عید قربان اور آلودگی

اپنے گھر کے سامنے گلی میں بکھرے کُوڑے کو اکثر مَیں خود ہی اٹھاتا ہوں۔


Tanveer Qaisar Shahid September 11, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: اپنے گھر کے سامنے گلی میں بکھرے کُوڑے کو اکثر مَیں خود ہی اٹھاتا ہوں۔ صبح صبح اٹھ کر ہاتھوں میں دستانے پہن کر گلی میں ادھر اُدھر پڑے کاغذات اور آوارہ اڑتے استعمال شدہ ریپرز چُن چُن کر پولی تھین کے لفافے میں ڈالتا جاتا ہوں۔ اہل محلہ میری اس حرکت پر ہر روز طنزیہ مسکراتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اگر مجھے امریکا اور مغربی ممالک میں رہنے کے مواقع نہ ملتے تو صفائی کے لیے ''بے حیا'' بننے کی یہ تمیز بھی مجھے کبھی نہ آتی۔ میرے اسلامی ملک، میرے والدین اور اساتذہ کرام نے مجھے یہ درس دیا نہ ایسا ماحول پیدا کیا کہ اپنے گھر کے سامنے گلی کو کیسے صاف ستھرا رکھنا ہے۔

یورپی ممالک اور شمالی امریکا میں یہ اصول اور قانون ہے کہ ہر شخص اپنے گھر اور اپنی دکان کے سامنے والے حصے کو کوڑے سے محفوظ رکھنے کا ذمے دار ہے۔ غفلت برتنے پر سینیٹری انسپکٹر بھاری جرمانے کرتے ہیں اور عدالت کے روبرو ندامت علیحدہ اٹھانا پڑتی ہے۔ اب عید قربان کی آمد آمد ہے۔ یہ دیکھ کر دل کُڑھتا اور جلتا ہے کہ قربانی کے جانوروں نے ہر گلی محلے میں غلاظت اور بدبُو پھیلا دی ہے۔

سنتِ ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے ہمیں قربانی دینے کا شوقِ فراواں تو حاصل ہے لیکن قربانی کے جانوروں کی پھیلائی گئی نجاستوں اور آلودگیوں سے گلی محلے کو کیسے محفوظ رکھنا ہے، اس کا شوق ہے نہ شعور۔ یہ بنیادی ذمے داری اٹھانے کا تکلف بھی نہیں کیا جا رہا۔ نجاستیں تو پھیل ہی رہی ہیں، کارپوریشن اور باذوق لوگوں کی محنت سے جو پودے اور چھوٹے چھوٹے درخت گزشتہ ایک برس میں ہرے بھرے ہوئے تھے، قربانی کے جانوروں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

ابھی اوجھڑیوں اور انتڑیوں کا جو طوفانِ بدتمیزی پھیلے گا، اسے تو کسی طور ٹھکانے لگا ہی دیا جائے گا لیکن گلی محلوں کی صفائی کرنے اور انھیں بدبو سے نجات دلانے کا کوئی اطمینان بخش بندوبست ہے نہ کسی کو فکر۔ کیا یہ بے حسی کی حد نہیں کہ ہر سال عیدالاضحی آتی ہے، ہر سال ہی اَنت کا یہ تعفن اور گند پھیلتا ہے لیکن سرکاری یا نجی سطح پر ان سے نجات حاصل کرنے یا ان سے محفوظ رہنے کا کبھی سوچا گیا ہے نہ کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس غلاظت پسندی نے اب ہماری نسل کشی شروع کر دی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں۔

اللہ کے آخری نبیؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ سرکارِ دوعالمؐ سے یہ الفاظ بھی منسوب ہیں: ''(مفہوم) اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنے گھر اور گھر کے سامنے گلی کو بھی صاف رکھے۔'' ہم اپنے گلی محلوں، بازاروں اور شہروں کا اس بے مثال حکم کی روشنی میں اگر جائزہ لیں تو سرشرم سے جھُک جاتے ہیں۔ اگر ہم نبی کریمؐ کے حکم پر بھی عمل نہیں کرتے تو ہمیں سیدھا کرنے اور صفائی ستھرائی کے سلیقے طریقے سکھانے کے لیے آسمان سے فرشتے تو اترنے سے رہے۔ شاید ڈنڈا ہمارا شافی علاج ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم اتنے بے شرم ہو گئے ہیں کہ اپنی گندگی پسندی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ہم نے اپنے پینے کے پانیوں اور دودھ کو بھی آلودہ اور آلائش زدہ کر دیا ہے۔ اس بارے میں سینیٹ میں جو انکشاف ہوا ہے، اس نے تو ہر پڑھنے اور سننے والے کو پریشان اور حیران کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمان جو وفاقی وزیر اطلاعات بھی رہ چکی ہیں اور امریکا میں پاکستان کی سفیر بھی، نے سینیٹ میں سوال اٹھایا تھا کہ عام پاکستانی جو پانی پی رہا ہے اس بارے میں حقائق بتائے جائیں اور جو حقائق سامنے آئے ہیں اس نے سنجیدہ فکر طبقے کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔ 7ستمبر 2016ء کو محترمہ شیری کے اٹھائے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب رانا تنویر حسین نے فرمایا: ''پاکستان میں 80 فیصد سے زائد عوام غیر محفوظ، آلودہ اور زہریلا پانی پی رہے ہیں۔'' کیا پاکستانی عوام کو صاف اور محفوظ پانی فراہم کرنے کے ذمے دار حکمرانوں کے کانوں تک بھی یہ انکشاف ٹکرایا ہے؟

وزیر صاحب نے بتایا کہ پاکستان کی کونسل برائے آبی تحقیقات (PCRWR) نے وطنِ عزیز کے 24 مختلف اضلاع کے 2807 دیہات اور شہروں سے قابلِ نوش پانی کے نمونے اکٹھے کیے۔ ان کا کیمیاوی تجزیہ کیا گیا تو یہ خوفناک نتائج برآمد ہوئے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یعنی پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کا 80 فیصد حصہ زہریلا (Contaminated) اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ یہ خطرناک پانی جو مہلک امراض پیدا کر رہا ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی افلاطونی عقل کی ضرورت نہیں ہے۔ مختلف اقسام کے کینسر، ہیپاٹائٹس اور انتڑیوں کی لاعلاج بیماریاں ان میں سرِفہرست ہیں۔

ہماری غلاظت پسندیوں کے چرچے تو آسمان تک بلند ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے، یونیسف، نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد اموات آلودہ اور غیر محفوظ پینے کے پانی کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق، اس آلودہ پانی نے یوں قیامتیں ڈھائی ہیں کہ پاکستان میں گردوں کے فیل ہونے، ہائپر ٹینشن، ہارٹ اٹیک، جِلدی امراض اور پاؤں کے سیاہ ہونے کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جناب وزیراعظم نواز شریف ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ گزارنے کے بعد اب کمال مہربانی سے نئے اسپتال بنانے کے اعلان کر رہے ہیں۔ ان اعلانات پر عمل کب شروع ہو گا، یہ لمحات تو نجانے کب آئیں گے لیکن ان اعلانات کی تعریف و تحسین کرنا ہم وفادار رعایا پر فرض ہے۔ کیا یہ مناسب نہ تھاکہ ان اعلانات کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں صاف شفاف، محفوظ اور غیر آلودہ پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا ہنگامی بنیادوں پر آغاز کر دیا جاتا؟ لیکن ایسے منصوبے شاید ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہیں۔

مجھے کئی برس قبل برطانیہ میں چوہدری محمد سرور جب کہ ابھی وہ نہ پنجاب کے گورنر بنے تھے اور نہ ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، نے حیرانی سے کہا تھا: ''اطلاعات کے مطابق، پاکستان میں جس تیزی سے ہیپاٹائٹس کا مہلک مرض پھیل رہا ہے، اگر یہ معاملہ خدانخواستہ برطانیہ میں پیش آتا تو برطانوی حکام سب کام چھوڑ چھاڑ کر سب سے پہلے اس مرض کے تدارک میں لگ جاتے۔'' ہائے، مگر یہ برطانیہ نہیں، پاکستان ہے۔ پاک لوگوں کی دھرتی لیکن اس دھرتی کے عوام کی اکثریت گندا پانی پینے اور ناپاک (آلودہ) ماحول میں رہنے پر مجبور ہے۔

اس ملک کو غیر مصفا بنانے میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی لاپرواہی اور غفلت کا بھرپور ارتکاب کیا ہے۔ اس کا ''پھل'' بھی مل رہا ہے۔ ہمیں پاکیزگی، صفائی، نزہت سے کوئی دلچسپی ہے نہ رغبت۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کو تو غیر اقوام کے سامنے خصوصی طور پر صفائی قائم کرنے کے معاملے میں، نمونہ بننا چاہیے تھا لیکن ہم تو اپنی عاداتِ بد کے اعتبار سے دنیا کے لیے عبرت کا نمونہ بن گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں