صبا اکرام کی شخصی و فنی زندگی ایک جائزہ

موجودہ دورکے شاعر صبا اکرام کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں


Naseem Anjum September 17, 2016
[email protected]

موجودہ دورکے شاعر صبا اکرام کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ ادبی دنیا میں شاعرونقاد اور کالم نگارکی حیثیت سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے علم و ادب کی کئی جہتوں پر طبع آزمائی کی ہے اور اس میں مکمل طور پرکامیاب ہوئے ہیں۔

انھوں نے انگریزی اخبار''دی لیڈر'' میں تقریباً 14 سال تک ادبی کالم لکھے۔ انھیں انگریزی، اردو دونوں زبانوں پر عبورحاصل ہے، اس کے علاوہ بنگلہ اور ہندی زبانوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں اور واقف ہونا بھی چاہیے کہ ہندوستان ''بہار'' ان کی جنم بھومی ہے۔ انھوں نے میٹرک کی تعلیم پٹنہ (بہار) سے حاصل کی۔گریجویشن سینیٹ کولمبس کالج ہزاری باغ (رانچی یونیورسٹی) سے کیا، ڈپلوما ان پرسنل مینجمنٹ ڈھاکا اور ڈی آئی ایل کراچی سے کیا، عرصہ دراز سے وہ ڈویژنل منیجر، ایڈمن اینڈ ہیومن ریسورسز کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔

صبا اکرام شعر و ادب کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں ''سورج کی صلیب'' شعری مجموعہ ہے جو 1981 میں شایع ہوا، 1992 میں شہزاد منظر فن اور شخصیت ترتیب بہ اشتراک علی حیدرملک اور ''سنگ میل'' (بہ اشتراک فیروز) نظموں کا مجموعہ ''آئینے کا آدمی'' 2006 میں شایع ہوا، ان کتابوں کی اشاعت کے بعد صبا اکرام نے تنقید کے پتھریلے راستے کا سفر اختیار کیا اور اس مسافرت کے نتیجے میں جو کتاب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اس کا نام تھا۔ ''جدید افسانہ چند صورتیں'' اس کا سنِ اشاعت 2001 ہے۔

حلقۂ ادب میں اس کتاب کو خصوصی پذیرائی حاصل ہوئی اورتنقید نگاروں نے صبا اکرام کو خوش آمدیدکہا اس حوالے سے ڈاکٹر وزیرآغا لکھتے ہیں کہ ''صبا اکرام کو نظم کے راستے سے افسانے کی تنقید کی طرف راغب ہونے کا یہ فائدہ پہنچا ہے کہ انھوں نے خود کوافسانے کی بالائی ساخت تک محدود نہیں رکھا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے کے مطابق کہ ''جدید افسانہ چند صورتیں'' صبا اکرام کے محنت سے لکھے ہوئے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں جدید افسانے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضامین پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ صبا اکرام صاف ذہن کے مالک ہیں اور اپنی بات بخوبی کہنا جانتے ہیں، جدید افسانے پر ایسی اچھی کتاب لکھنے پر میں انھیں دلی مبارکباد دیتا ہوں۔''

سچے قلمکار کا قلم سے رشتہ تا عمر رہتا ہے، اس کی زندگی میں سکون جیسی شے کم ہی ہوتی ہے۔ اس کا دل اس کی روح بے چین و بے قرار رہتی ہے اور یہ بے چینی تخلیقات کی شکل میں قارئین کے سامنے آجاتی ہے۔گویا شب و روز کے وسائل و مصائب تن من کوگیلی لکڑی کی طرح سلگاتے ہیں۔ دل ودماغ میں سما جانے والے دھوئیں کواخراج کا راستہ چاہیے، لہٰذا لکھنے والا راستہ خود بناتا ہے کہ وہ کس سمت کا رخ کرے اور قلمی سفر جاری رکھے۔ صبا اکرام چونکہ بنیادی طور پر شاعر ہیں لہٰذا انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں نظمیں تخلیق کیں جو''آئینے کا آدمی'' کی شکل میں منظر عام پر آئیں ان کی نظم جنم بھومی سے چند اشعار:

بچھڑی ہوئی گلیوں کی

یادوں کا وہ میٹھا ذائقہ

احساس کے ہونٹوں پہ اپنے

میں لیے در در پھرا

مٹی کی سوندھی باس

صحرا میں متاعِ جاں تھی

میرے واسطے اب تک

مگر

یہ کیا ہوا۔

اپنے وطن، اپنے گھر اور گھر کی یادوں کو اس طرح یاد کرتے ہیں کہ قاری کا دل بھی غمزدہ ہوجاتا ہے۔

صدیوں سے سہہ رہا ہوں صبا بے گھری کا غم

نکلا تھا ایک بار میں اپنے مکان سے

ہر انسان کو اپنے بارے میں اچھی طرح اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ علم وآگہی کے دیے روشن کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں پاتا ہے یا اور تاریکیوں کے جنگل کو اپنے وجدان کی روشنی میں بجھانے کی سکت رکھتا ہے یا پھر اسے اجالوں سے بیر ہے، صبا کو بھی اپنی صلاحیتوں صداقتوں اور سچائیوں کا بخوبی عمل ہے۔ شاید اسی لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے۔

تھک کر جب بھی بیٹھ گیا ہوں میں پیپل کی چھاؤں میں

گوتم آیا، گوتم آیا، شور مچا ہے گاؤں میں

بے شک زندگی لمحہ بہ لمحہ موت کی منزل کی طرف سفر کرتی ہے صبا اکرام نے اس حقیقت کا اظہار اس طرح کیا ہے:

ہاتھ میں ہر لمحے کے تھا کشکول صبا

زیست کی دولت مٹھی مٹھی دان ہوئی

ایک اور شعر جسے سچ کے سانچے میں شعری لطافت و نزاکت کے ساتھ ڈھال دیا گیا ہے:

لمحوں کے آوارہ لڑکے درد کے پتھر پھینکیں گے

زخموں سے تم بچوگے کب تک جیون آم کا موسم ہے

صبا اکرام کی کتاب اعتراف و انحراف جنوری 2012 میں شایع ہوئی۔ ''اعتراف و انحراف'' میں اہم شخصیات پر مضامین شامل ہیں یہ مضامین تحقیق اور عرق ریزی کے نتیجے میں لفظوں کی قندیل کی صورت میں جگمگ کر رہے ہیں، چند کے عنوانات:

کیفی اعظمی سے ملاقات، فراق اپنے خطوط کی روشنی میں، شمس الرحمن فاروقی کی تبصرہ نگاری،

وزیر آغا کی ''ہم آنکھیں ہیں'' ایک جائزہ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تو تھا مختصر سا احوال صبا اکرام کے ادبی و فنی کارناموں کا۔ اب آتے ہیں ان کی شخصی زندگی کی طرف۔ نام تو بہت اچھا رکھا گیا، ستارہ بن کر چمکے اور راستی کی راہوں پر گامزن رہے لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد صبا اکرام کہلوانے پر مصر ہوئے۔ بہرحال صبا نے بھی ان کا کام ادب کے کوچوں میں مانند خوشبوکے پھیلانے کا فریضہ تندہی سے انجام دیا۔

بظاہر وہ بے حد سنجیدہ سخت مزاج اور بارعب نظر آتے ہیں لیکن وہ ایسے ہیں نہیں جو لوگ انھیں قریب سے جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ وہ نرم خو اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔ رہا رعب و دبدبہ تو یہ احساس انسان کو بداخلاق ہرگز نہیں بناتا ہے بلکہ متانت میں اضافہ کرتا ہے، صبا اکرام ادبی لحاظ سے ہرگز تنگ نظر اور بخیل نہیں ہیں۔ وہ خلوص دل سے قلمکاروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یقیناً اچھی اور بڑی بات ہے کہ چراغ سے چراغ جلانے کی رسم کو جاری رہنا ہی چاہیے۔

اپنے گھر میں بھی ان کا رویہ قابل تعریف ہے، وہ ایک ذمے دار اور وفادار شوہر ہیں اسی تعریف پر ان کی بیگم افشاں بھابی بھی اترتی ہیں۔ اسی طرح اپنی اولاد، والدہ، بہن بھائیوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔اپنے دوست احباب کا بھی خیال رکھتے ہیں اور بہت اچھے میزبان ہیں اس آخری جملے کی سچائی اس وقت پتا چلے گی جب آپ ان کے مہمان بنیں گے۔

(تقریب تعارف میں پڑھا گیا مضمون)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں