عید قربان پرگو شت کی تقسیم اورہمارا مزاج
’’اللہ سائیں! تو تَوان لوگوںکے نزدیک ایک ٹکے سے بھی کم تر ہے
سندھ کی لوک داستانوں کے کردار وتایو فقیرکا جی خربوزہ کھانے کا چاہا وہ پھل فروش کے پاس گئے اورکہا''سائیں اللہ کے نام پرایک خربوزہ تو دے دو'' پھل والا گاہکوں میں مصروف تھا، جب فقیر نے زیادہ اصرارکیا تواس نے ان کی جانب توجہ دی اورایک گلا سڑا ہوا خربوزہ دے دیا۔ یہ دیکھ کر وتایو سائیں نے دوسروںکی دیکھا دیکھی، اپنی جھولی سے ایک سکہ نکالااورخربوزے والے سے کہا، ایک ٹکے کا خربوزہ دے دو۔اس بار پھل فروش نے فوراً ہی ایک اچھا تروتازہ خربوزہ وتایو فقیرکودے دیا۔وتایو فقیر نے دونوں خربوزے ہاتھوں میں لے کرآسمان کی جانب دیکھا اورکہا ''اللہ سائیں! تو تَوان لوگوںکے نزدیک ایک ٹکے سے بھی کم تر ہے، دیکھا جائے تو ہم میں سے اکثریت کا دل اسی خربوزے بیچنے والے جیسا ہے، ہم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں ایسا ہی رویہ اپناتے ہیں،خاص کرعید قربان پرگوشت بانٹنے کے حوالے سے ہمارا رواج اورمزاج ایسا ہی ہے۔
ایک طرف بڑاصحت مند جانورخریدنے کی کوشش کرتے ہیں تودوسری جانب فل سائزڈیپ فریزر نہ ہوتواس کی کمی بھی محسوس کرتے ہیں۔ قوت خرید ہے توخریدلاتے ہیں،ورنہ خریدنے کا مصمم ارادہ خلوص نیت سے ضرورباندھتے ہیں،پھرکسی مولانا سے یاکسی صاحب الرائے سے یہ فتوی لینے کی کوشش کرتے ہیںکہ قربانی کا گوشت ہم زیادہ سے زیادہ خود استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
عید قربان اورگوشت تقسیم کرنے کے حوالے سے مجھے اپنی ایک دوست یاد آتی ہے، ایسا نہیں کہ وہ کسی کم حیثیت گھرانے کی فرد ہو یا پھر وہ کسی غریب گھر میں بیاہی گئی تھی مگرحالات کی ستم ظریفی کہیے شادی کے بعد ان کے کاروباری حالات انتہائی خراب ہوگئے۔اس نے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی بہت کوشش کی۔ عید قربان کی کہانی اسی کی زبانی سنیے۔
''ہمارے گھر میں غربت کا بسیرا تھا، ہم اس قابل نہیں تھے کہ قربانی کرسکیں، لہذا ہم عید سے پہلے ہی گوشت اورکلیجی وغیرہ خرید لیتے تھے تاکہ جو رشتے دارگو شت لے کرآئیں،ان کی خاطر ومدارت کا انتظام رہے یہ بھی میرے لیے دلچسپ بات تھی کہ لوگ جتنا گوشت لے کر آتے تھے،اس سے زیادہ گوشت مجھے ان کی خاطرداریوں میں پیش کرنا پڑجاتا تھا۔ بچے بھی مجھ سے شائق اور مہمانوں سے بیزارہوتے مگر انھوں نے کبھی مہمانوں کے سامنے ماتھے پر بل نہیں ڈالے مہمانوں کے لائے ہڈی چھیچھڑ ے والے گوشت کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے۔مہمانداری میں گوشت ختم ہوجانے کی وجہ سے ہمارے گھرعیدکے دوسرے روز سے ہی دال سبزی پکتی تھی، ہمارے بچے نہیں جانتے تھے کہ عید قربان پر باربی کیوکیا ہوتا ہے، آج جب ماہ وسال بیت گئے ہیں اور رب العزت کی مہربانی سے ہم مالی طور پر بہت آسودہ حال ہیں۔
میں غریب رشتے داروں کوگوشت بانٹنا نہیں بھولتی لیکن اس کے ساتھ میں ان کے گھرکھانا کھانے نہیں رکتی کہ جتنا گوشت ہم لے گئے ہیں وہ اتنا ہی ہماری خاطرداریوں میں نہ صرف کردیں۔ ہوسکتا ہے یہ بہت سارے لوگوں کے لیے معمولی یا مضحکہ خیزبات ہو مگر جوگزار رہا ہو،اسے ہی حالات کا پتہ ہوتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ کی اس سنت کو سمجھتے ہیں کہ قربانی صرف گائے بکرے ذبح کرکے ڈیپ فریزر بھرنے کا نام نہیں ۔کیا قربانی کی حقیقت ہمارے نزدیک محض مہنگے جانورخریدکر عزیزواقرباء پراپنی امارت کا رعب جمانا، انھیں متاثرکرنا رہ گیا ہے جب کہ آج سے چودہ سوسال قبل صحابہ کر ام ؓ نے پیارے نبی ؐسے پوچھا ''کہ اے خدا کے رسول ؐیہ قربانیاں کیا ہے'' آپ ﷺ نے فرمایا، '' تمھارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کا طریقہ کہ اللہ کی راہ میںبلاچوں وچرا کسی حیل وحجت کے اپنا مال جان اورقیمتی سے قیمتی شے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا عہد'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید قربان کی حقیقت کیا ہے۔
حضرت اسماعیل ؑ کی عمرمبارک جب سات سال ہوئی تو حضرت ابراہیم ؑ کو مسلسل نو رات خواب میں اپنی سب سے عزیزچیزقربان کرنے کا حکم ہو۔ارشاد نبوی ؐہے انسانوں میں انبیاء کی آزمائش سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے پھرجو انبیاء کے زیادہ قریب ہوتا ہے،اس کی آزمائش بھی اتنی ہی زیادہ سخت ہوگی، جس وقت بیٹے کی قربانی کا حکم آیا ۔اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی اورکوئی اولاد نہ تھی،آپؑ بیٹے کو لے کر قربانی کے لیے نکلے توشیطان نے کئی مرتبہ روکنے کی کوشش کی ،آخر آپ نے اسے کنکریاں مارکربھگایا۔ حضرت اسماعیل ؑ کو منہ کے بل لٹایا اورقربانی کے لیے ہاتھا بڑھایا تو اسی لمحے حضرت جبرائیلؓ آسمان سے خوشخبری لے کر اتر ے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانی قبول کی اورآپ ایک بڑی آزمائش میں سرخرو ہوئے۔
اللہ تبارک تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک تمام صاحب حیثیت مسلمان پر اسے قائم کردیا گیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت اسماعیل ؑ کے فدیے میں دیے گئے مینڈھے کے سینگ حجاج بن یوسف کے زمانے تک محفوظ تھے مگر جب حجاج بن یوسف کے حکم پر حضرت عبداللہ بن زبیر کو حراست میں لیے جانے کے لیے خانہ کعبہ کو مسمارکیا گیا تو اس دوران وہ بے مثل یادگار بھی ضایع ہوگئے۔
10 ذو الحج کے موقعے پر ابراہیمی عمل کی یاد میںجو قربانی دی جاتی ہے وہ دراصل جسمانی قربانی کی صورت میں اس بامقصد قربانی کے عزم کو دہرایا جاتا ہے، قربانی کے وقت جب یہ دعائیہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں کہ'' بے شک میری نماز اورمیری قربانی اورمیرا جینا اورمیرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا'' مگر بدقسمتی سے آج قربانی کی یہ مقدس روایت بھی اسٹیٹس سمبل کے بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ لوگ فخریہ جانوروں کی تعداد اور قیمتیں بتاکر بلکہ جتا کر نام ونمود کے لیے قربانی کی رسم ادا کرتے ہیں۔ اپنے انفرادی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں محض دکھاوے کے لیے ان لوگوں کے گھروں میں گوشت بھیجنے کا کیا فائدہ جن کے گھر قربانی ہوئی ہو۔گوشت کے اصل حق دار تو وہ ہیں جو قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی ایک وقت سیر ہوکراس نعمت خداوندی سے لطف اندوزہوسکیں۔