کی آبادی دوکروڑ ہے۔دنیا کے کئی ممالک کی آبادی کراچی سے کم ۔ہاں، یہ بات درست کہ اس معاملے کو بگاڑنے میں لسانی تفریق اور مہاجر صوبہ جیسے نعروں نے بھی کردار ادا کیا۔

مگر آج حالات اچھے ہیں پیارے۔ لیاری سے سرجانی تک پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں، تصاویر اترگئیں، دفاتر مسمار ہوئے۔ بہت خوب۔ تو کیا ہی مناسب ہو کہ پاکستان زندہ باد کے ساتھ ساتھ کراچی زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا جائے ۔ اگر آپ اسے منی پاکستان کہتے ہیں، تو قدم بڑھائیں۔ کچھ کرگزریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں