سرزمین ناپرسان
قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے متعلق طویل عرصے سے کام ہو رہا تھا
لاہور:
قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے متعلق طویل عرصے سے کام ہو رہا تھا خاص طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں جو کمیٹی قائم کی گئی تھی اس نے شبانہ روز محنت کی اور تفصیلی اصلاحات تجویز کیں۔پیپلز پارٹی حکومت کے بعد نواز شریف حکومت نے بھی فاٹا اصلاحات پر کام جاری رکھا جس کے نتیجے میںوزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیزکی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس میں اقبال ظفر جھگڑا،ارباب محمدشہزاد،وفاقی وزراء زاہد حامد اور عبدالقادر بلوچ شامل تھے، اس کمیٹی نے تمام سات قبائلی ایجنسیوں خیبر، مہمند، باجوڑ، اورکزئی، کرم، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کا دورہ کیا اورتمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جس کے بعد ایک حتمی رپورٹ تشکیل دی گئی ،قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے سے پہلے اس رپورٹ سے متعلق متضاد خبریں آتی رہی تھیں لیکن بالآخر اصلاحاتی کمیٹی نے "سرزمین ناپرسان "کے بارے میں اپنی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے۔
رپورٹ کے آغاز میں قبائلی علاقوں کو باغی علاقہ قرار دیتے ہوئے ایگزیکٹو سمری کی ابتداء کی گئی ہے۔بتایا گیا ہے کہ نومبر 2001 میں امریکا کی جانب سے حملہ کے بعد پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات ایک باغی علاقے کے طور پر ابھرے اور قومی و بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے۔باغی عناصر نے فاٹا کو جنگجوؤں کو تربیت دینے اور بھرتی کرنے کے لیے استعمال اور ریاستی عمل داری کو چیلنج کیا۔اس عمل میں پاکستان میں تقریبا 60 ہزار افراد کی زندگیاں ضایع ہوئیں ۔
جس میں سویلین اور سیکیورٹی فورسز کے افسر و جوان شہید ہوئے، مالی طور پر جنگجوؤں کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اب تک116بلین ڈالرز سے زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے(یہ رقم پاکستانی روپوں میں 12 ہزار412 ارب روپے بنتی ہے)اگر اور بھی آسان الفاظ میں آپ جاننا چاہئیں تویہ رقم خیبر پختون خوا کے31 سالوں کے بجٹ کے برابر بنتی ہے۔رپورٹ کے دوسرے پیراگراف میں لکھا گیا ہے کہ فاٹا نے پاکستان کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے،حکومت نے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا ہے جس کے تحت فاٹا کو جنگ سے آزاد علاقہ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے،اور یہاں قبائلی عوام سیکیورٹی اورسماجی خدمات کی دستیابی کے ساتھ بہتر زندگی گذارنے کے قابل ہوں گے جو دوسرے پاکستانیوں کو میسر ہیں۔
27 ہزار200 مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل فاٹا کی آبادی اس رپورٹ میں 48 لاکھ بتائی گئی ہے جس پر یقین نہیں آ رہا ۔بعض قبائل کا خیال ہے کہ آبادی ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے تاہم اس کا پتہ مردم شماری کے بعد چل سکتا ہے۔مگر اس ابتدائیہ نے ساری کہانی کھول کر سامنے رکھ دی ہے، میں پھر ماضی میں کھو سا گیا ہوں۔سوالات پھر سے سر اٹھانے لگے ہیں ۔
جو نیشنل ایکشن پلان کے بعد جواب کی تمنا نہیں رکھتے البتہ جب سالانہ اکیس ارب روپے آپ قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے رکھیں گے تو اس رقم میں باغی ہی ملیں گے! اسکول، کالج، سڑکیں، پانی، بجلی، صحت، کھیل یہ سب نہیں ہو گا ، کالے قوانین ہوں گے، پولیٹیکل ایجنٹ بادشاہ ہو گا، کرپشن عروج پر ہو گی،خاصہ دار سے گورنر تک رقم کی منتقلی کے الزامات ہوں گے تو کیا بغاوت نہیں ہو گی؟میرا خیال ہے ماضی کو جھنجھوڑنے کے بجائے اصلاحاتی کمیٹی کی رپورٹ کی جو تجاویز ہیں۔
ان پر نظر دوڑا لی جائے تو مناسب رہے گا ۔76 صفحات پر مبنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے متعدد مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا خاص طور پر ون یونٹ توڑے جانے کے بعد فاٹا کو اس وقت کے صوبہ سرحد کا حصہ بنایا جا سکتا تھا جب کہ 1976 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بھی یہ خواہش تھی کہ فاٹا کو 1977 کے انتخابات سے قبل صوبے میں شامل کر لیا جائے جو ممکن نہ ہو سکا بہرطور نواز شریف حکومت نے قدم بڑھایا ہے اور فاٹا کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنانے کے عملی اقدامات کا آغاز ہو گیا ہے۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میںتجویز کیا کہ قبائلی علاقوں کو پانچ سالہ عبوری مدت کے دوران بتدریج خیبر پختون خواکا حصہ بنایا جائے تاکہ قبائلی عوام کا احساس محرومی ہر حالت میں ختم کیا جا سکے۔اصلاحاتی کمیٹی نے طویل مشاورت کے بعد جو تجاویز دیں ان کے مطابق چار مختلف آپشنز پر غور کیا گیاکہ قبائلی علاقوں کی موجودہ حیثیت برقرار رکھی جائے لیکن عدالتی اور انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جائیں،فاٹا کونسل تشکیل دی جائے، فاٹا کو علیحٰدہ صوبہ بنایا جائے یا فاٹا کا خیبر پختون خوا کے ساتھ الحاق کر دیا جائے، رپورٹ کے مطابق اس بات پر وسیع اتفاق پایا گیا کہ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے۔اگر موجودہ دور حکومت کی بات کی جائے تو شاید یہ پہلا نکتہ ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں متفق ہیں کہ فاٹا کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنا دیا جائے۔
کمیٹی کی سفارشات کے مطابق بتدریج فاٹا خیبر پختون خوا کا حصہ بنے گا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے قبائل کی بحالی کا کام کیا جائے گا جس کی تکمیل کے بعد 2017 میںمقامی حکومتوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ایف سی آر جسے کالا قانون کہا جاتا ہے ختم کر دیا جائے گا اور عبوری مرحلے کے دوران قبائلی علاقہ جات میںرواج ایکٹ قائم کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے دائرہ کار کو قبائلی علاقوں تک توسیع دی جائے گی۔اس طرح قبائلی علاقے بتدریج تبدیلی سے گذرتے ہوئے خیبر پختون خوا میں ضم ہو جائیں گے اور خیبر پختون خوا میں معاشی و اقتصادی ترقی کا ایک نیا دور شروع گا جب قبائیلیوں کو ان کا حق ملے گا اور ترقی کے دروازے کھلیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان بھی مضبوط ہو گا ، دہشت گردی ختم ہو گی اور عوام خوشحال ہوں گے۔یہ امر بھی لائق ستائش ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں موجود قبائلی راہ نماؤں نے بھی اس سلسلے میں مفید تجاویز دی ہیں۔
جن میں عارضی نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی،صوبے میں ضم کرنا،چادر اور چار دیواری کے تقدس کو قائم رکھنا،این ایف سی میں نمایندگی دینا،آزاد کشمیر رجمنٹ کی طرح فاٹا رجمنٹ کا قیام، کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے راہداری اور پرمٹ سسٹم ختم کیا جائے ،جن اراکین قومی اسمبلی نے ان تجاویز سے اتفاق کیا ہے ان میں الحاج شاہ جی گل،ساجد حسین طوری، حاجی بسم اللہ جان،شہاب الدین ، محمد نذیر خان،قیصر جمال، غازی گلاب جمال،بلال رحمان، ناصر آفریدی،غالب خان اور محمد جمال الدین جب کہ سینیٹرز میں تاج آفریدی، سجادحسین طوری،مومن خان آفریدی، ہدایت الرحمان،محمد صالح شاہ، بلال رحمان،اورنگزیب خان اور نجم الحسن شامل ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگانا مقصود تھا کہ اراکین اسمبلی ، سینیٹرز، طلباء، سیاسی و سماجی شخصیات الغرض زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے اس حق میں ہیں کہ فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے ۔