یادیں باتیں فلم نگر کی
چند ہفتے اس طرح کراچی میں رہا کہ دنوں کا کچھ پتا ہی نہیں چلا کہ کب گزرتے چلے گئے
KARACHI:
بیرون ملک سے جو لوگ کچھ دنوں کے لیے جب بھی اپنی مادروطن کی آغوش میں آتے ہیں تو وہ ان پرندوں کی صورت آتے ہیں جوکچھ دیر کے لیے ڈال ڈال پات پات بیٹھتے ہیں اور پھر وقت کی منڈیر پر بیٹھ کر پھر سے اڑجاتے ہیں۔ میں بھی پچھلے دنوں جب نیوجرسی سے کراچی گیا تھا تو ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوا تھا۔ چند ہفتے اس طرح کراچی میں رہا کہ دنوں کا کچھ پتا ہی نہیں چلا کہ کب گزرتے چلے گئے اور اب میں پھر نیوجرسی کی فضاؤں میں واپس آگیا ہوں اور وہ جو ایک آخری تقریب جو میری نئی کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر'' سے وابستہ تھی ۔
اس کی خوبصورت یادیں کہکشاں کی طرح میری آنکھوں میں جگمگا رہی ہیں اور مجھے اپنے دیرینہ دوست مشہور ریڈیو براڈ کاسٹر، ٹی وی نیوز ریڈر اور رائٹر علی حسن ساجد کے اپنے بارے میں دلچسپ ریمارکس جو انھوں نے ایک تقریب میں کہے یاد آرہے ہیں کہ یونس ہمدم جب بھی دیار غیر سے اپنے ملک میں آتے ہیں تو دوکام ضرور کرتے ہیں۔ ایک تو ہر بار اپنے کسی بیٹے اور بیٹی کی شادی کا فرض ادا کرتے ہیں اور پھر دوسرا کام اپنی کسی نئی کتاب کی تقریب اجرا کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ کام موصوف چند سالوں سے باقاعدگی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اور میرے دوست علی حسن ساجد کو اس بات میں ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں ہے۔
میں گزشتہ چند سالوں سے اسی ایجنڈے پرکام کرتا رہوں۔ اس بار جب میں کراچی گیا تو اپنے چھوٹے بیٹے فہد علی کی شادی کے آخری فرض سے بھی سبکدوش ہوگیا خیر کے ساتھ اور پھر ولیمے کی دعوت کے بعد اپنی چھٹی کتاب ''یادیں باتیں فلم نگرکی'' کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔ میری یہ نئی کتاب ان کالموں پر مشتمل ہے جو میں گزشتہ دو سالوں سے نیویارک کے ہفت روزہ اخبار ایشیا ٹریبون اور پاکستان کے روزنامہ ایکسپریس میں پابندی کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ میرے یہ کالم پاکستان فلم انڈسٹری سے متعلق نامور شخصیات کی یادوں اور باتوں کے علاوہ فلمی دنیا کی ایک تاریخ بھی ہیں، جو گزشتہ تیس پینتیس سالوں پر محیط ہے اور فلمی دنیا کے سنہری دور کی عکاسی کرتی ہے۔
اب کتاب کے عنوان کا تقاضا تھا کہ اس کتاب کی تقریب میں چند نامور فلمی شخصیتوں کو بطور مہمان خصوصی مدعوکیا جائے اسی دوران ندیم صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لاہور میں ہیں اور اداکارہ وہدایت کارہ سنگیتا اپنی نئی فلم ''تم ہی تو ہو'' کی پوسٹ پروڈکشن کی غرض سے انڈیا میں ہیں۔ اب مصطفیٰ قریشی سے رابطہ کرنا رہ گیا تھا جب میں نے انھیں فون کرکے بتایا کہ تین دن بعد اپنی کتاب ''یادیں باتیں فلم نگرکی'' کے لیے آپ کو مدعوکرنا چاہتا ہوں۔ آپ میری اس کتاب کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرکے، میرے حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ اس تقریب کی رونق بھی بڑھائیں گے۔ مصطفیٰ قریشی نے کہا پروگرام تو میرا بھی 25 اگست کی شام کو لاہور جانے کا تھا مگر اب میں اپنا پروگرام ایک دو دن کے لیے کینسل کردیتا ہوں اور تمہاری کتاب کی تقریب میں شرکت کر کے مجھے بھی بڑی خوشی ہوگی۔
مصطفیٰ قریشی صاحب کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ فلمی دنیا کا ایک لیجنڈ اداکار میری تقریب کے حسن کو دوبالا کر رہا تھا اور یہ میرے لیے بھی ایک اعزاز تھا۔ اداکار مصطفیٰ قریشی پاکستان فلم انڈسٹری کے چند مضبوط ستونوں میں سے ایک رہے ہیں اوران کا دور بڑا سنہری دور کہلاتا ہے یہ وہ دور تھا جب سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی فلمی جوڑی نے زیبا، وحید مراد، شبنم اور ندیم کی جوڑیوں سے زیادہ شہرت حاصل کی تھی اور اس فلمی جوڑی نے فلمی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی تھی ۔
یہ وہ وقت تھا جب فلم انڈسٹری میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ جس فلم میں یہ دونوں آرٹسٹ کاسٹ کیے جاتے تھے وہ فلم اناؤنس ہوتے ہی فلم ڈسٹری بیوٹرز خرید لیا کرتے تھے اور ان دونوں آرٹسٹوں نے فلمی دنیا میں اپنے کرداروں اور مکالموں کی ادائیگی سے ایک نیا فلمی کلچر جنم دیا تھا۔ فلم بینوں کی ہزاروں کی تعداد ایسی تھی جو ان کی فلموں کے مکالموں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیتی تھی ان دونوں اداکاروں کی فلموں کی مجموعی تعداد دیگر تمام ہیروزکی فلموں سے زیادہ تھی اور مجھے ایک اعزاز یہ بھی حاصل رہا ہے کہ میری لکھی ہوئی ایک فلم ''لال آندھی'' کے مرکزی کردار بھی مصطفیٰ قریشی تھے اس فلم کی شوٹنگ کا دلچسپ حال بھی آیندہ کسی کالم کی زینت بناؤں گا ''لال آندھی'' راجستھان کے پس منظر میں پہلی پاکستانی فلم تھی۔
اب میں پھر اپنی کتاب کی تقریب کی طرف آتا ہوں جو کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس میں کے ایم سی آفیسرز کلب ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقد کی گئی تھی، جہاں اس تقریب میں لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی نے شرکت کرکے چار چاند لگائے تھے وہاں تقریب کی صدارت بھی سابق صوبائی وزیر بلدیات و اطلاعات دوست محمد فیضی نے کی تھی اور مہمان اعزازی کے طور پر سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی راحیلہ ٹوانہ نے بھی شرکت کا اعزاز بخشا تھا۔ ان کے علاوہ سینئر فلمی صحافیوں اطہر جاوید صوفی، پرویز مظہر، وسیع قریشی، مدیر نگار اسلم الیاس رشیدی اور ویلفیئر ایسوسی ایشن کی طرف سے جمیل فاروقی اور شاعرہ غزل جعفری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
مصطفیٰ قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی بھی ملک و قوم کی ثقافت اس ملک و قوم کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ جہاں کلچر کو نقصان پہنچتا ہے وہاں ملک و قوم کو بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ماضی میں فلم انڈسٹری کامیابی سے چل رہی تھی مگر بدقسمتی سے حالیہ حکومتوں کے دوران ملکی فلم انڈسٹری کو بے تحاشا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مال بنانے کی اجازت تو دے دی گئی مگر بڑے بڑے سینماؤں کو بربادکردیا گیا اور فلم انڈسٹری کو تباہی کے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے اور اب حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے فلم انڈسٹری ہمارے ملک میں زوال پذیر ہے انھوں نے مزید کہا کہ یونس ہمدم فلمی دنیا کے نامور شاعروں میں شامل رہے ہیں۔
ان کے نغمات ملک کے تمام نامور گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے گائے ہیں اور ان کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی اور انھوں نے گیتوں کے ذریعے ادب کو بھی پروان چڑھایا یہ ہماری فلم انڈسٹری کا ایک روشن نام رہے ہیں۔ اب ان کی کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر کی'' منظر عام پر آئی ہے جو بڑی خوش آیند بات ہے، صاحب صدر دوست محمد فیضی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر کی'' اس خوبصورت انداز میں تحریرکی گئی ہے کہ ایک بار قاری جب اسے اپنے ہاتھوں میں لے گا تو وہ اس کتاب کو ختم کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔
یونس ہمدم کی شاعری جتنی شاندار ہے اتنی ہی ان کی نثر بھی جان دار ہے، راحیلہ ٹوانہ نے کہا کہ وہ لوگ قابل قدر ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں گا مگر وہ وہ پاکستان کے نام اوراردو زبان سے اپنے رشتے کو کمزور نہیں ہونے دیتے اور اپنی زبان کے فروغ میں ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں۔ آخر میں کے ایم سی ویلفیئر ایسوسی ایشن کی طرف سے جمیل فاروقی نے کہا کہ ہماری ایسوسی ایشن کے لیے یہ بڑی خوشی اور فخر کی بات ہے کہ ہم فلمی دنیا کے مشہور نغمہ نگار اور صاحب کتاب کے ساتھ یہ شام منا رہے ہیں اور ان کی کتاب کے اجرا پر انھیں تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ تقریب کے آخر میں صاحب کتاب کی طرف سے بھی ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کیا گیا کہ یہ تقریب ایک یادگار تقریب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔