اندھے راستے روشن شہرکی ایک تاریک کہانی

ابھی یہ شہر اُن کے لیے دنیا کا مرکز تھا کہ ابھی وہ کم سن تھے۔ مسرور، متجسس، اور محبت کرنے کو تیار۔


Iqbal Khursheed September 11, 2016
ابھی یہ شہر اُن کے لیے دنیا کا مرکز تھا کہ ابھی وہ کم سن تھے۔ مسرور، متجسس، اور محبت کرنے کو تیار۔ : فوٹو : فائل

HONG KONG: لوگوں سے لبالب بھرا ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اپنی رنگارنگی کے باعث ہر قسم کی کہانیوں سے مالامال ہے۔ کراچی کی داستان الف لیلہ کی طرح طلسمی اور طلسم ہوش رُبا کی طرح پُراسرار ہے۔ یہاں قدم قدم پر زندگی کے رنگ بے نقاب ہوتے ہیں، روشن اور کالے کردار اپنے چہرے دکھاتے ہیں اور اپنے احساسات کی دنیا میں محدود رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ تیزی سے بدلتے حالات کا حیرتوں بھرا قصہ اور چونکاتے واقعات کی تہ در تہ داستان ہے۔ مگر نامعلوم اندیشوں کے سبب کتنے ہی المیے آدھی ادھوری خبر تو بنے، لیکن ادب پاروں میں جگہ نہ پاسکے۔ جواں سال افسانہ نگار اور صحافی اقبال خورشید کی یہ طویل کہانی دو مرکزی کرداروں کے روپ میں اس کہانی کے اصل کردار کی داستان کے کچھ گوشے سامنے لاتی ہے، اور یہ کردار ہے کراچی۔ امید ہے سنڈے میگزین میں قسط وار شایع ہونے والی یہ کہانی قارئین کو شہرقائد کی خبروں سے قطع نظر آگاہی کے کچھ نئے دریچوں کی جھلک دکھائے گی

پہلی قسط
گرد آلود ہوا ؤں اور آوارہ پتوں کے درمیان، دُھند میں لپٹا، وہ ہوٹل کے دروازے پر ظاہر ہوا۔

کیتلی سے اٹھتی بھاپ کے پیچھے سے مشکی کی بوڑھی آنکھوں نے اُسے یوں دیکھا، جیسے ٹھیک سولہ برس قبل دیکھا تھا، جب وہ تازہ تازہ تھا اور ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں رکھا کرتا تھا۔ مدھم پڑتی روشنی میں، بوجھل قدموں کے ساتھ اُس کا اپنی مخصوص نشست پر آکر ڈھیر ہوجانا اور نیفے میں اُڑسی پستول نکال کر رکھنا، برتن دھوتے گُل فام اور دہی کے کونڈے پر جھکے مجن کو نہیں چونکا سکا۔ نہیں، اس میں کچھ نیا نہ تھا۔

یہ تو گرجتے بادلوں کے ساتھ، ہواؤں کے شور کے ساتھ بلند ہوتا گریہ تھا، جس نے اندھیرے کو کچھ اور گہرا کر دیا۔ اور دیواروں میں دراڑ ڈال دی۔

''میری فیلڈنگ لگائی تھی۔۔۔میری!'' وہ آواز رندھی ہوئی تھی، اس میں صدیوں کی تھکن تھی۔ ''غدار، مجھے ٹپکانا چاہتا تھا۔''

مشکی نے، جو سیاہ پڑ چکی کیتلی میں جادو پھونکنا جانتا تھا، دھندلے پڑتے اس منظر کے کرب کو بھانپ لیا کہ اس کی آنکھوں نے اُس بے چہرہ شخص میں دیمک لگتے دیکھی تھی۔

جرم کی دیمک۔۔۔ جس کی حرکت ایک دائرے کو جنم دیتی ہے۔ وہ سرجھکائے دھیرے دھیرے رو رہا تھا۔ ایک جھکڑ بیرونی دیوار سے ٹکرایا۔''اُس نے۔۔۔۔۔۔ وکی نے۔۔۔ میری فیلڈنگ لگائی تھی۔''

شاید اُس نے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔ شاید اُس کی نظر سامنے والی کرسی پر ٹکی تھی، جو اُس وقت خالی تھی۔ کرسی، جس پر وکی سولہ برس پہلے آ کر بیٹھا تھا۔ کرسی۔۔۔ جہاں کل دوپہر تک وہ موجود تھا۔ اور اس نے بھی پستول میز پر رکھا تھا۔

آسمان پر شور اٹھا۔ ماضی کی کیتلی میں ابال آیا۔ طوفان نے شدت اختیار کرلی۔ گرد آلود ہواؤں اور آوارہ پتوں کے درمیان۔۔۔ مشکی نے کائنات کو لرزتے دیکھا۔

(1)
ابھی سانحے کچھ دور تھے، زندگی ملائم تھی کہ ابھی حقیقت عیاں نہیں ہوئی تھی۔

ابھی یہ شہر اُن کے لیے دنیا کا مرکز تھا کہ ابھی وہ کم سن تھے۔ مسرور، متجسس، اور محبت کرنے کو تیار۔

وہ اس نیم متوسط شہر کی نیم متوسط بستی پر اترنے والا ایک زرد دن تھا، جب عظیم عرف اوزی نے گلی کے دھوپیلے حصے میں وکی کو پہلی بار دیکھا، جو وقفے وقفے سے اپنے ماتھے پر پھیلے بالوں کو ایک جھٹکا سے ہٹاکر اپنی نیلی آنکھوں عیاں کر دیتا کہ وہ ہونٹوں سے قبل آنکھوں سے مسکرایا کرتا تھا۔ اور ایسا وہ اپنی موت تک کرنے والا تھا۔

وہ اسکول میں نیا تھا۔ وہ اُس علاقے سے آیا تھا، جو کبھی لسانی فسادات کا گڑھ رہا تھا۔ اُدھر گھر جلائے گئے، اور بہت سے انسان قتل کیے گئے، تاکہ شہر کی سیاست نئی کروٹ لے سکے۔

مگر اب سب ٹھیک تھا۔ اور اگر ٹھیک نہ بھی تھا، تب بھی غیرمتعلق تھا کہ ابھی وہ کم سن تھے۔

وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سیٹی بجاتا ہوا اس دھوپیلے حصے تک گیا، اور وکی کی نیلی آنکھوں میں کوئی سوال ابھرنے سے قبل ہی مطلع کردیا کہ یہ اُس کا علاقہ ہے۔ ''اِدھر کے بھائی لوگ ہم ہیں۔''

''بھائی لوگ کو وکی کا سلام۔'' لڑکے نے انتہائی فطری انداز میں ہاتھ کو سر تک جانے دیا تھا۔ اور فوجی کے انداز میں پیر پٹخا تھا۔ اور اوزی کو یہ اچھا لگا تھا۔ وہ ہنسنے لگا۔

چھٹی کے بعد وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، بارشوں سی سرمستی لیے، اپنے پیروں کے نشان چھوڑتے ہوئے مشکی کے ہوٹل میں داخل ہوئے اور روشن دان کے سامنے والی میز پر بیٹھے، جہاں سے مسجد کا پچھلا دروازہ دکھائی دیتا تھا۔ اور وہ اس میز پر اگلے سولہ برس تک بیٹھنے والے تھے، بِنا اپنی نشست تبدیل کیے۔

مجن نے، جو اُس وقت خوش بودار تیل لگا کر بال بٹھایا کرتا تھا، اُنھیں گھور کے دیکھا۔۔۔۔ اور مشکی اُسے دیکھ کر غرایا تھا۔ ''ابے اسکول کے لمڈے ہیں۔ اوقات میں رہیو۔''

وہ جھینپ گیا اور کلائی پر بندھا رومال کھول کر پھر باندھنے لگا، ''اپن کو پتا ہے۔ انجینئر لطیف کا چھوکرا ہے۔''

انجینئر لطیف، جو وقار عرف وکی کا باپ تھا۔۔۔ انجینئر نہیں تھا۔ وہ محکمۂ بجلی میں ہیڈ کلرک تھا۔ اور اِس غم میں ہر جمعرات کو شراب چکھا کرتا تھا کہ اس کے باپ نے ہجرت کے بعد دلی کی حویلی کا کلیم جمع نہیں کروایا، اور جن دنوں اِس ساحلی شہر میں ہر وقت مینہ برسا کرتا تھا، اور زمین کوڑیوں کے مول تھی، کوئی پلاٹ نہیں خریدا۔

وہ ہر جمعرات کو اس غم میں شراب چکھا کرتا کہ اس کا باپ حب الوطنی اور قائداعظم کے پورٹریٹ کو سینے سے لگائے اس کچی بستی میں آن بسا، جو گذشتہ چار عشروں میں اتنی گنجان ہوگئی تھی کہ ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر ایک عورت اپنی پڑوسن کو پکار لیتی، اور دوسری عورت اسے سہولت سے سن لیتی۔ اور جھٹ سے ایک بچہ چینی یا دودھ کا پیالا لیے چلا آتا، یا آکر کہہ جاتا کہ خالہ چینی ختم ہوگئی ہے۔

انجینئر لطیف اس بستی سے، اس کی تنگ گلیوں سے، اس کی موریوں سے، ٹاٹ کے پیچھے اُگتے بچوں سے، اپنی بیوی سے بے زار تھا، پر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا کہ وہ انجینئر نہیں تھا۔ زیادہ پڑھ نہیں سکا تھا کہ اس کے باپ نے کلیم جمع نہیں کروایا تھا۔

اور وہ اپنے بیٹے کے نئے دوست اوزی سے بھی بے زار تھا کہ وہ اُس لڑکے کے باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا، جو امرود کے پیڑ والے مکان کا مکین تھا، اور خود کو ہائی وے پر واقع سرد خانے کا انچارج بتلاتا پھرتا تھا۔

''بکتے ہیں فہیم صاحب۔'' لطیف اکثر پان والے سے کہتا، اور اکثر نقد ادائی کے بجائے پیسے کھاتے میں لکھوا دیتا۔ ''ادھر لوئر اسٹاف میں ہوں گے۔ ساتویں فیل ہیں موصوف۔''

اپنے باپ کی نصیحتوں سے بے پروا لڑکا اپنے دوست کی سیلن زدہ بیٹھک کے کثرت سے چکر لگاتا، مگر ساتویں فیل فہیم صاحب سے اُس کا خال خال ہی سامنا ہوتا۔

وہ مارشل لا کے بعد کا زمانہ تھا، اور گندمی رنگت والا پستہ قد فہیم مضافات کے کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت ہوگیا تھا، اور خلافت کے حصول کے لیے زور مار رہا تھا۔ روحی سفر کے دل دادہ اوزی کے باپ کا طرزعمل کچھ ایسا غیرمتوقع نہیں تھا کہ اس گھر کی پلستر سے محروم ایک دیوار پر خاندان کا شجرہ ٹنگا تھا، جو اُس کا تعلق اجمیر کے خانوادے سے ثابت کرتا تھا۔

اوزی کو کبھی اس کی پروا نہیں رہی۔ ''اپن کو نہیں پتا پارٹنر۔ بچپن ہی سے ادھر لگا ہے یہ۔'' وہ جماہی لیتے ہوئے کہتا۔ اس لاتعلقی کا مجن کے پاس، جو اَب وکی کو دیکھ کر ہونٹ نہیں کاٹتا تھا، اچھا جواز تھا۔ ''چھوکرا لے پالک ہے۔'' وہ کان میں انگلی ڈال کر پوری قوت سے جھٹکے دیتا۔ ''کچرے سے اٹھایا ہوگا اس کو۔''

یہ وہ بات تھی، جس کے بارے میں وکی کئی برس بعد، جب ان کے رشتے میں دراڑ آگئی تھی، اور گرد کا طوفان نزدیک تھا، بڑی سنجیدگی سے سوچنے والا تھا۔

(2)
اسکول جلد پیچھے رہ گیا، گو وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھیں وہ آسیبی عمارت اچھی لگتی تھی، پر زندگی میں گھوڑے جتے تھے۔ وہ دوڑ رہی تھی۔
جلد وہ اپنی مرطوب کلاس، اس کی بے رنگ ڈیسک، اسکول کا گھنٹا، راہ داری میں ہونے والے پراسرار واقعات، سب بھول گئے۔ ایک ہی کالج میں داخلہ لینے کی آرزو نے اُن دوستوں کا جیون تلپٹ کردیا تھا۔

صبح ناشتے سے بے پروا آئینے کے سامنے کھڑا رہنا، قہقہے لگاتے اُن گلیوں سے گزرنا جہاں ہمہ وقت معاشقے جاری رہتے، دودھ والے، نائی اور موچی کو دیکھ کر ہاتھ ہلانا، اور یوں پیدل ہی اسکول پہنچ جانا، اور زندگی کے جادو بھرے لمحات میں داخل ہوجانا، اور وکی کا بہ آواز بلند گنگنانا: ''اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے''، اور اوزی کا اِس ناقابل فہم مصرعے پر فصیح و بلیغ اشارے کرنا؛ سب قصہ ماضی بن گیا۔ سب!

کالج گھر سے میلوں دور تھا۔ اس دوری نے اُنھیں کھٹارا بسوں میں چڑھنا تو سکھا دیا، اُنھوں نے پسینے سے تر جسموں کے درمیان کھڑے رہنے کی عادت بھی ڈال لی، پروفیسروں کی ناراض نگاہوں کو دھوکا دینے کا ہنر بھی پالیا، مگر اس دوری نے انھیں بچپن کے اُن بھید بھرے لمحات سے محروم کردیا، جنھوں نے انھیں فطری بے ساختگی عطا کی تھی، اور ہمالیہ کی چوٹی پر لا کھڑا کیا تھا۔ وہ لاابالی پن سے محروم ہورہے تھے۔

کالج اور گھر کے درمیانی فاصلے نے اُنھیں یہ احساس بخشا کہ ان کی بستی سے اُدھر جو دنیا ہے، جو بے ترتیب اور اوبڑ کھابڑ ہے، وہ لسانی طور پر منقسم ہے۔۔۔ مذہبی طور پر بٹی ہوئی ہے۔ ایک سے نظر آنے والے انسانوں میں خلیج تھی۔ سانحۂ علی گڑھ کی آگ ابھی بجھی نہیں تھی۔

''ابے یہ۔۔۔تو دوسری پارٹی کے ہیں۔'' اوزی کالج کی بینچ پر بیٹھے لڑکوں کو دیکھ کر اُسے متنبہ کرتا۔ اور وہ جواباً کہتا۔ ''کلٹی ہوجاتے ہیں استاد۔ کل بھی پھڈا ہوگیا تھا۔''

پر یہ جھگڑے اب ٹلنے والے نہیں تھے۔ خلیج بڑھتی جارہی تھی۔ وقت کو سیاست کا گُھن لگ گیا تھا۔ اور فاصلے آسمانوں سے گرنے لگے تھے۔

انتخابات سر پر آتے ہی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوگئیں۔ شہر کا مزاج بدل گیا۔

ان کی بستی میں رنگ رنگ کے پوسٹر لگ گئے تھے۔ دیواروں پر نعرے گونجنے لگے۔ گھروں میں پمفلٹ چل کر آتے۔ بڑی گاڑیاں چھوٹی چھوٹی گلیوں میں داخل ہوتیں، اور کیچڑ اڑاتیں۔

دعووں اور وعدوں کا عہد شروع ہوگیا تھا۔ وکی خوش تھا کہ کالج بند ہونے کے باعث وہ اپنی بھید بھری بستی میں لوٹ آیا تھا۔ اور فارغ صبح اور خالی دوپہریں کھڑکی کے سامنے گزارہ کرتا تھا کہ وہ ایک نئے تجربے سے گزر رہا تھا، جس کے رنگوں نے آسمان کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اور ایک قوس قزح ظاہر ہوئی تھی۔

اوزی اپنے دوست میں آنے والی تبدیلیوں پر متذبذب ضرور تھا، پر چپ رہا کہ ان کے درمیان کبھی کوئی بات زیادہ عرصے راز نہیں رہی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپاتے تھے۔ وہ ایک ہی کھونٹی سے بندھے تھے۔

تو اس نے انتظار کیا۔ اور انتظار بے ثمر ثابت نہیں ہوا۔ موسم سرما کی ایک سہ پہر، پولنگ سے ٹھیک چار ہفتے قبل سامنے رکھی چائے کو یک سر نظرانداز کرتے ہوئے ۔''وہ بھی تیرے بھائی کو چاہتی ہے۔''

''جانی، اپن کو پتا تھا۔'' اوزی نے میز بجائی۔ کھڑے ہو کر رقص کیا۔ اور کسی غیرمرئی جسم سے بغل گیر ہوا۔ مجن دوڑا دوڑا بسکٹ لے آیا۔ گل فام نے بھی، جو ابھی کم سن تھا، قمیص اتار کر ناچنا چاہا۔

''ابے سٹھیا گیا ہے کیا؟'' مشکی کی آواز میں تیزی ضرور تھی، پر ایسی بھی نہیں۔

ناخن کترنے کی عادت میں مبتلا اُس لڑکی کا نام القا تھا۔ جب وہ اُجلی صبحوں کا اُجالا بڑھانے کے لیے کھڑکی میں ظاہر ہوتی، تو سرخ دوپٹا بس گلے میں جھول رہا ہوتا، اور آنکھوں میں کاجل ہوتا۔ اور ہاتھوں میں چوڑیاں ہوتیں۔ اور مدھوبالا کی روح اُس پر سایہ کرتی۔ اور راون کا جی للچاتا۔

گو القا کا باپ واٹر بورڈ میں ملازم تھا، اور پان بیڑی سے اجتناب برتتا تھا، مگر سب جانتے تھے کہ اُس کا دادا ایک جولاہا تھا۔ اور پَردادا بھی یہی کام کرتے کرتے قبر میں اترا تھا۔ اور اس کے پردادا کا پردادا، جو ہندو تھا، ایسے ہی اپنا پیٹ پالتا تھا۔

تو القا، جس کا آنچل ہوا کو مہمیز کرتا، جسے پانے کو راون سوانگ بھرتا، کمتر تھی۔ اور یہ طے تھا کہ انجینئر لطیف اُسے قبول نہیں کرنے والا۔ مگر اس وقت یہ مدعا نہیں تھا۔ اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔ بس، ایک کیمیائی گڑبڑ تھی، جسے محبت کہتے ہیں۔ اور وہ پھل دار درختوں کی ٹہنیوں پر جھول رہی تھی۔

اگلے چند ہفتے دونوں لڑکے اس سحر میں رہے، جو اگرچہ ایک کا ذاتی تجربہ تھا، مگر دوسرے کو بھی اپنی اُور کھینچتا تھا کہ وہ ایک کھونٹی سے بندھے تھے۔ مگر پھر وہ دن نازل ہوا، جو اس سحر میں خنجر گھونپنے والے تھا۔

(3)
ملن کا موسم تھا۔ درختوں پر پھول کھل آئے تھے۔ ہواؤں میں بانسری کی لے تھی۔ بستی کے آخری کونے پر جو دو رویہ سڑک تھی، جہاں ایک زبان کا اختتام ہونے لگتا تھا، اُس کے ادھر دوسری بستی تھی۔۔۔ اُدھر دوسری زبان تھی۔

وہاں، اس دو رویہ سڑک پر، جو عرصے سے بے توقیر تھی، ایک سرد شام جھنڈا لگانے کے تنازعے نے سنگین شکل اختیار کرلی۔ وکی اور اوزی نے، جو اپنی ماؤں کے بُنے سویٹر پہنے فقط تماشا دیکھنے آئے تھے، خستہ حال مکانوں سے اسلحہ باہر آتے دیکھا۔ وہ لڑکے جو کل تک اُن کے ساتھ کنچے کھیلا کرتے تھے، اور دروازوں کی کنڈی بجاکر بھاگ جانے کو بہترین تفریح خیال کرتے تھے، ٹی ٹی اور بندوق اٹھائے نعرے لگارہے تھے۔

علاقہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ جتنی دیر میں وکی اپنے دوست کو کھینچتا ہوا وہاں سے نکلتا، تین بدن روح سے محروم ہوچکے تھے۔ تین لاشیں گر چکی تھیں۔

کچھ دیر بعد سائرن چنگھاڑنے لگے۔ ایمبولینس اور پولیس موبائل کی آوازوں کا فرق پتا نہیں چلتا تھا۔ خوب لاٹھی چارج ہوا۔ چند لڑکے گرفتار ہوگئے تھے۔ باقیوں کو تھپڑ رسید کرکے بھگا دیا گیا۔

پولیس چلی گئی، تو رات اتر آئی، جو خوف اور اندیشوں کی رات تھی۔ سڑک کے دونوں طرف یہ افواہ پھیلی تھی کہ دوسری طرف سے حملہ ہونے والا ہے۔ آج قتل عام ہوگا، آج اماوس ہے۔

جب وقت خوب گہرا سیاہ ہوگیا، تب اپنی اپنی چھتوں پر دبکے لوگوں نے کچھ شعلے ہوا میں بلند ہوتے دیکھے۔ فائرنگ سے مشابہہ آوازیں سنیں۔ سائے گلیوں میں ڈولتے پھرتے تھے۔ اور اُن لوگوں کے نام پکارتے تھے، جو کچھ برس قبل مر چکے تھے۔

جو لوگ اُس تحیرخیز تجربے سے گزرے، جنھوں نے وہ پراسرار آوازیں سنیں، ان میں وکی اور اوزی بھی شامل تھے۔ ابھی لڑکپن تھا، اور وہ کم ویو لینتھ کی آوازیں سن سکتے تھے۔

وہ دونوں ڈر گئے۔ فجر کے وقت سڑک کنارے، جوہڑ میں ایک لاش ظاہر ہوئی، جو کچھ ہی گھنٹوں میں پھول گئی۔ پھر سائرن سنائے دیے۔ ایک بار پھر لاٹھی چارج ہوا تھا۔

اِس بار کرفیو لگا دیا گیا۔ مکین، اپنے مکانوں میں محصور ہوگئے۔ تقسیم ابھرنے لگی تھی۔

الیکشن تک علاقہ تناؤ سے بھرا رہا۔ اور انتخابی نتائج کے بعد تناؤ اور بڑھ گیا۔ صوبائی حکومت بدلنے کو تھی۔ مخالفین ایک دوسرے کے روبرو آگئے۔ اوزار تیز ہورہے تھے۔ سیاسی مقدمات بننے والے تھے۔

یہ روشنیوں کا شہر تھا۔۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔