شہزادی فلیتھر شادی اورپھول

ہمارے معاشرے میں فرسٹ کزنز(First Cousins) کے مابین شادی ہونامعمول کا رواج ہے


راؤ منظر حیات September 10, 2016
[email protected]

ہمارے معاشرے میں فرسٹ کزنز(First Cousins) کے مابین شادی ہونامعمول کا رواج ہے۔ چچا، تایا، خالہ،پھوپھی اوراس طرح کے خونی قربت کے گھرانوں میں شادی کرنے کواول حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان میں بیاسی فیصدکے لگ بھگ شادی شدہ جوڑے پہلے،دوسرے یاتیسرے درجہ پر خونی رشتہ دارہوتے ہیں۔ پوری دنیامیں یہ تناسب سب سے زیادہ ہے۔سماجی حوالے سے اس میں کوئی مسئلہ نہیںمگربہت کم لوگوں کوادراک ہے کہ فرسٹ کزنزکی شادیاں،آنیوالی نسل کے لیے وہ قیامت خیزمسائل پیداکرتی ہیں یاکرسکتی ہیں جن سے نکلنایاعلاج کراناناممکن ہے۔ بیماریاں اورذہنی مسائل وہ بلائیں ہیںجوقربت کے رشتہ داروں میں رشتہ ازواج میں منسلک ہونے سے دوچند ہوجاتی ہیں۔ کوئی لکھاری، دانشور یا مذہبی رہنمااس حساس ترین موضوع پر بات کرنے کے لیے تیارنہیں۔

ضلع چارسدہ پشاورسے چند گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ چارسدہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ گاؤں کا نام ''میاکلا'' ہے۔ آبادی یہی کوئی تین چارسوگھر۔اسی تناسب سے دیکھا جائے تومیاکلامیں ڈھائی تین ہزارکی آبادی ہوگی۔گاؤں میں دوقبائل کے لوگ رہائش پذیرہیں۔ میاقبیلہ اورشیپون قبیلہ۔ مقامی رسم ورواج کے مطابق یہ تمام لوگ عرصہ دراز سے صرف اور صرف آپس میں ہی شادیاں کرتے ہیں۔

اس گاؤں میں چھوٹے بچوں اورآنیوالی نسلوں کے لیے جومسائل پیدا ہوچکے ہیںوہ المناک اورپیچیدہ ہیں۔چھوٹے چھوٹے معصوم پھول جسمانی معذوری میں مبتلاہیں۔بچوں کی اکثریت ذہنی پسماندگی اوردماغی مسائل کا شکار ہے۔ مرگی، اندھاپن، بولنے اور قوت سماعت کی شدید کمی، خون کا کینسر اور ہاتھ پیروں کامڑے ہوئے پیداہونا عام ہے۔سلمہ بی بی کی عمر36برس ہے۔میاکلامیں ہی پیداہوئی ۔

اس کے والدین قریبی رشتہ دارتھے۔سلمہ کے جسم میں تمام اعضاء بالکل ٹھیک ہیں۔دیکھنے میں اسے کوئی بیماری نہیںمگراس کے جسم کے تمام پٹھے کمزورہیں۔چھتیس برس کی عمرمیں بھی اکیلے چل نہیں سکتی۔کسی نہ کسی کو سہارادیناپڑتاہے۔میاکلامیں موجود ایک ڈاکٹرنے یہاں تک کہاکہ قریبی رشتہ داروں میں مسلسل شادیوں سے مہلک بیماریوں کی شرح گیارہ فیصد تک ہوچکی ہے۔عام حالات میں یہ شرح محض دوسے تین فیصدتک ہے۔ ڈاکٹرمحمداسلم،لاہورمیں واقع ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

جینزکے شعبہ(Human Genetics) شعبہ کے انچارج ہیں۔ڈاکٹراسلم نے اس حساس موضوع پر غیرجانبدارانہ اورعلمی تحقیق کی ہے۔ان کی گرانقدرتحقیق پنجاب کے دیہاتی علاقوں پرمرکوزہے۔ان کی ٹیم نے دس ہزارخاندانوں پرایک سیپمل (Sample) قائم کیا ہے۔ تحقیق کے نتائج حیران کن ہیں۔ بیاسی فیصدشادی شدہ جوڑے پہلی، دوسری یاتیسری پیڑھی پرخونی رشتہ دارہیں۔اس میں کوئی عیب نظرنہیں آتا۔ایک ہی برادری میں شادی کرنابھی بالکل عام سانکتہ ہے۔دس سے بارہ فیصدجوڑے''فرسٹ کزنز'' تھے۔ تحقیق کے مطابق ان خاندانوں میں پچیس فیصدمہلک بیماریاں، عام لوگوں سے زیادہ تھیں۔یہ کوئی عام نزلہ زکام یا بخار نہیں بلکہ شدیدذہنی اورجسمانی پسماندگی،کینسر،پاگل پن، سرکابڑاہوجانا،غرضیکہ شدیدترین مسائل ان گھروں میں موجودتھے۔

تحقیق کے مطابق نزدیکی رشتہ داروں میں شادیاں مالی وجوہات کی بناپربھی کی جاتی ہیںیعنی سماجی یا معاشرتی مسائل اپنی جگہ مگر جائیداداپنے خاندان میں رکھنے کی کوشش اورمالی طورپرایک دوسرے کا سہارا بننے کی کاوش بھی، ان باہمی شادیوں کے بنیادی محرکات میں سے ہیں۔ حیدرآبادسندھ میں بینش حمزہ کے مطابق ان کے والدکی شادی اپنی ماموں زادبہن سے ہوئی تھی۔ اس کاایک بھائی ذہنی معذورہے۔بینش کی شادی خالہ زاد سے ہوئی ہے۔ان کے تین بچوں میں سے بڑی بیٹی نابینا ہے۔طالبعلم قطعاً ٰیہ عرض نہیں کررہاکہ فسٹ کزنز کی باہمی شادیوں کے نتیجہ میں تمام اولادمعذورہوسکتی ہے،قطعاًنہیں۔لیکن طبی تحقیقات کے مطابق ان بیماریوں کی شرح انتہائی بلندسطح پرپہنچ جاتی ہے۔

فلیتھرکاتعلق لاہورسے ہے۔پاکستان بننے سے پہلے پیداہوئی اورپھرلندن منتقل ہوگئی۔فلیتھر،ایشاء سے تعلق رکھنے والی پہلیBarronessہیں۔ہاؤس آف لارڈکی موجودہ ممبرہیں۔شہزادی فلیتھرایک سنجیدہ اورسوچنے والی خاتون ہیں۔پاکستان سے ان کی محبت کی بہت بڑی وجہ لاہور ہے۔ بریڈفورڈمیں پندرہ فیصدپاکستانی نژادلوگ رہتے ہیں۔ اکثریت کاتعلق آزادکشمیرسے ہے۔فلیتھرنے چند دن پہلے بریڈفورڈمیں مقیم پاکستانی بچوں کے مسائل پرایک بحث کاآغازکیاہے۔یہ بحث ہاؤس آف لارڈزمیں ہورہی ہے۔شہزادی فلیتھرنے بریڈفورڈمیں بچوں میں بڑھتی ہوئی بیماریوں پرمدلل بحث کی ہے۔برطانوی ماہرین کے مطابق ان مصائب کی ایک بڑی وجہ،فرسٹ کزن شادیاں ہیں۔ فلیتھر نے باربارکہاکہ شادی سے قبل ڈی این اے ٹیسٹنگ ہونی چاہیے۔

خون کے نمونہ جات بھی لینے چاہیے۔تمام ٹیسٹ ہونے کے بعد آپس میں شادی کرنی چاہیے۔ مرکزی نکتہ صرف یہ ہے کہ پیداہونے والی نسل کوموروثی بیماریوں سے محفوظ رکھاجائے۔بیانات کے پیچھے بریڈ فورڈ میں ہونیوالے چندایسے واقعات ہیں جن سے فلیتھرہل کر رہ گئی ہے۔اس شہرمیں پچپن فیصدشادیاں خونی رشتوں میں قرارپائی ہیں۔ان شادیوں سے جواولادپیداہوئی ہے وہ یوکے کی تین فیصدکے لگ بھگ بنتی ہے۔پاکستانی اقلیت میں بیماریوں کی شرح تیس فیصدہے یعنی بریڈفورڈمیں تمام مذاہب اورنسلوں کے جتنے لوگ رہتے ہیں، ان میں بیماریاں ستر فیصدہیں لیکن اقلیت میں یہ شرح حیران کن حدتک زیادہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کاجواب موجود ہے اور اس کا ذکر پہلے کرچکاہوں۔معاف فرمائیے گا۔تمام اسلامی دنیا میں یہی رویہ موجودہے کہ قریبی رشتہ داروں میں ہی شادیاں کی جائیں۔بالکل کی جائیںمگربہت زیادہ سوچنے سمجھنے کے بعد۔

پاکستان میں توخیریہ موضوع ہی اتناحساس ہے کہ اس پر بحث کرنی بہت مشکل ہے مگرلندن اوربیرونی دنیامیں کیونکہ سائنس،تحقیق اوردلیل کو بہت بلندحیثیت حاصل ہے، اس لیے وہاں یہ سوچ اوربحث زوروشورسے جاری ہے کہ فرسٹ کزن کی شادیوں کے کیافوائداورنقصانات ہیں۔ بریڈفورڈ میں دوسالہ حمزہ رضوان کی موت پرمقامی عدالت نے تحقیقات کاحکم دیاتھا۔دوسالہ بچہ مرگی کامریض تھا۔ دوران تحقیق حمزہ کاوالدعبدل زاروقطاررونے لگ گیا۔ کہتا تھا اچھاہوا بیٹامرگیاکیونکہ پوری زندگی اپاہج کی طرح زندہ رہتا۔

اس کے بیان کے مطابق روزینہ اس کی بیوی فرسٹ کزن ہے۔ عبدل اپنے پہلے دوبچے بھی ابتدائی موروثی بیماریوں کی وجہ سے کھوچکاہے۔عبدل کے بچوں کی بے وجہ موت کو لندن میں بہت سنجیدہ طریقے سے لیا گیا۔ بحث شروع ہوئی کہ بچوں کوان مہلک بیماریوں سے کیسے دور رکھا جا سکتا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق فرسٹ کزن کی باہمی شادیوں کے نقصانات پرآگاہی کو بڑھانا چاہیے۔ لڑکے اورلڑکی کے شادی سے پہلے طبی معائنہ ہوناچاہیے۔عدالت کایہی فیصلہ ہے جسکی بنیادپرشہزادی فلیتھرنے پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کیاہے۔

یہ بحث انگلستان میں توممکن ہے۔مگرمیراسوال یہ ہے کہ کیایہی بحث یاسوال پاکستانی معاشرہ میں دلیل کی بنیادپراُٹھایاجاسکتاہے۔شروع شروع میں میراخیال تھاکہ نہیں۔ اس موضوع پرکم سے کم بات ہونی چاہیے۔مگرپھر سوچنے کے بعدفیصلہ کیاکہ یہ موضوع انتہائی اہم ہے کہ اس پرزیادہ سے زیادہ بات ہونی چاہیے۔عرض کرنے کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ فرسٹ کزن کے مابین شادیوں کوختم کیا جائے یاان پرکسی قسم کی قدغن لگائی جائے۔مقصدصرف یہ ہے کہ ہمارے پورے ملک میں آگاہی ہوکہ اس طرح کی شادیوں کے نتائج کیاہوسکتے ہیں۔طالبعلم کی دانست میں مذہبی رہنماؤں کو سامنے آناچاہیے۔ہمارے مذہب میں تدبر، فکراورعلم کولے کرپوری قوم کے شعورکی سطح کو بلند کرنا چاہیے۔

شادیاں ضرورہوں مگراس سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ ہوناچاہیے۔شادی سے قبل اسکوکروانالازم قرار ہونا چاہیے۔غریب لوگوں کے لیے اس ٹیسٹ کومفت ہونا چاہیے۔ ریاست کوچاہیے کہ وہ اس میں طاقتورترین فریق کی حیثیت سے سامنے آئے۔ایک مربوط پروگرام کے تحت ڈی این اے ٹیسٹ کوشادی کی اولین شرائط میں شامل ہوناچاہیے۔ خون کے نمونے بھی لیبارٹری میں ٹیسٹ ہونے چاہیے۔اگر طبی نتائج درست ہوں توفرسٹ کزن شادیوں میں کوئی حرج نہیں۔اگرخدانخوستہ،یہ نتائج ایسے آئیں جن میں موروثی بیماریاں شامل ہوں توشادی کرنے والے جوڑے اوران کے والدین کواسکاادراک ہوناچاہیے۔اس سے یہ فائدہ ہوگاکہ آنے والی نسل میں معذوری کم سے کم ہوتی جائے گی۔

عجیب بات ہے کہ پاکستانی نژاد بچوں کے مسائل پرلندن کی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی ہے۔وہاں پاکستانی بچوں کے مرنے پرعدالتی تحقیقات جاری ہیں۔مگرہمارے اپنے ملک میں سنجیدگی سے اس پرکوئی بھی بات کرنے کوتیارنہیں۔ہماراعظیم مذہب جس کی بنیادہی علم ہے اس کے پیروکارہونے کے باوجودہم اس پربات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ہماری خاموشی آنے والی نسلوں کوایسے مصائب میں مبتلاکررہی ہے جن میں ان معصوم پھولوں کاکوئی قصورنہیں۔یہ معصوم بچے اوربچیاں پیدا ہوتے ہی ان بلاؤں کاشکارہوجاتے ہیں۔جن کا تصور بھی انھوں نے نہیں کیاہوتا۔معمولی سی احتیاط سے اپنی آنے والی نسل کوبہتراورمحفوظ کرسکتے ہیں۔مگراس منتشر معاشرے میں جہاں صرف سیاسست ہی سیاست ہے۔ ان مظلوم بچوں کی حفاظت کون کریگا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں