پاکستان ریلوے اور سعد رفیق
راستے میں دونوں جانب قبائلی بچے بوڑھے سب ٹرین کے مسافروں کو اپنی روایتی مسکراہٹ سے خیبر ایجنسی میں خوش آمدید کہتے
HONG KONG:
بہت عرصہ پہلے پشاور سے لنڈی کوتل کے لیے ایک ٹرین چلا کرتی تھی نہ صرف پاکستانی بلکہ غیر ملکی بھی ایشیا کے اس بلند ترین ریلوے ٹریک پر سفر سے بھرپور لطف اٹھاتے، دو کالے انجن سیٹیاں بجاتے دو بوگیاں کھینچتے جمرود سے ہوتے ہوئے لنڈی کوتل پہنچتے، تقریباً پچاس کلومیٹر کا سفر چار گھنٹوں میں طے ہوتا۔راستے میں کئی مسافر ٹرین سے اتر کر ٹرین کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے اور پھر ٹرین میں سوارہو جاتے ،اس کی وجہ ٹرین کی انتہائی کم اسپیڈ ہوا کرتی تھی۔
راستے میں دونوں جانب قبائلی بچے بوڑھے سب ٹرین کے مسافروں کو اپنی روایتی مسکراہٹ سے خیبر ایجنسی میں خوش آمدید کہتے ۔ٹرین اپنی منزل مقصود پر پہنچتی اور مسافر لنڈی کوتل بازار میں شاپنگ کرتے ،مشہور تکہ کڑاہی سے لطف اٹھاتے اور پھر دو گھنٹوں بعد واپس پشاور کے لیے روانہ ہو جاتے ۔ہفتے میں ایک دن چلنے والی اس ٹرین کا سفر یادگار ہوا کرتا تھا اور عقل دنگ رہ جاتی تھی کہ انگریز سرکار نے اگرچہ سارے برصغیر پاک و ہند میں ہی ٹرینوں کا جال بچھا دیا تھا مگر پشاور سے لنڈی کوتل تک ٹرین سروس شروع کرنا اور انتہائی بلندی پر سرنگیں بنانا کمال مہارت کا شاہ کار تھا۔
یہ دنیا کا شاید واحد ریلوے ٹریک تھا جو کسی بھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے درمیان سے گذرتا ۔پھر پشاور سمیت پورے صوبے اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی شروع ہو گئی جس کے باعث ٹرین کیا چلتی ؟قبائلی علاقوں میں جانا ہی ناممکن ہو گیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ ٹرین کی پٹڑی جگہ جگہ سے اکھڑ چکی ہے۔سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اس ٹرین کو ائیر پورٹ کے درمیان سے گذرنے کی اجازت نہیں مگر توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں جب ایک بار پھر اس خطے میں امن ہو گا تب سیاح اس یادگار ٹرین سفر سے پھر محظوظ ہوں گے اور زندگی بھر اس ٹرین کا سفر اپنے دل و دماغ میں محفوظ رکھیں گے۔
آخر پشاور سے لنڈی کوتل جانے والی اس ٹرین کی ہمیں یاد کیوں آ گئی آپ کے ذہن میں محوگردش اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عید پر مسافروں کو اپنوں سے ملنے کے لیے بس پر سفر کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سرکاری ملازمین کو تین دنوںکی چھٹیوں کے بعد جلد واپس جانا تھا جنہوں نے عید کے پہلے دن بس کے ذریعے سفر کرنا تھا انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پہلے دن بسیں دستیاب نہ تھیں،بعض مسافر ایسے بھی تھے جنھیں ایمرجنسی میں سفر کرنا پڑا جن میں راقم بھی شامل تھا چنانچہ ایسے میں ذہن ریل گاڑی کی طرف چلا گیا اور بکنگ آفس جا کرتو حیرت مزید بڑھ گئی کہ بکنگ آفیسر موصوف نے بتایا کہ پشاور سے کراچی جانے والی خیبر میل ایکسپریس میں جگہ ہی نہیں اور ساری کی ساری نشستیں بک ہو چکی ہیں ۔
میں نے اس سے پھر پوچھا کہ کیا ائیر کنڈیشنڈ بوگیوں میں بھی یہی صورت حال ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بالکل ائیر کنڈیشنڈ سلیپر اور ائیر کنڈیشنڈ بزنس کلاس کی دو بوگیاں ہیں اور دونوں میں پشاور سے لاہور تک کی تمام ٹکٹیں ختم ہو چکی ہیں۔میں نے اس سے پھر پوچھا کہ جانا بہت ضروری ہے کوئی حل ممکن ہے تو اس نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نوشہرہ سے جانا چاہئیں تو ایک ٹکٹ مل سکتا ہے میرے لیے یہ بھی مناسب تھا سوچنے لگا کہ پشاور سے گاڑی میں نوشہرہ جا کر ٹرین میں سوار ہوا جا سکتا ہے لیکن بکنگ افسر نے کچھ سوچنے کے بعد میری طرف دیکھا اور کہا کہ ایک اور آئیڈیا ہے کہ آپ پشاور سے نوشہرہ تک اکانومی کلاس کی ٹکٹ لے لیں اور پھر وہاں سے بوگی تبدیل کرلیں مگر یہ ذہن میں رہے کہ شاید نوشہرہ تک کا سفر آپ کو کھڑے ہو کر کرنا پڑے ۔یہ تجویز بھی بری نہیں تھی، میں نے ٹکٹ لیا اور عید کے پہلے دن پشاور کے ریلوے اسٹیشن سے خیبر میل میں سوار ہوا ۔
اٹھارہ برسوں بعد ٹرین کے سفر نے ماضی کی یادیں بھی تازہ کر دیں اور ساتھ میں سعد رفیق کا یہ دعویٰ بھی درست نکلاکہ یقینی طور پر پاکستان میں بڑی حد تک ریلوے کا نظام بہتر ہو گیا ہے، وقت پر روانگی اور وقت سے پہلے منزل مقصود پر پہنچنا بلاشبہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان ریلوے میں بہتری آ رہی ہے اور ٹرین میں رش سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہ تھا کہ بڑے طویل عرصے کے بعد ریلوے نے ماضی کے مقابلے میں منافع بھی زیادہ کمایا ہو گا ۔
میں نے ریل میں ائیرکنڈیشنڈ الیکٹریشن جاوید سے پوچھا کہ کیا ریلوے اب بہت بہتر ہے یا پھر شیخ رشید اور حاجی غلام احمد بلور کے زمانے میں بہتر تھی اس نے جھٹ سے کہا کہ وہ تبدیلی جو خیبر پختون خوا میں نہ آ سکی سعد رفیق نے ریلوے میں کم از کم ضرور دکھا دی ہے۔میں نے ایک عرصے کے بعد کوئی ایسا وزیر دیکھا ہے جس نے اس محکمے میں کام کیا ہے مجھے سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں لیکن حاجی غلام احمد بلور بھی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے جب کہ شیخ رشید نے نئی ٹرینیں چلائیں مگر ریلوے کا نظام بہتر نہ کر سکے۔جاوید بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا !بہت دنوں سے ٹرینیں ٹائم پر آ رہی ہیں اور رش بھی بڑھنے لگا ہے اگر وقت کی پابندی ہو تو مسافر ٹرین پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک رات کے سفر نے جہاں ریلوے کا مثبت پہلو آشکارا کیا وہیں اگر وزیر ریلوے سعد رفیق تھوڑی سی مزید توجہ دیں تو پشاور سے راول پنڈی اور لاہور جانے والے مسافروں کے لیے آسانی پیدا ہو سکتی ہے اول تو یہ کہ پشاور سے لاہور تک سفر کا دورانیہ کم اور ٹرینوں کے اوقات کو بہتر کر دیا جائے کیونکہ ماضی میں یہ تاثر عام تھا کہ ریلوے کے کرتا دھرتا ٹرانسپورٹرز سے ملے ہوئے ہیں اور ٹرینوں کے اوقات ایسے رکھے گئے ہیں کہ مسافروں کے لیے ٹرین سے سفر کرنا مناسب نہیں ہوتا، ریل کار کی طرح اگر دوبارہ تیز رفتار ٹرین پشاور سے شروع ہو جائے تو اس سے بھی ریلوے کو فائدہ ہو گا۔پشاور سے کراچی جانے والی ٹرینوں کی بوگیاں بھی بہت پرانی ہو چکی ہیں جنھیں تبدیل کرنا ضروری ہے۔
ایک اور اہم بات جو سعد رفیق کو بھی معلوم ہے کہ پشاور سے ایکسپورٹ کا سارا سامان ٹرکوں اور کنٹینرز کے ذریعے کراچی بھیجا جا رہا ہے جب کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان بھی کراچی سے پشاور سڑک کے راستے بھیجا جاتا ہے، ماضی میں مال گاڑیاں اس حوالے سے اہم ہوا کرتی تھیں اور ہمیشہ ایکسپورٹرز اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے کاروبار سے منسلک افراد ریلوے پر ہی انحصار کیا کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے، پشاور سے مال بردار گاڑیاں چلانا ازحد ضروری ہے جس سے ریلوے کو ماہانہ کروڑوں روپے آمدنی ہو سکتی ہے۔ہمارے دوست ضیاء الحق سرحدی ڈرائی پورٹ مانگ مانگ کر اب ہمت ہار گئے ہیں مگر کہتے وہ ٹھیک ہی ہیں کہ اگر اضاخیل میں ڈرائی پورٹ بن گیا تو تاجروں کومالی فائدہ ہو گا اور ریلوے کو ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سے اڑھائی کروڑ روپے روز کا منافع بھی ملے گا۔