اللہ کو سرکشی پسند نہیں
پیر صاحب اپنے آزاد مزاج کے مطابق الطاف حسین صاحب اور ان کی جماعت پر فقرے بازی اور تبصرے کر رہے تھے
محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم بن کر اقتدار میں آئیں تو مَیں لاہور سے شایع ہونے والے ایک معروف سیاسی ہفت روزہ میگزین سے بطور نائب مدیر وابستہ تھا۔ اُن دنوں کراچی میں ایم کیو ایم بڑے زوروں پر تھی اور پنجاب میں میاں محمد نواز شریف بطور وزیراعلیٰ بڑے طاقتور تھے۔ دونوں ہی بے نظیر بھٹو صاحبہ کو بہت ٹف ٹائم دے رہے تھے۔
ہمارا ہفت روزہ واضح طور پر محترمہ کے مقابل جناب نواز شریف کا حامی اور حمایتی تھا۔ کراچی سے شایع ہونے والے ایک مشہور انگریزی ماہنامہ جریدے نے اُنہی دنوں دو صفحات پر مشتمل ایک ایسا آرٹیکل شایع کیا جس میں ایم کیو ایم کی طاقت اور جناب الطاف حسین کی گرفت کا تنقیدی جائزہ لیا گیا تھا۔ (شو مئی قسمت سے) مَیں نے اس آرٹیکل کا ترجمہ کر کے شایع کر دیا۔ میرے ایڈیٹر صاحب بھی اس مضمون کے مواد اور ماخذ سے آگاہ تھے۔
ظاہر ہے انھی کی اجازت سے یہ شایع کیا گیا۔ جریدے کی اشاعت کے ساتھ ہی ہمارے دفتر میں گویا طوفان آ گیا۔ دھمکیوں اور فونوں کی یلغار ہو گئی۔ بار بار مطالبہ کیا گیا کہ آیندہ اشاعت میں اس کی تردید بھی کریں اور معافی بھی مانگیں، وگرنہ۔۔۔ اگلے ہفتے جریدہ شایع ہوا تو اس میں معافی تھی نہ تردید۔ اس انکار اور (دانستہ) غفلت کا ہمیں بہت بھگتان بھگتنا پڑا۔ آخر کار ہمیں معذرت کے ساتھ تردید بھی شایع کرنا پڑی۔
اس واقعہ، بلکہ سانحہ، کے چند ہفتے بعد کراچی سے ایک معروف اخبار نویس لاہور تشریف لائے۔ شام کو ہم پیر صاحب پگاڑا (مرحوم و مغفور) کی طرف سے دیے گئے ایک عشائیے میں اکٹھے ہوئے۔ یہ عشائیہ ان کے پُرشکوہ اور وسیع گھر، جو ایف سی کالج کے آس پاس واقع ہے، میں دیا گیا تھا۔ لان میں بیٹھے پیر صاحب پگاڑا خوشگوار موڈ میں گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ایم کیو ایم کی سیاست، کردار اور تشخص پر بات چھِڑ گئی۔
پیر صاحب اپنے آزاد مزاج کے مطابق الطاف حسین صاحب اور ان کی جماعت پر فقرے بازی اور تبصرے کر رہے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ پیر صاحب کی آزادانہ گفتگو کے سامنے کم کم لوگ ہی ٹِکتے تھے۔ وہ سگار سلگاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے رکے تو مَیں نے دیگر اخبار نویسوں کی موجودگی میں اپنا تلخ تجربہ سنایا۔ سُن کر پیر صاحب نے میری طرف غور سے دیکھا اور دائیں جانب مونچھوں کو اچکاتے ہوئے بلند آواز سے کہا: ''آپ تو بزدل نکلے۔''
پیر صاحب کے واشگاف الفاظ پر حاضرین میں سے کچھ مسکرائے اور کچھ نے طنزیہ قہقہہ لگایا۔ مَیں بہرحال جھینپ سا گیا تھا۔ کراچی سے تشریف لانے والے خبار نویس نے مگر پیر صاحب کو بڑے احترام سے براہ راست مخاطب کیا، دونوں ہاتھ باہم جوڑے اور کہا: ''سائیں، میرے اس صحافی بھائی نے درست اقدام کیا۔ یہ بزدلی ہرگز نہیں ہے۔'' پھر وہ خود بھی ہولے سے ہنس دیے۔ شاید وہ اپنے کسی باطنی اضطراب پر قابو پا رہے تھے۔ اور پھر انھوں نے سب کی موجودگی میں اعتراف کرتے ہوئے بتایا: ''مَیں بھی اسی طرح کی ایک معافی ''اُن'' سے مانگ چکا ہوں اور بچ گیا ہوں۔'' مجھ میں تو اب جرأت نہیں ہے کہ ''بھائی'' اور ان کی پارٹی کے بارے میں کوئی گستاخی کروں؛ چنانچہ اخبار چھاپ کر بس روٹی کما رہا ہوں۔''
برسوں سے یہ دونوں واقعات میرے دل و دماغ سے چِپکے ہوئے ہیں۔ ناقابلِ فراموش۔ ایسے میں مجھے ایک مشہور پنجابی فلم ''اَت خدا دا وَیر'' یاد آتی ہے۔ اداکار حبیب اور اداکارہ نغمہ کی شاندار جوڑی نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ نورجہاں کا دلفریب گیت ''جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں، مَیں تھاں مر جانی آں' وے'' اسی فلم کا تھا۔ یہ خوبصورت گانا خُوبرو اداکارہ نغمہ پر فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب ظلم اور زیادتی حد سے تجاوز کر جاتے ہیں تو یہ دراصل خدا کے قہر اور غصے کو دعوت دینے کے مترادف بن جاتے ہیں۔ اَت یعنی ظلم و زیادتی، استحصال اور جبر کو خدائی منصوبہ بندی کے تحت ایک روز ختم ہونا ہوتا ہے اور پھر ظالم کو اپنے مظالم کا جواب و حساب بھی دینا پڑتا ہے۔ رازدانوں کا کہنا ہے کہ لندن میں تشریف فرما ''بھائی'' کو بہت ادب آداب کے ساتھ، بارہا اور بین السطور، عرض کی گئی، گزارشیں کی گئیں کہ ''اَت'' سے باز آ جائیں۔
پارٹی اور کارکناں پر اپنی آہنی گرفت بھی نرم کریں اور زبان کو بھی کسی نظم کا پابند فرمائیں۔ ''بھائی'' نے مگر سب عرضیاں، ساری گزارشات تکبرونخوت سے مسترد کر دیں۔ چنانچہ اَت، خدا دا وَیر بن کر ظہور میں آ چکا ہے۔ ''باغی'' اور ''بغاوتیں'' سامنے ہیں اور ''بھائی'' کی بے بسی بھی۔ جو کل تک اپنے جانثاروں کی وفاؤں اور وفاداریوں کا مذاق اڑاتا تھا، آج انھی وفاداروں کے ہاتھوں مذاق بن رہا ہے۔ وطنِ عزیز کے سب سے بڑے شہر کے منتخب ہونے والے لارڈ میئر حلف اٹھاتے ہوئے ان کا نام لینے سے محترز ہیں۔ لارڈ نذیر احمد اور ایم پی یاسمین قریشی ''بھائی'' کے خلاف برطانوی حکومت کو خط پر خط لکھ رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے پرچم اور آئین سے ''بھائی'' کا نام حذف کر دیا گیا ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں اسے مکافاتِ عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔ کاش ''بھائی'' اعتدال کا راستہ اختیار کرتے لیکن طاقت، اقتدار اور اختیار کا نشہ شاید عقلِ سلیم پر غالب آ جاتا ہے اور یوں مقتدر افراد سرکشی اور ظلم پر اُتر آتے ہیں۔ قرآن پاک کی سورۃ النحل میں ارشادِ گرامی ہے: ''(مفہوم) اللہ تعالیٰ سرکشوں کو ہر گز پسند نہیں فرماتے۔'' سو' کسی کو اب تازہ تازہ سرکشی کی سزا ملی ہے۔ یہ دراصل اللہ کی حکمت اور فیصلہ ہے۔ انسانوں کے اقدامات تو محض بہانہ بنتے ہیں۔
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا!