دھماکوں کی گونج
پاکستان کے عوام کی اکثریت گزشتہ دنوں مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والا وہ دھماکا بھول چکی ہے
کیا آپ کو دھماکوں کی گونج سنائی دی؟ وہ دھماکے جوگزشتہ ہفتے ملک کے مختلف شہروں میں ہوئے تھے؟وہ دھماکے، جن میں مظلوم قتل ہوئے، بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں، اورکئی گھرانے اپنے سربراہ سے محروم ہوگئے۔کیا آپ کو ان دھماکوں کی آواز سنائی دی؟ مرنے والوں کی چیخیں سماعتوں سے ٹکرائیں؟ ان کے اہل خانہ کا گریہ آپ تک پہنچا؟
کیا آپ نے عبادت گاہوں سے اٹھتا دھواںدیکھا، جوگزشتہ ماہ ہونے والے دہشت گرد حملوں کا نتیجہ تھا؟ وہ حملے جنھوں نے کئی خاندانوں کو اپنے پیاروں سے محروم کردیا۔ حملے، جن میں بیٹے ماؤں سے جدا ہوئے، بیٹیوں کو اپنے باپ کھونے پڑے، محبت خاک ہوئی، انسان قتل ہوئے؟ کیا وہ نتھنوں میں گھسا؟ کیا اس کے باعث سانس لینے میں دشواری ہوئی؟ کیا سانحوں کے اس سلسلے سے آپ کی روح زخمی ہوئی؟
کیا آپ کا جواب نہ میں ہے؟برائے مہربانی شرمندہ مت ہوں، آپ تنہا نہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت گزشتہ دنوں مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والا وہ دھماکا بھول چکی ہے، جس میں 28 افراد اپنی زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔۔۔جی ہاں، اگر آپ کا جواب نفی میں ہے، تو سر مت جھکائیں، آپ اکیلے نہیں۔ کراچی سے خیبر تک، عوام کا بڑا حصہ بھول چکا ہے کہ عید الاضحیٰ پر شکار پور میں خود کش حملے کی کوشش ہوئی تھی۔ 2015 میں ہونے والاشکار پور حملہ توشاید ہی کسی کو یاد ہو، جس نے61 زندگیاںنگل لی تھیں۔ کوئٹہ میں شہید ہونے والے بھی ہمیں یوں یاد کہ وہ شہر کے ممتاز وکلا تھے،ان کے کوٹ کالے تھے۔ مگر آج نہیں تو کل، وہ بھی ہماری یاد داشتوں سے محو ہوجائیں گے۔
ان دھماکوں، ان حملوں کے مانند ہم کراچی کے سپرہائی وے پر پے درپے ہونے والے ہولناک حادثات ،جن میں کتنے ہی بدن جھلس چکے ہیں،کئی گھرانے جل گئے۔۔۔ بھول چکے ہیں۔چند روز قبل8 ستمبر کوسپر ہائی وے پر ہونے والا تازہ ترین واقعہ بھی ہمارے ذہنوں پرکوئی نقش نہ چھوڑ سکا۔
جی، آپ کی یادداشت سے یہ مناظر اترگئے ہیں،آپ انھیں بھول گئے ہیں، مگرپریشانی کی کوئی بات نہیں۔ شاید میں بھی انھیں بھلا دیتا، اگر میری یافت کا ذریعہ خبریں نہ ہوتیں، اگر فکشن نگاری کے لیے کہانیوں کی تلاش نہ رہتی، کالم کا موضوع چننے کو اخبارات نہیں پڑھنے ہوتے، تو یقیناً میں بھی مہمند ایجنسی، شکار پور اور سپر ہائی وے کو بھول چکا ہوتا۔
اب ذرا دوسرے رخ پر غور کیجیے:
کیا آپ نے گزشتہ دنوں کسی سیاست داں کی گرفتاری کی خبر سنی؟ شاید آپ کہیں، جی ہاں، خواجہ اظہار الحسن کوگرفتار کیا گیا تھا، اور یہ کام راؤ انوار نے انجام دیا اور پھر کھلبلی مچ گئی۔ مذمتی بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ نے واقعے کو نوٹس لیا۔شاید آپ یہ بھی بتائیں کہ راؤ انوار معطل ہونے کے بعد پریس کانفرنس کرنے پہنچ گئے تھے۔ خواجہ اظہار کچھ گھنٹوں بعد رہا ہوئے۔ میڈیا پر کئی گھنٹوں بحث ہوتی رہی۔ ٹاک شوز میں پیش گوئیاں داغی گئیں۔
اگر سوال کیا جائے کہ کیا آپ نے کسی سیاسی احتجاج کی بازگشت سنی ہے؟ تو شاید پھر آپ کا جواب اثبات ہوں ! آپ کہیں؛ عمران خان رائیونڈ مارچ کا ارادہ باندھ بیٹھے ہیں، تیاریوں میں جٹے ہیں، اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاناما لیکس کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے ۔شاید آپ ان کے اس بیان کا بھی تذکرہ کریں، جس میں انھوں نے خواجہ اظہار الحسن کی رہائی کا سبب وزیراعظم کی مداخلت کو قرار دیا اور شکایت کہ ان کے مارچ کو روکنے کے لیے ن لیگ مسلح جتھے تیارکر رہی ہے۔۔۔ طاہر القادری کی رقت آمیز تقاریر نے بھی آپ کی سماعتوں پر دستک دی ہوگی۔آپ کو خبر ہوگی، وہ ن لیگ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں، وزیراعظم کو قصور وار سمجھتے ہیں، عالمی اداروں سے مدد مانگنے کا ارادہ ظاہرکرچکے ہیں،انصاف کے لیے آخری سانس تک لڑنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ وسیم اختر، جوکراچی کے میئر،آج کل جیل میں ہیں، عدالت نے لال مسجد کیس میں پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ امن کمیٹی کے دفاتر مسمارکر دیے گئے اورسیف اللہ نیازی نے تحریک انصاف سے استعفیٰ دے دیا۔ ہمیں یہ بھی خبر کہ ہیلری اور ڈونلڈ ٹرمپ میں گھمسان کا رن پڑے گا۔۔۔ نیویارک دھماکا گہرے اثرات مرتب کرے گا اور یہ تو سب ہی کو پتا کہ سری نگرمیں فوجی ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعدایک بار پھر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔۔۔کشیدگی بڑھنے والی ہے۔
کیا یہ عجیب نہیں کہ ہم حقیقی حادثات اور سانحات کچھ روز میں بھول جاتے ہیں۔ تازہ ترین خبریں، میڈیا میںزیر بحث رہنے والے ایشوز ہماری آنکھوں کے آگے پردے ڈال دیتے ہیں۔بریکنگ نیوز کے شورکے باعث چند ہفتوں قبل ہونے والی بارش کی تباہ کاریاں اور رہایشی عمارت میں لگنے والی آگ۔۔۔ کچھ یاد نہیں رہتا۔تو جناب، اگردھماکوں کی آواز ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتی، عبادت گاہوں سے اٹھتا دھواں نتھنوں میں داخل نہیں ہوتا۔۔۔ تو سبب یہی مسلسل شور ہے۔ معلومات کی بھرمار۔ مسلسل مباحثے، لگاتار چیخ وپکار، فیس بک پر لائیک شیئر اورکمنٹس کا مقابلہ۔ ٹویٹر پر گنے چنے الفاظ کی سیاست۔ نئے ٹرینڈز، جوکچھ ہی گھنٹے بعد پرانے ہوجاتے ہیں۔تکرار،جھگڑے، مغلظات۔۔۔ ایسے میں اگر حقیقی سانحات اورحادثات کچھ ہی دنوں بعد ذہن سے محو ہوجائیں، تو حیرت کیسی۔
یوں لگتا ہے کہ ریموٹ کنٹرول آدمی کے ہاتھ میں نہیں۔۔۔ آدمی ریموٹ کنٹرول کے ہاتھ میں ہے۔ انسان سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا۔۔۔ سوشل میڈیا اُسے استعمال کررہا ہے۔۔۔ذرایع ابلاغ کی ترقی سے عوام کو فائدہ نہیں ہوا ، عوام کی بدحالی سے ذرایع ابلاغ نے فائدہ اٹھایا ۔خبروں، مباحثوں، میڈیااورسوشل میڈیا میں الجھا انسان کیا حقیقی معنوں میں آزاد ہے؟کیا اپنی سوچ پر اُس کی گرفت ہے؟کیا وہ اپنے فیصلے کرنے میں بااختیار ہے؟ کیا ہمارے پاس مطالعے کے لیے وقت بچا ہے؟ ہم رشتے داروں سے ملاقات کے متمنی ہیں؟ ٹھہراؤکا موتی زندگی سے کون چرا لے گیا؟یہ وہ سوالات ہیں، جن کے بارے میں زمانے کی نام نہاد تیز رفتاری،کھوکھلی ترقی شایدکبھی سوچنے نہ دے۔
ہمیں دھماکوں کی گونج فقط تب سنائی دے گی، جب ہم خود ان کا نشانہ بنیں گے۔