امداد باہمی کا آزاد معاشرہ

امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا کمیونسٹ سماج ابھی تک کہیں بھی قائم نہیں ہوا۔


Zuber Rehman September 11, 2016
[email protected]

امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا کمیونسٹ سماج ابھی تک کہیں بھی قائم نہیں ہوا۔ عدم معلومات کی وجہ سے جن ملکوں کو بعض لوگ کمیونسٹ ممالک سمجھتے تھے وہ کمونسٹ نہیں بلکہ سوشلسٹ ممالک تھے۔ سوویت یونین کیونکر ٹوٹا اس پر یونانی کمیونسٹ پارٹی نے تفصیلی جائزہ لیا اور دنیا بھر کی کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیوں سے ترمیم و تنسیخ کروائی اور اسے یونانی اور انگریزی زبانوں میں شایع کیا گیا۔ بعد ازاں یہ کتاب دیگر مختلف زبانوں میں شایع ہوچکی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل قاضی امداد چند برس قبل یونان گئے تھے اور وہاں سے کچھ کاپیاں لے آئے تھے، اسے اثر امام نے اردو میں ترجمہ کیا ہے، اور ادارہ سرخ پرچم پبلیکیشن نے شایع کیا ہے۔

یونانی کمیونسٹ پارٹی نے اس کتاب 'سوویت یونین کیوں ٹوٹا' میں بڑی اہم اور معلومات سے لبریز موضوع پر بحث کی ہے اور وہ ہے کمیونزم۔ دنیا کی بہت کم کمیونسٹ پارٹیاں، کمیونسٹ معاشرے کی شکل کی تشریح کی ہے، بلکہ وہ سوشلزم تک اپنے آپ کو محدود کرکے کمیونزم پر سطحی اور سرسری روشنی ڈالی ہے۔ مگر یونانی کمیونسٹ پارٹی نے اس کتاب میں کمیونسٹ سماج کی تفصیلات کے بارے میں تین باب میں تشریح کی ہے۔

پارٹی کا یہ کہنا ہے کہ سوشلزم راہ گزر ہے، جب کہ ہماری منزل مقصود کمیونسٹ سماج کا قیام ہے۔ پارٹی اپنی تحریر میں یہ کہتی ہے کہ سوشلزم میں طبقات رہ جاتے ہیں اور وہ ہیں 'ہنرمند اور عام مزدوروں میں تفریق، شہر اور دیہات کا فرق، لکھے پڑھے اور ان پڑھ کا فرق، مزدوروں اور کسانوں میں ایک حد تک نابرابری، تنخواہوں میں مساوات نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ کمیونسٹ معاشرے میں ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق کام اور ضرورت کے مطابق اسے ضروریات زندگی مہیا کی جائے گی۔

درحقیقت کمیونسٹ معاشرہ ایک اسٹیٹ لیس سماج ہوتا ہے، جہاں کرنسی نوٹ، تنخواہیں، اسمبلی، فوج، سرحدی محافظ، پولیس، روایتی میڈیا، خاندان کی حد بندی اور عدلیہ وغیرہ یعنی ریاست کے ذیلی ادارے ختم ہوجائیں گے۔ ریاست کا متبادل تشکیل ہوگا اور پیداواری اداروں اور ضرویات زندگی کے تمام کام خودکار اور خودانحصار انجمنیں انجام دیں گی جو کہ مقامی اور عبوری عرصے کی ہوں گی۔

مختلف شعبہ جاتوں کی کمیٹیوں سے روابط اور تبادلے بھی ہوں گے مگر جبر عنقا کے ذریعے۔ اجناس کے تبادلے، تجارت، تعلیم اور صحت کے نظام کو کس طرح اور کیسے چلایا جائے گا اس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ یقیناً یہ نظام اب تک کہیں قائم نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک تصور اور خواب ہے۔ لیکن خواب دیکھے بغیر حقیقت کا عملی جامہ پہنانا ناممکن ہے۔ اگر انسان پرندے کو اڑتے نہ دیکھتا تو شاید ہوائی جہاز بھی نہ بنتا، مکڑی کا جال بنانے کے تجربے سے نہ گزرتا تو شاید کپڑا نہیں بنا پاتا۔

زمانۂ قدیم میں کمیونسٹ نظام جدید نہ سہی غیر طبقاتی اور غیر ریاستی معاشرے میں وجود رکھتا تھا۔ سرمایہ دارانہ چمک دمک اور سائنسی ترقی نہ ہونے کے باوجود لوگ نہ بھوکے مرتے، نہ بیماری سے اتنے مرتے اور نہ قتل و غارت گری میں۔ ایسی سائنسی ترقی سے ہمیں کیا فائدہ، جہاں ہر سال لاکھوں انسان بھوک، افلاس، غربت، آفات اور بیماری میں مر رہے ہوتے ہیں۔ صرف قوم اور وطن کے نام پر کروڑوں فوج کو مارنے اور مروانے کے لیے تیار رکھا جاتا ہے۔ کھربوں ڈالر جنگ پر خرچ ہوتے ہیں اور دوسری جانب غذا، عدم علاج، پینے کا گندا پانی اور ملاوٹ کی غذا کھا کر مر رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھیں قتل کیا جارہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمیونسٹ معاشرے کے قیام کے لیے سوشلزم کی گزرگاہ کتنی طویل کی جائے؟ یونانی کمیونسٹ پارٹی کی سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی پر درست تنقیدی جائزہ لیا ہے کہ انھوں نے سوشلسٹ معاشرے میں بڑھتے ہوئے طبقاتی خلیج اور انقلاب کے لیے عوام دشمن بورژوازی کی سازشوں سے نہ ہوشیار ہوپائے اور نہ ان کا مقابلہ کرنے کی قبل از وقت منصوبہ بندی کی۔ یہ بھی درست تنقیدی جائزہ لیا ہے کہ 1917-20 تک خانہ جنگی اور 1928 تک سازشیں اور پھر 1950 سے ہی تضادات اور سازشوں کا شکار ہوگئے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہو کہ انقلاب کے بعد اقتدار عوام کو سپرد کرنے کے بجائے کارکنان کے حوالے کردیا گیا۔ وہ کارکنان خدمت گار کے بجائے حاکم بن گئے۔

بہرحال یونان کی کمیونسٹ پارٹی کو اس بات کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت تھی کہ سوشلزم کو کب تک جاری و ساری رکھنا چاہیے۔ کیا صدیوں کے بعد کمیونسٹ سماج جو کہ انسانیت کی معراج ہے اور پیداواری قوتوں کی منزل ہے، تک پہنچے گا۔ تقریباً چھیالیس ملکوں میں سوشلزم نافذ تھا۔ کہیں 70 سال گزرنے کے باوجود کمیونسٹ معاشرے کی تشکیل تو درکنار اس جانب پیش قدمی تک کی بھی کو شش نہیں کی گئی۔

میرا قطعی یہ مقصد نہیں کہ آ نکھ جھپکتے ہی سوشلسٹ سے کمیونسٹ معاشرے کا قیام ہوجائے گا، مگر اس کی ابتدا تو ہوسکتی تھی۔ سوویت یونین میں کسانوں اور کھیت مزدوروں اور کچھ صنعتوں میں کمیون سسٹم قائم ہوا لیکن اس میں توسیع نہیں ہوئی۔ اقتدار کو کارکنان کے بجائے عوام تک تیزی سے منتقل کیا جاتا اور ریاست کی جبر کے بجائے مقامی اور خودمختار کمیون سسٹم رائج کیا جاتا، جیسا کہ انقلاب فرانس اور پیرس کمیون میں کیا گیا تھا، تو آج ان کی شکلیں کچھ اور ہی ہوتیں۔ سوشلسٹ دنیا کی سرحدیں ختم کردی جاتیں اور مقامی کمیون کے ذریعے ملکوں کا تصور ختم کرکے امداد باہمی کا سماج قائم کردیا جاتا تو شاید سوویت یونین نہ ٹوٹتا۔

ان تمام خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود سوشلسٹ بلاک سرمایہ دارانہ دنیا سے لاکھ درجہ بہتر تھا۔ بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، لاعلاجی، بے گھری، منشیات نوشی، عصمت فروشی، بردہ فروشی، گداگری اور خودکشی ان ممالک میں ناپید تھیں۔ انقلاب روس کے بعد امریکا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ 113 ممالک کو نو آبادیاتی غلامی سے چھٹکارا حاصل ہوا۔ بہرحال یونانی کمیونسٹ پارٹی نے دنیا بھر کے کمیونسٹوں، پیداواری قوتوں کا سر فخر سے اونچا کردیا ہے۔

کشمیر میں گزشتہ زلزلے میں کیوبا سے 26 سو ڈاکٹرز خدمت کے لیے کشمیر آئے اور 34 اسپتال بنا کر دے گئے، لاکھوں لوگوں کا علاج کیا اور پا کستان سے ہر سال پانچ سو طلبا کیوبا ڈاکٹری پڑھنے جاتے ہیں۔ کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے مظالم کے خلاف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ نے انڈین اسمبلی میں کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کی اور وہاں سے فوج کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ وہ دن دور نہیں کہ یونانی کمیونسٹ پارٹی کا خواب پورا ہوکر ساری دنیا ایک ہوجائے گی، دنیا میں کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔ اس موقع پر ہم واحد بلوچ، جو کہ نوجوانی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارکن تھے، کو فوری طور پر بازیاب کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں