ایک دفعہ کا ذکر ہے
یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عیدالاضحی کا تہوار منایا جانا تھا۔
سیدنا عمر ابن خطاب ؓ کا سنہری دور
خلیفۂ ثانی سیدنا عمر ابن خطا ب ؓ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے سیدنا عمر ابن خطاب ؓ سے شکایت کی کہ اے امیر المومنین! گورنر مصر حضرت عمروبن العاصؓ کے بیٹے محمد بن عمروؓ نے میری پشت پر آٹھ کوڑے مارے ہیں اور کہتا ہے کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں۔ خلیفۂ دوئم نے حکم فرمایا کہ محمد بن عمرو کو گرفتار کرکے لایا جائے اور عمروبن العاصؓ کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔جب محمدبن عمرو ؓ کو گرفتار کرکے لایا گیا تو حضرت عمرؓنے اس آدمی سے کہا کہ گورنر کے بیٹے محمد بن عمروؓکی پشت پر آٹھ کوڑے مارو۔اس متاثرہ شخص نے گورنرکے بیٹے کی پشت پرکوڑے مارے تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے اس آدمی سے کہا کہ اب عمروبن العاصؓ کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے؟
اس پر اس آدمی نے کہا کہ اے امیرالمومنین !عمروبن العاصؓ نے تو مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا لہٰذا میں انھیں معاف کرتا ہوں۔اس کے بعد خلیفہ ٔ دوئم عوام کے جم غفیر کے سامنے گورنر مصرحضرت عمروبن العاص ؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا اے عمروبن العاصؓ تمہیں کیا ہوگیا ؟لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔( ایک جرمن خاتون اس واقعہ کی وجہ سے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے سیرت سیدنا عمرؓ پر 7000 انگریزی کی کتب جمع کیں اور ایک انٹرنیشنل لائبریری بنائی اور اس نے ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا، جس میں دنیا کے 1000 بڑے دانشوروں نے شرکت کی ۔ اس سیمینار میں اس نے مقالہ پیش کیا جس میں یہ اعتراف کیا گیا کہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار سیدنا عمر بن خطابؓ ہیں کیونکہ حضرت عمرؓ نے انسانوں کو تمام بنیادی حقوق دئیے اورآپ ؓکے ان الفاظ " اے عمروبن العاص ؓ تمھیں کیا ہوگیا ؟لوگوں کو تم نے کب سے اپنا غلام بنانا شروع کردیا ہے؟" نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔)
ایک مرتبہ حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ گلیوں میں گشت کر رہے تھے ایک بوڑھی عورت آپؓ سے ملی اس نے شکوہ شروع کردیا کہ میں بہت پریشان ہوں میرا کوئی پرسان حال نہیں۔ خلیفہ میرا خیال نہیں رکھتا ،میری خبر گیری نہیں کر رہا۔وہ عورت نہیں جانتی تھی کہ یہ شخص جس سے میں بات کر رہی ہوں وہی مسلمانوں کے خلیفہ ہیں،حضرت عمرؓ نے اس عورت سے پوچھا کہ اماں جی! آپ نے حضرت عمر ؓ کو اپنے حالات سے آگاہ کیا ہے کبھی ؟اس پر عورت نے جواب دیا کہ میں کیوں بتاؤں۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ اماں جی اگر آپ عمرؓ کو نہیں بتائیں گی تو عمرؓکوکس طرح علم ہوگااورآپ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا ؟عورت نے جواب دیا کہ اگر عمر ؓمیرے حالات کی خبر نہیں رکھ سکتا تو اس کو کس نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا خلیفہ بنے؟اس جواب پر حضرت سیدنا عمرابن خطاب ؓچونک گئے اور فوری اس کی شکایت کا ازالہ کیااور خبر گیری کی مہم اور تیز کردی۔n
قائداعظم کی زندگی کے دو سبق آموز واقعات
یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عیدالاضحی کا تہوار منایا جانا تھا۔ عیدالاضحی کی نماز کے لیے مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں کو منتخب کیا گیا اور اس نماز کی امامت مشہورعالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دینی تھی- قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا۔ مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن نے فرمایا ''میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں'' چناں چہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔ ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہْوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرٔات ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
'' ویل مسٹر آزاد، تھوڑا ہندو بنو ''
محمد حنیف آزاد کو قائداعظم کی موٹر ڈرائیوری کا فخر حاصل رہا ہے ایک بار قائداعظم نے اپنے مہمانوں کی تسلی بخش خدمت کرنے کی صلے میں انہیں دو سو روپے انعام دئے- چند روز بعد حنیف آزاد کو ماں کی جانب سے خط ملا جس میں انھوں نے اپنے بیٹے سے کچھ روپے کا تقاضا کیا تھا- حنیف آزاد نے ساحل سمندر پر سیر کرتے ہوئے قائد سے ماں کے خط کا حوالہ دے کر والدہ کو کچھ پیسے بھیجنے کی خاطر رقم مانگی- قائداعظم نے فوراً پوچھا '' ابھی تمھیں دو سو روپے دئے گئے تھے وہ کیا ہوئے ''حنیف آزاد بولے ''صاحب خرچ ہوگئے قائد اعظم یہ سن کر بولے '' ویل مسٹر آزاد، تھوڑا ہندو بنو ''-n
علامہ محمد اقبال کی شخصیت کے دودلچسپ پہلو
علامہ اقبال ایک بار سیالکوٹ سے ریل گاڑی میں لاہور جارہے تھے۔ شیخ اعجاز احمد بھی اس ٹرین سے انٹر کلاس میں سفر کررہے تھے۔ سمبڑیال اسٹیشن پر جب ٹرین ٹھہری، تو شیخ صاحب سیکنڈ کلاس میں علامہ اقبال سے کھانے کیلئے دریافت کرنے آئے۔ اسی ڈبے میں ککے زئی خاندان کے ایک بزرگ بیٹھے تھے، جب انہیں پتہ چلا کہ شاعر مشرق ان کے ہم سفر ہیں تو انہوں نے حیرت و مسرت کے ملے جلے انداز میں کہا ''یہ ڈاکٹر محمد اقبال ہیں؟ ان سے میرا تعارف کرا دیجئے۔'' علامہ اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان سے ہاتھ ملایا ا اور اپنی سگریٹ کی ڈبی کھول کر ایک سگریٹ پیش کی، ہم سفر بزرگ نے علامہ اقبال کے ہاتھ سے وہ سگریٹ لے لی، مگر سگریٹ کو سلگانے کی بجائے اسے جیب میں رکھ لیا۔ علامہ اقبال کو حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا کہ ''آپ نے سگریٹ سلگائی نہیں؟'' وہ صاحب بولے کہ ''یہ متبرک سگریٹ میرے خاندان میں یادگار کے طور پر محفوظ رہے گی'' علامہ اقبال اس پر مسکرا دیئے۔ انہوں نے دوسری سگریٹ دیتے ہوئے فرمایا ''اچھا تو اس سے شوق فرمائیے۔'' ہم سفر بزرگ نے دوسری سگریٹ بھی سلگائے بغیر جیب میں رکھ لی... علامہ اقبال مسکرائے اور چپ ہوگئے۔
وائسرائے ، نواب آف بہاولپور اور علامہ اقبال
قیام پاکستان سے قبل جب سلطنت انگلشیہ کو ہندوستان پر واحد حاکمانہ اختیارات حاصل تھے تو ملک کے مختلف صوبوں، ریاستوں اور قوموں سے مختلف قسم کے تعلقات بھی ہوتے تھے۔ جس سے خودمختار ریاست کی حکمرانی میں انگریز کا عمل دخل بخوبی قائم و دائم رہتا تھا چنانچہ بعض والیان ریاست سے یہ معاہدہ کچھ اس شکل میں تھا کہ ریاست کے وزیراعظم کی تقرری وائسرائے ہند کے حکم نامہ کے ماتحت ہوا کرے گی اور وہ جس شخص کو چاہیں گے ریاست کا وزیراعظم مقرر کریں گے۔ اس طرح نامزد ہونے والا وزیراعظم بظاہر ریاست کے نواب کے ماتحت ہوتا لیکن درپردہ وائسرائے ہند کے تمام احکام کے مطابق ریاست کا نظم و نسق چلاتا تھا۔
وزیراعظم کے ہاتھ میں نواب ایک کٹھ پتلی رہ جاتا۔ چنانچہ ریاست بہاولپور میں بھی جو وزیراعظم بنا کر بھیجا جاتا تھا وہ وائسرائے بہادر کے حکم کے ماتحت متعین ہو کر بہاولپور جاتا اور ریاست پر انگریز حکمرانی کا ذریعہ بنتا تھا۔ ... ان دنوں ریاست بہاولپور میں جو صاحب وائسرائے ہند کی طرف سے نامزد وزیراعظم تھے۔ ان کی اور نواب بہاولپور میں بنتی نہ تھی، وہ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ پہلے تو خود نواب صاحب وائسرائے بہادر کو شکایتیں لکھتے رہے کہ موجودہ وزیراعظم سے میری جان چھڑائی جائے مگر شنوائی نہ ہوئی۔
مجبور ہو کر نواب صاحب کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کو جو بیرسٹر بھی تھے اس مقصد کے لیے اپنا وکیل بنانا پڑا۔ ان کے بعض رفقاء نے انہیں مشورہ دیا کہ ممکن ہے کہ سر اقبال کی وکالت سے ان کی مقصد براری ہو جائے چنانچہ نواب صاحب کا ایک آدمی علامہ کے پاس پہنچا اور صورت حال بیان کی۔ ڈاکٹر صاحب نے معاملہ کو بہ حیثیت بیرسٹر جانچا پھر ہامی بھر لی اور چار ہزار فیس مقدمہ کی طے پائی۔ چنانچہ علامہ اقبال لاہور سے دہلی روانہ ہوئے اور اسٹیشن سے سیدھے وائسرائے بہادر کے دفتر میں جا پہنچے اور سیکرٹری کو اپنا کارڈ دیا۔ سیکرٹری نے کہا کہ قاعدہ یہ ہے کہ ہر ملاقاتی اپنا نام رجسٹر میں لکھتا ہے اس کے بعد رجسٹر اندر بھجوایا جاتا ہے جسے بلانا مقصود ہوتا ہے اسے بلایا جاتا ہے لہٰذا آپ بھی کارڈ دینے کی بجائے رجسٹر میں اپنا نام لکھیں۔ اس پر اقبال نے کہا: ''وائسرائے میرے کارڈ پر ملنا نہ چاہیں گے تو میں واپس چلا جاؤں گا مگر عام لوگوں کی طرح رجسٹر میں اپنا نام نہ لکھوں گا۔'' مجبوراً سیکرٹری کو کارڈ لے کر اندر جانا پڑا۔ وائسرائے نے کہا ''میں ان سے ملوں گا انہیں بٹھایا جائے۔''
تھوڑی دیر بعد وائسرائے ملاقاتیوں کے کمرے میں آئے... ملاقات ہوئی۔ وائسرائے نے آمد کا سبب پوچھا ''کیسے آنا ہوا؟'' علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہ حیثیت ایڈووکیٹ ریاست بہاولپور کے نواب صاحب کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔ ریاست کا وزیراعظم آپ کے حکم سے ریاست میں متعین تو ہے مگر نواب صاحب اور وزیراعظم میں تعلقات خوشگوار نہیں ہیں جس سے نواب صاحب کو بھی تکلیف ہے اور کاروبار سلطنت میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ وائسرائے بہادر نے فرمایا ''مگر یہ سب کچھ ضابطہ کے مطابق ہے اور نواب صاحب کو اسے پسند کرنا چاہئے۔''
علامہ اقبال نے کہا کہ ''معاملہ تو بالکل معمولی ہے، حکمران کی سیاست کا منتہا یہ ہونا چاہئے کہ وائسرائے اور ریاست کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار ہوں۔ ان تعلقات کی سلامتی اور ترقی سے حکومت انگلشیہ اور حکومت بہاولپور کے تعلقات میں روز افزوں اضافہ ہوگا مگر وزیراعظم کی دراندازی اور ناقبولیت سے اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچے گا۔ آپ کو اپنی پالیسی کی مرکزی قوت بحال رکھنے کے لیے ایسے فروعی معاملات پر وزیراعظم کی حمایت ترک کر دینی چاہئے۔ اگر آپ اس وزیراعظم کو وہاں سے تبدیل فرما دیں اور کوئی دوسرا شخص ریاست میں وزیراعظم مقرر کر دیں جو نواب صاحب کو بھی پسند ہو تو اس سے حکومت انگلشیہ کے وقار میں کوئی ضعف نہیں پہنچتا بلکہ استحکام ملتا ہے۔''
اس قسم کی باتیں ہوتی رہیں اور وائسرائے بہادر نے وعدہ فرما لیا کہ وہ وزیراعظم بہاولپور کی تبدیلی کے احکام جاری کریں گے۔ وائسرائے کو ایک تو علامہ اقبال کے مرتبے کا علم تھا دوسرے علامہ نے بات بھی ڈھب سے کی تھی کہ وائسرائے کو انکار کرتے نہ بنی۔ جب یہ بات طے ہو گئی تو وائسرائے نے کہا کہ ''آپ پرسوں میرے ساتھ ڈنر کھائیں۔'' علامہ نے فرمایا ''مجھے تو آج واپس جانا ہے۔'' ''اچھا تو کل سہی۔'' ''مگر میں تو آج ہی واپس جاؤں گا، کل تک نہیں ٹھہر سکتا۔'' وائسرائے نے کہا ''میری خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ کھانا کھانے کی بھی خوشی حاصل کرتا۔'' ''اگر یہ خواہش ہے تو کھانا آج بھی کھا سکتے ہیں۔'' (کسی بڑے سے بڑے افسر، لیڈر یا والئی ریاست کو مجال نہ تھی کہ وہ وائسرائے کے حکم کے خلاف زبان بھی کھول سکتا، لیکن اقبال وائسرائے کی بات رد کرنے یا اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی ہمت رکھتے تھے۔) چنانچہ وائسرائے بہادر نے علامہ کو دوسرے کمرہ میں جگہ دی اور وہیں دوپہر کے بعد علامہ کے ساتھ وائسرائے نے ڈنر کھایا اور علامہ اسی شب لاہور واپس چلے آئے۔