آلو ٹماٹر اور سوموٹو
آلو اور ٹماٹر پر سوموٹو ایکشن لیے جاتے تھے مگر اب پانامہ لیکس پر سوموٹو ایکشن نہیں لیا جا رہا
جماعت اسلامی کے امیرسینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ آلو اور ٹماٹر پر سوموٹو ایکشن لیے جاتے تھے مگر اب پانامہ لیکس پر سوموٹو ایکشن نہیں لیا جا رہا اور ملک کے کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ امیر جماعت اسلامی کو پتا ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے حکومت سے وضاحتیں طلب کرکے پانامہ کے ایشو پر ایسا راستہ اپنانا چاہا تھا جو غیر متنازعہ ہوتا اور سپریم کورٹ اس کے مطابق کوئی فیصلہ کرسکتی۔
حکومت نے اس سلسلے میں ٹی او آرز طے کرنے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کی جو متعدد اجلاسوں کے باوجود پانامہ لیکس کے معاملے کی سپریم کورٹ سے انکوائری کے لیے ٹی او آرز پر ہی متفق نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے معاملہ آگے نہیں بڑھا، حالانکہ تمام جماعتیں اس سلسلے میں متفق تو ہیں مگر عمران خان نے نوازشریف کو اپنا سیاسی دشمن سمجھ رکھا ہے اور وہ پانامہ کی تحقیقات صرف وزیر اعظم نواز شریف سے شروع کرانا چاہتے ہیں اور حکومت وزیر اعظم کو بچانا اورکرپشن کی تحقیقات ماضی سے شروع کرانا چاہتی ہے اور اپوزیشن جمہوریت بچانے کے چکر میں عمران خان سے متفق نہیں اب صرف عمران خان ہی پانامہ لیے بیٹھے ہیں جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلنا۔اپوزیشن اس سلسلے میں سوموٹو ایکشن لینے کا بار بارمطالبہ کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے طویل عرصہ رہنے والے سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اپنے دور میں سوموٹو ایکشن ہر معاملے پر لینا شروع کیا تھا اوران کے دور میں ریکارڈ سوموٹو ایکشن لیے گئے جنھوں نے زرداری دورکی حکومت میں صدر، وزیراعظم اور پی پی حکومت کو نچا کر رکھا اور سپریم کورٹ نے پی پی حکومت کو من مانیاں نہیں کرنے دیں اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جہاں چاہا سوموٹو ایکشن لیا جس کے نتیجے میں پی پی حکومت آئین کی گرفت میں رہی اور اسے اپنے ہر غلط کام کی سپریم کورٹ کے خوف سے کھلی چھٹی نہیں ملی۔ حکومت کے متعدد فیصلے غیرقانونی قرار پائے، لوگوں کی داد رسی ہوئی۔ سرکاری افسروں کو تحفظ اور انصاف ملا اورسپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن عوام میں مقبول ہوئے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سوموٹوز کے باعث پی پی دور میں عوام کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ پی پی حکومت کی من مانیوں، مرضی کے فیصلوں، غیر قانونی تقرریوں و تبادلوں، سرکاری ملازمتوں کی فروخت، سرکاری محکموں اور ہر حکومتی ادارے میں ضرورت سے زیادہ افراد کی غیر قانونی بھرتیوں، من پسند افسروں کی غیرقانونی ترقیوں، سیاسی مفادات کے لیے سب کچھ کرلینے کی خواہش نے پورے ملک اورخاص طور پر سندھ میں جو بیڈگورننس کا ریکارڈ قائم کیا تھا ۔
اس پراکثر ریمارکس سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے حوالے سے میڈیا میں آتے رہتے تھے کیونکہ آج کل چوہدری اعتزاز احسن جیسے پی پی رہنما، مسلم لیگ (ن) کی کرپشن کے ہر بال پر شور مچانے میں پیش پیش ہیں انھیں پیپلز پارٹی دور کی کرپشن کا شہتیر تک نظر نہیں آتا تھا اور سب خاموش تماشائی بنے ۔ پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما جنھوں نے افتخار چوہدری اورعدلیہ کی بحالی کی تحریک شروع کی تھی نے محض سینیٹ کی نشست مل جانے پر اپنے اصول ترک کرکے ضمیر کو سلا دیا تھا اور انھیں بھی سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن ناگوارگزرنے لگے تھے اور وہ چیف جسٹس افتخار چوہدری سے خفا ہوگئے تھے۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ عدلیہ بحالی کے بعد کبھی کسی کیس میں چیف جسٹس کے سامنے پیش نہیں ہوں گے مگر پی پی حکومت کے تحفظ کے لیے وہ بھی وعدہ خلافی کرکے پی پی حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے سامنے آگئے تھے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے صدر مملکت کی خاطر سپریم کورٹ کا حکم مان کر سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا اور سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل نہ ہونے پر توہین عدالت کے مرتکب قرار پائے اور برطرف ہوئے۔
پی پی کے پہلے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی ہی نہیں بلکہ رینٹل پاورکی کرپشن پر ہٹائے گئے دوسرے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو بھی سپریم کورٹ میں حاضریاں بھگتنا پڑی تھیں اور پی پی کے اصولوں کے دعویدار رہنماؤں کو بھی اپنی حکومت کے خلاف آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے زہر لگتے تھے اور وہ ان پر تنقید بھی کیا کرتے تھے۔ جب کوئی بھی حکومت لاقانونیت اورمن مانیوں کی حد کردے اور لوگوں کی حکومتوں کے خلاف کہیں بھی شنوائی نہ ہو رہی ہو تو پھر آخری آسرا فوج اور اعلیٰ عدالتوں ہی کا رہ جاتا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں (ن) لیگ کی موجودہ اور پی پی کی سابقہ وفاقی اور سندھ حکومتوں کے لیے جیسے سخت ریمارکس دے چکی ہیں اور ریمارکس اعلیٰ عدالتیں کسی اورملک میں دیتیں تو وہاں حکومتیں مستعفی ہوجاتیں مگر ہمارے ملک میں جمہوریت کی دعویدار ان حکومتوں پر ماضی میں کبھی کوئی اثر ہوا ہے اور نہ اب ہو رہا ہے۔
ہر طرف سے مایوس عوام حکومتوں کے خلاف آرمی چیف اور اعلیٰ عدالتوں سے مطالبات کرتے رہتے ہیں اگر نام نہاد جمہوری حکومتیں خود صحیح ہوں اور انھیں عوام کا خیال ہو تو ایسے مطالبات ہی نہ ہوں۔ افتخار محمد چوہدری کی سوموٹو ایکشن لینے کی اپنی پالیسی تھی اور ان کے بعد آنے والے اعلیٰ عدالتی سربراہوں نے سوموٹو ایکشن کو غیر ضروری سمجھا اور اب بہت کم سوموٹو ایکشن لیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے عوامی حلقے اہم معاملات پر سوموٹو ایکشن کے مطالبے مسلسل کر رہے ہیں جن کی ایک واضح مثال کے الیکٹرک ہے ۔
جس کی من مانیوں کا اعتراف کراچی اور سندھ کے حکومتی حلقے ہی نہیں بلکہ کراچی میں وفاقی محتسب کے نمایندے محمد یامین بھی کئی بار کرچکے ہیں جس کے بعد کراچی کے صارفین بجلی بھی کسی بھی عدالت سے سوموٹو کے منتظر ہیں جنھیں عدالتیں بہت کم استعمال کر رہی ہیں اور موجودہ حالات میں سوموٹو ایکشن کی اشد ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کئی بار کہہ چکی ہے کہ حکومتیں اور اس کے ادارے صحیح کام نہیں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ کام بھی ہمیں کرنا پڑ رہے ہیں۔
آلو ٹماٹر پر سوموٹو ایکشن پر طنز کرنے والوں کو پتا تو ہے کہ اس دور میں آلو ٹماٹر مہنگا ہوجانے سے حکمران نہیں عوام ہی متاثر ہوتے ہیں اسی لیے ان پر سوموٹو ایکشن ہوا تھا جو عوامی مسئلہ تھا۔ پانامہ پیپرز عوام کا نہیں سیاسی جماعتوں کا مسئلہ ہے جو اسے حکومت کے خلاف اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور عوام کو اس سے دلچسپی نہیں ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت کسی کو بھی عوامی مسائل سے دلچسپی نہیں ہے اور عوام کی آخری امید فوج اور عدلیہ ہے فوج اپنے کام میں مصروف ہے اور حکمران گونگے اور بہرے ہیں جس کی وجہ سے عوام اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عدلیہ کو سوموٹو ایکشن بڑھانے چاہئیں کیونکہ اسی میں عوام کا فائدہ ہے اور عدلیہ ہی حکومت سے عوام کو اس کے حقوق دلا سکتی ہے جو سلب کرلیے گئے ہیں۔