بلوچستان پر مودی کے بیان نے اس کے ارادے اور حکمت عملی عیاں کردی

کچھ ہفتوں کے اندر بلوچستان میں حیران کن تبدیلی آئے گی، ارکان صوبائی اسمبلی نے ہم سے عہدوفا کیا ہے، معاہدے کیے ہیں


رضا الرحمٰن September 11, 2016
سینیئر سیاست داں، سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند سے مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے قبائلی راہ نماؤں میں سردار یار محمد رند کا نام نمایاں ہے۔ انہوں نے رواں سال کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے اپنی نئی سیاسی سمت کا تعین کیا اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد کرکے اپنے نئے سیاسی سفر کی ابتدا کی۔

سردار یار محمد رند نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1983ء میں بحیثیت چیئرمین ضلع کونسل کچھی کیا اور 1985ء میں آزاد حیثیت سے ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تاہم بعدازاں نواب محمد اکبر بگٹی کے سیاسی ہم قدم ہوئے اور 1990ء ،1993اور1997ء میں جمہوری وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابی عمل میں حصہ لیا اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ناراض راہ نما سردار فاروق لغاری نے ملت پارٹی کی بنیاد رکھی تو بلوچستان سے ان کی معاونت سردار یار محمد رند کے ذمہ ٹھہری۔ ملت پارٹی کے مسلم لیگ (ق) میں انضمام کے بعد ایک عرصے تک وہ مسلم لیگ (ق) سے وابستہ رہے اس دوران وفاقی وزیر خوراک و زراعت اور سیفران (ریاستوں اور سرحدی علاقوں کے امور کی وزارت) کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ تاہم مسلم لیگ (ق) سے کبیدہ خاطر ہوکر علیحدگی کے بعد کافی عرصہ میدان سیاست سے دور رہے اور رواں سال تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ ابتدائی ایام میں ہی انہیں پارلیمانی تجربے کی بنا پر پی ٹی آئی بلوچستان کا آرگنائزر مقرر کیا گیا اور پارٹی سطح پر باقاعدہ عہدے داروں کی نام زدگی کے بعد حال ہی میں انہیں پی ٹی آئی بلوچستان کا صدر نام زد کردیا گیا۔

ملکی و علاقائی صورت حال سمیت بلوچستان کے حالات اور آئندہ کی ممکنہ سیاسی تبدیلیوں پر ایکسپریس نے ان سے تفصیلی نشست کی جس کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

سوال: آپ کی ذاتی دوستی آصف علی زرداری سے تھی۔ اس بنا پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ آپ اپنی سات سالہ سیاسی خاموشی کا سکوت پیپلزپارٹی جوائن کرکے توڑیں گے پھر پی ٹی آئی میں شمولیت کا غیر متوقع فیصلہ کیسے کیا؟
سردار یارمحمد رند: دیکھیں سات سالہ سیاسی خاموشی کے بعد میں کسی بھی سیاسی جماعت میں جانے یا نہ جانے کے فیصلے پر کنفیوز تھا۔ میں کوئی صوبائی جماعت جوائن کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ آصف زرداری سے میرے ذاتی مراسم ضرور تھے، لیکن بدقسمتی سے اس تعلق کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا، لیکن پیپل پارٹی جوائن کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ صوبائی جماعتوں کی سیاست اور میری سوچ میں بہت فرق ہے۔

صوبائی جماعتیں حقیقتاً الیکشن کے بعد وفاقی جماعتوں کا حصہ بن جاتی ہیں اور میرے خیال میں وفاقی جماعتوں کے ذریعے بلوچستان اور یہاں کے عوام کی آواز کو بہتر طور پر وفاق میں اٹھایا جاسکتا ہے۔ محض بلوچستان کی سیاست کرکے ہم اپنے صوبے اور عوام کے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتے جو ایک وفاقی جماعت میں رہ کر کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت حال میں میرے پاس دو ہی آپشن تھے، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف۔ سو ان دو آپشنز پر غور کیا تو میں نے پایا کہ جمعیت علمائے اسلام ایک عرصے سے بلوچستان اور وفاق میں حکومت میں رہی ہے لیکن صوبے اور یہاں کے عوام کے لیے جمعیت نے دیگر جماعتوں کی طرح کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا۔

اس لیے میں نے پی ٹی آئی میں جانے کا فیصلہ کیا، کیوںکہ میرے خیال میں پی ٹی آئی ہی وہ واحد جماعت ہے جس سے اس ملک کے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں اور پی ٹی آئی کی سوچ اور ایجنڈے نے مجھے متاثر کیا۔ مستقبل کی امید اور نئی سوچ سے مائل ہوکر میں نے پی ٹی آئی جوائن کی۔ جہاں تک جمعیت علمائے اسلام کا تعلق ہے تو میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ جے یو آئی نے 20 سال اقتدار میں رہ کر ایک ڈویژن کی سیاست کی اور ووٹ ملنے کے باوجود ہمارے علاقوں کو نظرانداز کیا اور یہ دل چسپ بات ہے کہ گذشتہ نواب رئیسانی دور میں سابق گورنر اور وزیر منصوبہ بندی نے میرے فنڈز آپس میں تقسیم کرلیے اور مجھے اور میرے علاقے کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا۔

مگسی خاندان اور مولانا واسع سمیت جمعیت کے راہ نماؤں سے میرے اچھے تعلقات تھے۔ تاہم مجھے ان معاملات پر بہت افسوس ہوا۔ بجائے مجھے اور میرے علاقے کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا اور ہمارے علاقے کی ترقی کے لیے اقدامات کیے جاتے۔ اس کے برعکس چیف سیکریٹری بلوچستان نے عدالت عالیہ کے فورم پر تحریری طور پر لکھ دیا کہ گورنر بلوچستان نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ فنڈز مولانا واسع اور طارق مگسی میں نصف نصف تقسیم کیے جائیں، جس کا مجھے افسوس ہوا۔ میرا نہ سہی میرے علاقے کے لوگوں کے حقوق کا خیال ضرور رکھا جاتا۔

سوال: آپ 7 سال تک اپوزیشن میں رہے۔ تاہم دیکھا گیا کہ آپ اپوزیشن کا وہ فعال کردار ادا نہیں کرسکے جو آپ کو ادا کرنا چاہیے تھا، جس کی وجہ سے آپ کے سیاسی معاملات پر بھی فرق پڑا۔ اس کی کیا وجوہات تھیں؟
سردار یار محمد رند: گذشتہ پانچ سال میں شوران میں 46 افراد قتل ہوئے، 120سے زیادہ لوگ بم دھماکوں، بارودی سرنگیں پھٹنے کے باعث اور دیگر واقعات میں زخمی ہوئے۔ علاقہ 11ماہ تک میں محاصرے میں رہا۔ سابق دورحکومت میں وزیراعلیٰ، وزیرخزانہ، مقامی ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر سب ہی نے ہمارے خلاف محاذ کھول رکھا تھا۔ ایمبولینسوں، پولیس، لیویز اور بی سی کی گاڑیوں میں بھاری اسلحہ ہفت ولی اور سنی پہنچایا جاتا رہا اور درجنوں کے حساب سے روزانہ فائر کیے جاتے تھے۔ میرے اوپر 17مقدمات اس لیے بنائے گئے تھے کہ جس دن میں کوئٹہ آؤں گرفتار کرلیا جائے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ حکومت نے طاقت مجھے اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے روکے رکھا۔ ایسی کڑی صورت حال میں بھی سابق اسپیکر محمد اسلم بھوتانی نے مجھے ڈی سیٹ نہ کرکے بلوچستان اسمبلی کا بہترین کنسٹوڈین ہونے کا عملی ثبوت دیا۔

سوال: تو کیا موجودہ حالات میں آپ خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں؟
سردار یار محمد رند: موجودہ صوبائی حکومت میں بھی میں خود کو قطعی محفوظ نہیں سمجھ رہا۔ میں نے صوبائی صدر پی ٹی آئی اپنی قبائلی دشمن داری اور سابق پارلیمانی خدمات اور وفاقی وزیر کے استحقا ق کے تحت سیکوریٹی کی طلبی کے لیے حکومت کو لکھا مگر آج تک صوبائی حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اب اگر مجھے کچھ ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری چیف سیکریٹری بلوچستان اور آئی جی پولیس پر عاید ہوگی۔ میں قانون کا احترام کرتے ہوئے اپنا پورا پروگرام شیئر کرتا ہوں۔ تاہم انتظامیہ کی جانب سے ایک فی صد بھی تعاون نہیں کیا جارہا۔ دوسری طرف استحقاق نہ رکھنے والے ایک ایسے شخص کو جس کی کوئی قبائلی یا سیاسی ذمہ داریاں نہیں 30سے 40 محافظ اور سرکاری گاڑیاں دے رکھی ہیں، جن میں سنگین جرائم میں ملوث ملزمان سفر کرتے ہیں۔ یہ تمام تر معاملات آن ریکارڈ پر رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ کل کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے متعلق صوبائی حکومت اپنی لاعلمی کا اظہار نہ کرسکے۔

سوال: قوم پرست جماعتوں کو آپ نے کیوں لفٹ نہیں کرائی۔ کیا وہ آپ کے معیار پر پوری نہیں اترتیں؟
سردار یار محمد رند: پاکستان کی تمام وفاقی اور صوبائی جماعتیں میرے لیے قابل احترام ہیں، لیکن 30 سالہ سیاسی زندگی میں دیکھا ہے کہ یہ صوبائی جماعتیں آگے جاکر وفاقی جماعتوں سے حقوق کے لیے دست دراز کرتی ہیں۔ سو میری یہ سوچ رہی ہے کہ پھر ایسی ہی وفاقی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کی جائے جو براہ راست وفاق کی سیاست کر رہی ہیں۔ الحمدللہ ویسے بھی ہمارے خاندان نے ہمیشہ قومی سالمیت و یک جہتی کی سیاست کی ہے اور کبھی اینٹی اسٹیٹ سیاست کا حصہ نہیں رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل ایک بہتر اور جمہوری قومی سیاسی جماعت سے وابستہ ہے۔ ہم آئین کے اندر بہتر ترامیم کرکے صوبوں کا حق بہتر طور پر لے سکتے ہیں۔
سوال: قبائلی سطح پر 1997ء میں ایک اتحاد بنا تھا کہا جارہا ہے کہ وہ پھر فعالیت کی جانب جارہا ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال اور ممکنہ قبائلی اتحاد کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
سردار یار محمد رند: بدقسمتی سے اس اتحاد کے بننے کے وقت بھی بعض لوگوں نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا تھا اور موجودہ وقت میں ایسے کسی بھی قبائلی اتحاد کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں پر ہر کوئی اپنی انفرادی حیثیت سے انتخابی عمل میں حصہ لیتا ہے اور ہم سب کا تعلق الگ الگ سیاسی جماعتوں سے ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں رہتے ہوئے ایسا کوئی اتحاد تشکیل دیا جائے۔ ہاں یہ بات میں نے ضرور کہی تھی کہ سب قبائل مل کر بیٹھیں تاکہ قبائلی تنازعات پیدا نہ ہوں لیکن سیاست میں ایسا کوئی اتحاد بنتا نظر نہیں آرہا۔

سوال: بحیثیت صدر پاکستان تحریک انصاف بلوچستان آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا بلوچستان میں کیا مستقبل ہے؟
سردار یار محمد رند: ہم بلوچستان کی سیاسی صورت حال پر اثرانداز ہونے والے تمام محرکات کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں، لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کچھ ہفتوں اور مہینوں کے اندر بہت بڑی حیران کن تبدیلی رونما ہوگی۔ موجودہ اسمبلی میں موجود ایم پی ایز نے ہم سے عہدوفا کیے ہیں اور ہمارے ساتھیوں کے ان سے معاہدات بھی ہوئے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں میں شامل ان ایم پی ایز کی اس وقت بہت سی مجبوریاں ہیں۔ انہیں ڈویلپمنٹ کی مد میں 25 سے 30کروڑ روپے مل رہے ہیں اور اپنے حلقوں میں انتظامی مجبوریاں بھی درپیش ہیں۔

ہزاروں لوگوں نے انہیں ووٹ دے کر صوبے میں اپنے مسائل کے حل کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا اس وقت ان کا آنا بہت سے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ آئندہ بجٹ کے بعد بہت بڑی تبدیلیاں آئیں گی بل کہ تبدیلی کے اثرات عید کے بعد سے نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ بڑی تعداد میں جیتنے والے امیدوار اور دوسری پوزیشن پر آنے والے انتخابی امیدوار پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ عمران خان کے چاہنے والے ان کے سپورٹرز تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہیں، لیکن لیڈرشپ کی کمی ہے۔ ہم نوجوانوں کو آگے لائیں گے۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت میں نہیں لیکن لوگ جوق درجوق ہمیں جوائن کر رہے ہیں۔ حالاںکہ اس سے قبل یہ روایت رہی ہے کہ لوگ برسراقتدار جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود لوگ ہمیں جوائن کر رہے ہیں۔ یہ اچھا پیغام ہے اور نیک شگون ہے۔ یہ بلوچستان میں ایک واضح تبدیلی ہے۔

سوال: جیسا کہ آپ نے موجودہ ایم پی ایز کا ذکر کیا یہ تو وہی چہرے ہیں پھر یہ تبدیلی تو نہ ہوئی؟-
سردار یار محمد رند: لوگ تو یہی ہیں، کیا ہمیں آئین یہ اجازت دیتا ہے کہ باہر سے لوگ لائیں اور انہیں امیدوار بنائیں؟ ہمیں امیدوار انہی لوگوں کو بنانا ہے، لیکن ہماری کوشش ہوگی کہ ان میں سے اچھے لوگ آگے آئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گڈگورننس کا انحصار چیف ایگزیکٹیو پر ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس دن ہم اقتدار میں آئے بلوچستان کو صاف ستھری، کرپشن سے پاک ایک ایسی حکومت دیں گے جس کے پاس پروگرام ہوگا، سوچ ہوگی۔ ہمیں بلوچستان کے احساس محرومی کا ادراک ہے، بے روزگاری کا احساس ہے۔ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ جو پورے صوبے کا چہرہ ہے اس کی حالت قابل رحم ہے۔ ہم تمام ضلعوں اور شہروں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کریں گے۔ بلوچستان میں اس وقت تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے، سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نجی عملے کی نسبت دگنی تن خواہیں لے رہے ہیں، مگر 80 فی صد اساتذہ اسکولوں میں نہیں ہوتے۔ ہم یقینی طور پر ان کو اسکولوں میں لائیں گے۔

صحت کا نظام آپ کے سامنے ہے۔ ایک دھماکے میں 70،80 لوگ شہید ہوگئے، انہیں ابتدائی طبی امداد تک نہیں ملی۔ تین چیزیں ہماری ترجیحات میں شامل ہیں: امن و امان، تعلیم اور صحت جب کہ ترقی کے دیگر اہداف کے لیے ذرائع مواصلات کے شعبے کی ترقی بھی ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہماری ترجیح لائیو اسٹاک، فشریز اور مائننگ اینڈ انڈسٹریز ہوں گے۔ ہم بلاتاخیر اپنے منصوبوں پر کام شروع کردیں گے، لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہوگا جب صوبے میں امن ہوگا۔ سو سب سے پہلی ترجیح امن ہوگی۔

سوال: شوران میں معیاری تعلیم کے لیے آپ ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے قبائلی افراد تعلیم کے خلاف سوچ رکھتے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے؟
سردار یار محمد رند: ہر وہ قوم جو تعلیم کے میدان میں آگے آئی اس کو ترقی اور کام یابی ملی۔ میری قوم اور قبیلے نے جتنی قربانیاں میرے لیے اور میری کاز کے لیے دی ہیں بہت کم قبیلوں میں اس کی مثال ملتی ہے۔ اب تک جتنے میرے لوگ شہید ہوچکے ہیں یا دربدر ہوئے ان سب کو تو میں کچھ نہیں دے سکتا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو میں انہیں دے کر جاؤں۔ میرے قبیلے نے مجھ پر احسان کیا شاید اس کا بدلہ میں اس صورت میں ہی دے سکوں۔ بلوچ قوم جب تک تعلیم کے میدان میں آگے نہیں آئے گی پس ماندگی، جہالت، ناخواندگی، جھوٹے اور مکار لیڈر اس کا نصیب رہیں گے۔

شوران میں قائم ہونے والے سیکنڈری ہائی اسکول میں ابتدائی طور پر 150بچوں کو داخلہ دیا جائے گا، جن میں 50 فی صد ضلع کچھی سے جب کہ مزید 50 فی صد پورے بلوچستان کے ہر ضلع سے میرٹ پر لیے جائیں گے۔ نشستوں کی تقسیم ہر ضلع کے رقبے اور اس کی آبادی کی مناسبت سے ہوگی اور میرٹ پر اترنے والے ہر اس بچے کو داخلہ دیں گے جس کا تعلق غریب خاندان سے ہوگا۔ اس ادارے کا معیار پنجاب کے بہترین اسکولوں کے برابر رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے بورڈ آف گورنرز میں 70 فی صد افواج پاکستان اور گورنمنٹ آف بلوچستان کے افسران ہیں، جب کہ 30 فی صد تعلیم سے وابستہ نمایاں شخصیات شامل ہیں۔

سوال: آ پ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں قبائلی دشمنیوں کو زیرو ٹالرنس پر لایا جائے، تاکہ آپ کی پارٹی کے منشور پر عمل درآمد ممکن ہوسکے اور عوام کی فلاح کے منصوبے تشکیل دیئے جاسکیں؟
سردار یار محمد رند: بلوچستان کی سب سے بڑی بدبختی قبائلی جھگڑے ہیں اور ہماری جہالت کی بنیادی وجہ یہ باہمی لڑائی ہے۔ ان جھگڑوں کو اگلے سو سال تک سو فی صد روکنا تو کسی کے بس کی بات نہیں۔ البتہ حکومت چاہے تو 90 فی صد اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہم نے اپنی لڑائی کے تصفیے کے لیے بلوچستان کا سب سے بڑا قبائلی جرگہ بھجوایا۔

مجھے فخر ہے کہ میں اور چیف آف رئیسانی نواب غوث بخش رئیسانی کے سب سے بڑے فرزند نوابزادہ امین اللہ رئیسانی ایک ہی پارٹی میں ہیں اور ایک ہی ٹیبل پر بیٹھتے ہیں۔ جہاں ارادے پختہ ہوں گے وہاں مثبت نتائج ضرور نکلیں گے۔ اس کے ساتھ اسٹیٹ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوں وہاں پہلے ہی دن سے انہیں روکا جائے، کیوںکہ اس سے خاندان، قبائل اور علاقے کی معاشی صورت حال متاثر ہونے کے ساتھ ہمسائے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کو روز اول ہی سے روک دیا جائے تو نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔

سوال: مستقبل میں آپ بھی حکومت میں آسکتے ہیں۔ ان معاملات سے کس طرح نبردآزما ہوں گے؟
سردار یار محمد رند: انفرادی واقعات کو نہیں روکا جاسکتا۔ تاہم قبائلی جھگڑوں کو روکنے کے لیے متعلقہ ضلعی ڈپٹی کمشنرز اور ایس پی کو معاملات کا قلعی ذمہ دار ٹھہراکر بحالیٔ امن کی موثر کوششیں یقینی بنائی جاسکتی ہیں اور ایسے واقعات پر حکومت کو فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت، سول سوسائٹی، قبائلی عمائدین، سماجی راہ نما اور علماء ان مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔
سوال: بلوچستان میں قیام امن اور ناراض لوگوں سے بات چیت کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کرنا چاہیے؟
سردار یار محمد رند: بحالی امن کے لیے خطے کے جغرافیائی حالات سے آگاہی نہایت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی حکومت کا قیام بھی نہایت ضروری ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور باہر بیٹھے لوگوں کے لیے قابل قبول ہو اور فریقین اس پر اعتماد کرسکیں۔ پھر امن کی طرف بڑھنے کا موقع موجود ہے۔ بہت سی چیزوں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ درمیان میں کرپشن اور ناانصافی میں ملوث لوگ بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں آج تک جتنے بھی حکم راں آئے وہ کرپشن اور نا انصافی کو نہیں روک سکے۔



سوال: بلوچستان میں میگا کرپشن کیس آپ کے سامنے ہے۔ ایسی صورت حال میں کیا اصلاحات تجویز کریں گے؟
سوال: اس وقت بیوروکریسی، حکومت اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے عوام کا اعتماد کھوبیٹھے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کسی بہتری کی پوزیشن کم ہی نظر آرہی ہے ۔
سوال: پی ٹی آئی بلوچستان میں گروہ بندی کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ کیا صورت حال ہے اسے کیسے ختم کریں گے؟
سردار یار محمد رند: پی ٹی آئی بلوچستان میں کوئی اختلافات نہیں اور نہ ہی کوئی گروہ بندی ہے۔ ہاں طریقۂ کار سوچ پر اختلافات ضرور ہوسکتے ہیں، جس گروہ بندی کی بات کی جارہی ہے، وہ سب میرے بھائی قابل احترام ہیں۔ ہم سب کو ڈسپلن میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ بلوچستان میں پہلے پی ٹی آئی ایک دریا کی مانند تھی، آگے چل کر یہ سمندر بنے گی اور کئی دریا سمندر میں آملیں گے۔ آج ہماری تعداد مختصر ہے، آنے والے وقت میں یہ جماعت مزید وسیع ہوگی۔ اس میں اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔

سوال: الیکشن نزدیک آرہے ہیں۔ آگے چل کر بلوچستان میں مسلم لیگ (ق)، دیگر سیاسی جماعتوں یا قبائلی اتحاد سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے؟
سردار یار محمد رند: بلوچستان کے حالات دیگر صوبوں سے الگ ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اس بات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مجھے قطعی اختیار دیا ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق ہم اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں۔ ہمارا کسی جماعت سے کوئی اختلاف نہیں۔ ملک اور بلوچستان کے مفاد میں ہم آنے والے وقت میں سیاسی اتحاد کرسکتے ہیں۔ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے، بلوچستان کے تمام سیاسی قائدین سے میرے اچھے تعلقات ہیں اور کسی کے ساتھ بیٹھنے، بات چیت کرنے اور ساتھ چلنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

سوال: بھارتی وزیراعظم مودی نے حال ہی میں بلوچستان سے متعلق بیان دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
سردار یار محمد رند: انڈیا نے آج تک ہمیں دلی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ مودی کے بیان سے ان کے ارادے اور مستقبل کی حکمت عملی عیاں ہوگئی ہے، جو ادارے ملک کے دفاع اور سالمیت کے ذمے دار ہیں انہیں مودی کے نئے بیان کے بعد حکمت عملی پر ازسرنوغورو خوض کرنا پڑے گا، جہاں تک مودی کے بیان کا تعلق ہے میرے خیال میں آنے والے وقت میں اس خطے خصوصاً پاکستان کے اندر حالات مزید خرابی کی جانب جائیں گے۔ اب یہ حکم رانوں، اداروں اور عوام پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس چیلینج سے نبردآزما ہوتے ہیں اور دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بناتے ہیں۔

سوال: پانامہ لیکس پر آپ کی حکمت عملی کیا ہے۔ تحریک چلائیں گے یا یہ تحریک ٹھنڈی پڑچکی ہے؟
سردار یار محمد رند: پانامہ لیکس پر میاں صاحب کا جانا یقینی ٹھہرگیا ہے اور اس میں کوئی گنجائش نہیں کہ میاں صاحب کو ہم بخش دیں۔ اب میاں صاحب کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے۔ اپنی بادشاہت اپنے خاندان کے کسی فرد کے حوالے کریں، پھر یہاں کے لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں کہ اس ملک پر حکم رانی کا حق میاں صاحبان کو حاصل ہے یا ایک نیا پاکستان، ایک نئی سوچ ایک نیا وژن لے کر جو لوگ آرہے ہیں انہیں حکم رانی کا حق دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک میاں صاحب اقتدار میں ہیں، پی ٹی آئی ان کے خلاف احتجاج جاری رکھے گی۔

سوال: سانحہ کوئٹہ سے متعلق کیا کہتے ہیں؟
سردار یار محمد رند: سانحہ کوئٹہ بعض قوتوں کی جانب سے یہ پیغام تھا کہ آپ بلوچستان کی ترقی، اقتصادی راہ داری، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کی جو بات کرتے ہیں ہم ایک لمحے میں بلوچستان کی کِریم چھین سکتے ہیں۔ ایک سازش کے تحت تعلیم کو یہاں تباہ کیا گیا، ڈاکٹروں کو نشانہ بنایا گیا اور اب کاری ضرب بلوچستان کی عدلیہ پر لگائی گئی۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ جس سے اس سانحے کی مذمت کی جائے۔ اب یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچائے اور شہید ہونے والے تمام افراد چاہے ان کا تعلق عدلیہ، وکلاء، صحافیوں یا سویلین افراد سے ہو ان کے ورثاء کا صحیح طور پر انتظام کرے، تاکہ جن شہداء نے اس ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں ان کی اولادیں دربدر نہ ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔