قربانی کا ایک موقع ہمارے لیے بھی

ہمارے لیے یہی اتنا بڑا انعام ہو گا کہ اس نشے میں جھومتے ہوئے حاضر ہوں گے۔


Abdul Qadir Hassan September 17, 2016
[email protected]

عید قربان یا اضحی کا تیسرا سرکاری دن ابھی آنے والاتھا' دوسرا دن جو جانور قربان ہونے سے بچ گئے ان کے لیے ایک دن ابھی باقی ہے۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ وہ اس دن بھی اپنا خون بچا لیتے ہیں یا اپنے لاکھوں ساتھیوں کی طرح قربان ہو جاتے ہیں۔ اس دن کو قربان ہونے یا نہ ہونے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔

قدرت نے یہ اختیار انسانوں کو دے دیا ہے جو بہت خوش ہیں جو کوئی مہنگے جانور نہیں خرید سکتا اس کو کھلا اختیار ہے کہ وہ بازار میں یا جانوروں کی منڈی میں گھوم پھر کر اپنا نشہ پورا کر لے کہ آج وہ کسی بھی جانور کو کان سے پکڑ کر اس کے گلے پر چھری پھیر سکتا ہے جس میں اڑوس پڑوس کی خلق خدا بھی اس کی مدد گار ہو گی۔ اس جانور کو اچھی طرح قابو کر لے گی اس کا ہر نخرہ نکال دے گی اور اسے اس کے خریدار کے سپرد کر دے گی کہ وہ جب چاہے اس کی گردن پر چھری چلا دے مگر قربانی کے مقررہ دنوں میں اس کے بعد وہ قصاب سمجھا جائے گا جو کسی بھی دن کسی کو حلال کر سکتا ہے اور بازار میں فروخت کر سکتا ہے۔

اب جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو قربانی کے مقررہ دن گزر چکے ہیں یعنی ان الفاظ کی چھپائی تک ان کی شرعی قربانی کا وقت گزر چکا ہو گا لیکن غیر شرعی قربانی تو سال بھر جاری رہتی ہے۔ اس قربانی کی کئی اقسام ہیں مثلاً مجھے بھی ہر روز قربان کیا جاتا ہے۔ میں اپنے دل اور دماغ کی تمام بچی کھچی صلاحیتوں کو نچوڑ کر کاغذ پر منتقل کر دیتا ہوں اور اس سے جو تصویریں بنتی اور نقوش ابھرتے ہیں انھیں کوئی پسند کر لے تو اس کی کرمفرمائی اگر مسترد کر دے تو اس کی مرضی کسی پر کوئی جبر نہیں کوئی زبردستی نہیں۔

قارئین اپنی پسند کی تحریر دیکھ کر اس کی قیمت ادا کرتے ہیں اور اگر قیمت وصول نہیں ہوتی تو یہ ان کی قسمت ان کی پسند کی غلطی بالکل عید قربان کی قربانی کے جانور کی طرح۔ بس فرق یہ ہے کہ قربانی کا جانور اندر سے جیسا بھی نکل آئے وہ قربانی پر قبول کر لیا جاتا ہے اور اس کا مالک ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ نے اس کی قربانی قبول کر لی۔ اب اس تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کن جذبات اور کن حالات میں قربانی کی رسم شروع کی اور قدرت نے کس انداز میں اسے قبول کیا۔ یہ پیغمبروں اور ان کے خدا کا باہمی معاملہ ہے۔ ہم سب تو پیروکار ہیں اگر ہماری پیروی قبول کر لی جائے تو قدرت کی مہربانی اور ہماری نیت کی پذیرائی ہو گی اس کے علاوہ ہمیں اور کیا چاہیے۔

ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللّہ کے نام پر قربانی کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنی پسند کے جانور کو قربان کر دیا اور یہ کچھ کچھ ایسی بابرکت نیت کے ساتھ ہوا کہ یہ سلسلہ مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے چلتا رہے گا اور حضرت ابراہیم ؑ کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ نہ جانے یہ اللہ تعالیٰ کے کیسے مقبول اور پسندیدہ بندے تھے کہ ان کی بندگی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی اور جس کی پیروی ایک کار ثواب ٹھہری۔ میں نے قربانی کے بازار میں کئی بندے ایسے بھی دیکھے جو قربانی کا جانور پکڑے چل رہے تھے مگر میرے ذاتی علم کے مطابق وہ اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی مالی توفیق سے یہ قربانی زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ نہ جانے کہاں سے یہ جانور خریدنے اور اسے قربان کرنے کی سکت پیدا کر سکے اور سرخرو ہو گئے۔

اس کا اجر اللہ ہی جانتا ہے ہم تو یہی کر سکتے ہیں کہ اس قابل نہیں تھے کہ اس پیغمبرانہ رسم کی پیروی کر سکتے اور اپنا نام ان لوگوں میں درج کرا سکتے جو نہ جانے کتنے بڑے اجر کے حقدار ٹھہریں گے جو بھی ہو زندگی کی کامیابی قربانی مانگتی ہے اور ہم آپ تو کیا ہمیں خود پیغمبروں نے قربانی کر کے اپنے لیے اجر کا سامان پیدا کیا۔ اگر ہم لوگوں نے اپنی توفیق سے ذرا سی بڑھ کر قربانی کر دی تو کیا کمال کر دیا۔ اتنا ہی بہت ہے کہ ہمیں بھی قربانی دینے والوں کی صف میں کھڑا ہونے کا موقع دیا جائے اور کچھ اجر ہمارے حصے میں بھی کر دیا جائے۔ ہمارے لیے یہی اتنا بڑا انعام ہو گا کہ اس نشے میں جھومتے ہوئے حاضر ہوں گے۔

عید قربان مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمیں قربانی اور ایثار کا ایک موقع دیا جاتا ہے کہ تم لوگ بہت بعد کے ہو کر پھر بھی تمہارے لیے قربانی کا ایک موقع ہر سال فراہم کر دیا جاتا ہے اب یہ اپنی اپنی قسمت۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں