فن کے شہید آخری حصہ

1950ء سے لے کر 1960ء تک اسدجعفری بیشتر فلموں میں ولن آئے بہت زندہ دل اور محبت کرنے والے انسان تھے۔


م ش خ September 07, 2016

لاہور: اور لو میاں سب دھرا رہ گیا سپر اسٹار فالج مجھے دل کی طرف ہوا تھا جو بہت خطرناک تھا وہاں مجھے امریکن اسپتال میں داخل کیا گیا لیکن اسپتال کے بل ادا نہیں کیے گئے میں نے وہاں سے محمد علی اور معین اخترکو فون کیا پھر اداکار محمد علی مرحوم اور معین اختر نے بلوں کے انتظامات کیے یوں میں پاکستان آیا، شوگر کی تکلیف کی وجہ سے تین انگلیاں کاٹ دی گئیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد دونوں پاؤں بھی کاٹ دیے گئے۔

کاش میں تکبر کی وجہ سے ضد نہ کرتا ''5 اسٹار ہوٹل'' نہ ہوٹل میں رہ سکا نہ فلم کر سکا اور اب آپ کے سامنے میں بیٹھا ہوں، جن صحافی حضرات نے اب تک ان پر آرٹیکل تحریر کیے اس میں ان کی آخری فلم ''بیوی ہو تو ایسی ہو'' کو قرار دیا ہے جب کہ ان کی آخری فلم کا حال بھی ہم بتاتے ہیں۔ اداکارہ زیبا بختیار بہت ہی مہذب اور نفیس خاتون ہیں ان سے ہماری یاد اللہ بہت تھی میں نے ان سے تذکرہ کیا کہ آپ فلم ''بابو'' بنا رہی ہیں میری بات مانیں اور لہری صاحب کو فلم کی کاسٹ میں شامل کر لیں۔

پروڈکشن کے لوگوں نے اعتراض کیا کہ ان سے چلا نہیں جاتا وہ وہیل چیئر پر ہیں میں نے زیبا بختیار سے کہا کہ ان کو لانا اور لے جانا میری ذمے داری ہے آپ انھیں فلم میں کاسٹ کر لیں۔ طوائف کے کوٹھے کا سین تھا اور لہری صاحب بازار حسن میں آتے جاتے ہیں شوقین ہیں وہیل چیئر پر آتے ہیں۔ میں نے زیبا سے کہا کہ انھیں اچھا معاوضہ دیجیے گا انھوں نے میرے کہنے پر انھیں بیس ہزار صرف کچھ سین کے دیے اور میں انھیں گھر سے لاتا سیٹ پر اور سیٹ سے گھر لے کر جاتا۔ یہ نومبر 1999ء کی بات ہے اور پھر بابو کے سائن بورڈ پر میں نے درج کرایا خاص فنکاروں میں زیبا بختیار، سعود اور اداکار لہری قابل ذکر ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ تو لہری صاحب کو دیکھنے آتے اور یوں ان کی آخری فلم زیبا بختیارکی بابو تھی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے سابق صدر فاروق لغاری نے انھیں پرائڈ آف پرفارمنس دیا مالک انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔

19 ستمبر 1995ء کو معروف صحافی اور اداکار اسد جعفری مرحوم اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کر کے ایک نئی منزل کی طرف رواں دواں ہوئے۔ اسد جعفری صحافت میں آنے سے قبل آرمی آفیسر تھے بعد میں فلموں کا رخ کیا اور تقریباً 100 فلموں میں کام کیا۔ راقم تو طفل مکتب تھا قلم پکڑنا انھوں نے سکھایا اس میں کوئی شک نہیں کہ اسد جعفری اور الیاس رشیدی مرحوم بانی نگار ایوارڈز نے ہماری لاتعداد غلطیوں کو ترجیحی بنیادوں پر نظرانداز کر کے ہمیں صحافت کے شریفانہ اصول بتائے ہماری پہلی ملاقات آشا بھوسلے سے اسد بھائی نے کروائی وہ ان کے ساتھ آشیانہ نامی فلم میں کام کر چکی تھیں۔

آشا بھوسلے پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی ہیروئن تھیں اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں رہا کرتی تھیں انھوں نے ہمیں اور اسد جعفری کو دوپہر کے کھانے پر مدعوکیا بہت ساری باتیں ہوئیں۔ ان میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ آشا بھوسلے بہت اچھی گلوکارہ تھیں اور تیری یاد کے بیشترگیت انھوں نے گائے تھے جب کہ وہ دوران گفتگو اسد جعفری کو پیار سے اسو بھائی کہتی رہیں کتنا سادہ زمانہ تھا۔ اپنی فلم ''نیند'' کے حوالے سے اسلم پرویز مرحوم (ولن) کے بارے میں اسد جعفری نے بتایا کہ ان کا تعلق نواب خاندان سے تھا اور ان جیسا خوش لباس شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انھوں نے کبھی کسی فلم ساز سے معاوضہ نہیں مانگا کسی نے دے دیا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ تو شوقیہ کام کرتے تھے اور پاکستان میں ان جیسا ولن نہیں تھا۔

بھارتی اداکار پران نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ انڈو پاک میں صرف اسلم پرویز ہی بہترین ولن ہیں۔ ایک بات قارئین آپ کو بڑی حیرت کن بتاتے ہیں سلطان راہی مرحوم کراچی آئے اسد جعفری نے انھیں میٹروپول ہوٹل میں کھانے پر مدعو کیا میں بھی اسد بھائی کے ساتھ گیا سلطان راہی مرحوم کی اردو بہت خوبصورت تھی ہم نے پوچھ لیا انکل آپ کی اردو بہت اچھی ہے حالانکہ آپ پنجابی فلموں کے سپرہٹ اسٹار ہیں ان کے جواب نے ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیا اور مسکراتے ہوئے بولے بیٹے اردو کیوں نہیں اچھی ہو گی میری مادری زبان تو اردو ہے ہمارے خاندان نے سہارن پور (بھارت) سے ہجرت کر کے پنڈی میں قیام کیا اور میں نے پنڈی سے میٹرک کیا۔

1993ء میں پریس کلب میں فنکشن تھا اور راقم بھی پریس کلب سے وابستہ تھا ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی، پریس کلب کے سیکریٹری تھے اور ہم ان کے ساتھ ایک مقامی بڑے پرچے میں ادب خواتین اور شوبزنس پیج کے ہیڈ تھے اور ہمیں یہ نوکری طاہر نجمی کی کوششوں سے ملی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اس فنکشن میں مہدی حسن، مہ ناز، نیرہ نور، معین اختر، غلام فرید صابری قوال، روحی بانو موسیقار نثار بزمی کو مدعوکر لیں۔ اس زمانے میں صحافت میں ہمیں اتنا پختہ شعور نہیں تھا ہم نے اس کا تذکرہ اسد جعفری مرحوم سے کیا انھوں نے کہا طاہر نجمی تو میرے چھوٹے بھائی ہیں یہ سب فنکار آئیں گے تم مت پریشان ہو اور پھر ہمارے سامنے انھوں نے اپنے آفس سے ان تمام حضرات کو فون کیے یہ پریس کلب کی تاریخ کا عظیم فنکشن تھا سب نے اسد جعفری کو لبیک کہا اور سب فنکاروں نے خصوصی طور پر بلامعاوضہ شرکت کی کمپیئرنگ کے فرائض معین اختر نے انجام دیے۔

1950ء سے لے کر 1960ء تک اسدجعفری بیشتر فلموں میں ولن آئے بہت زندہ دل اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ اردو اور انگریزی میں ان کا قلم خوب چلتا تھا، ان کی پی آر بھی زبردست تھی۔ ضیا محی الدین سے ان کی گہری دوستی تھی، اسد جعفری نے راقم سے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت کی، زندگی کے آخری ایام میں انھیں فالج ہو گیا تھا اور پھر بستر سے لگ گئے۔ اس موقعے پر پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر الیاس رشیدی مرحوم اطہر جاوید صوفی کی کوششوں سے ایک بینفٹ شو منعقد ہوا جس میں ایک خطیر رقم ان کے حوالے کی گئی اور پھر ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے وہ اسی بیماری میں اپنے رب کی طرف لوٹ گئے خدا ان کی مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ 29 ستمبر 1971ء میں ہم سے جدا ہونے والی نسیم بیگم کا یہ لازوال گیت تو آج بھی نوجوان نسل پسند کرتی ہے۔ موسیقار میاں شہریار کی موسیقی میں نغمہ نگار مشیر کاظمی کا یہ خوبصورت گیت کانوں میں رس گھولتا ہے۔

اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریکارڈ ہونے والے قومی اور جنگی گیتوں کی تاریخ جب مرتب کی جائے گی تو یہ گیت سرفہرست ہو گا۔ نیرسلطانہ مرحومہ سے ہماری ایک ملاقات ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہوئی ۔ انھوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا گلوکارہ نسیم بیگم مرحومہ اپنے وقت کی بڑی گلوکارہ تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی اس وقت ملک کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم تھے انھوں نے اس گیت کو سننے کے بعد نسیم بیگم کو ایوان صدر میں طلب کر لیا سادہ زمانہ تھا لوگ کام کی قدرکرتے تھے، جب نسیم بیگم ایوان صدر آئیں تو صدر ایوب نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں آپ کے ساتھ تصویر بنوا لوں۔ ایوب خان نے جذباتی انداز میں کہا کہ نسیم بہن آپ کے گیت نے میرے فوجیوں کے حوصلے بلند کر دیے اور ہم بھارت سے جنگ جیت گئے، نسیم بیگم مرحومہ جس کامیابی سے فنی سفر طے کر رہی تھیں، وقت اس وقت تھم گیا، جب ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی، دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث وہ انتقال کر گئی تھیں۔ نسیم بیگم نے 3 بیٹیاں اور 3 بیٹے اور شوہرکو سوگوار چھوڑ ا تھا۔ نسیم بیگم بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں، ان کی شادی پاکستان کے مشہور و معروف پبلشر دین محمد سے ہوئی جو پاکستان کے بڑے پبلشر تھے۔ لازوال گیتوں کی شہزادی نسیم بیگم ایک منفرد گلوکارہ تھیں اور پھر بچے کی پیدائش پر انتقال سے انھوں نے شہادت کا رتبہ پایا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں