اُڑی حملہ ’آفٹر شاکس‘ میں پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی
شکایات کیسی؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں تحریک آزادی کو بزور طاقت کچل رہا ہے۔
GILGIT:
ایک بار پھر دونوںملکوںمیں موجود نادیدہ قوتوں نے اپنا رنگ دکھایا اور کنٹرول لائن کے قریب اُڑی کے مقام پر چار افراد نے بھارتی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 18بھارتی فوجی ہلاک ہوئے، یہ حملہ پہلے کی طرح عین اسی وقت ہوا جب اقوام متحدہ کا اجلاس ہونے جا رہا ہے اورہمارے وزیر اعظم اجلاس میںشرکت کے لیے اور بھارت کے خلاف اقوام عالم کو شکایت لگانے کے لیے امریکا پہنچ چکے ہیں۔
شکایات کیسی؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں تحریک آزادی کو بزور طاقت کچل رہا ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے۔ بھارت خطے کا امن و سکون برباد کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنے پاؤں مضبوط کر رہا ہے تاکہ پاکستان کو ہر طرف سے گھیرا جا سکے۔ بھارت پاکستان میں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دے رہاہے۔ بھارت سی پیک کے خلاف اربوں ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ بھارت پاکستان کا پانی روک کر ان کے رخ موڑ رہا ہے اور ان کے اوپر ڈیم بنا رہا ہے ۔ بھارت عالمی قوتوں کو پاکستان کے خلاف اکسا رہا ہے۔ بھارت سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے۔
اس کے لیے اسے گھاٹے کے سودے بھی کرنا منظور ہے۔ بھارت پاکستانی سیاستدانوں کومنہ مانگے داموں خرید رہا ہے۔ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی 'را'کے ایجنٹ پاکستان منتقل کر رہا ہے اور ان کی رسائی پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تک بھی ہو چکی ہے۔ بھارتی میڈیا ہر وقت پاکستان کے خلاف جنگ کو ہوا دے رہا ہے اور بھارت پٹھان کوٹ، اُڑی ، ممبئی حملوں یا ائیر بیس پر حملوں کی خود منصوبہ بندی کرکے سارا الزام پاکستان پر تھوپ رہا ہے۔ پاکستان کو تنہا کرنے کی عالمی سازش ہو رہی ہے۔
اور پھر ہمارے وزیر اعظم کا امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے شکوہ کرنا کہ پچھلی بار بارک اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک بھارت مسائل حل کرنے میں مدد کریں گے لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا لہٰذاانھیں یاد کرائیں کہ ہماری صلح کرائی جائے! میں نے چند ماہ قبل ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا کہ پاکستان میں وزیر خارجہ کیوںنہیں؟ اس کے اثرات آج اڑی حملوں کی صورت میںسامنے آرہے ہیں اورآیندہ بھی آتے رہیں گے کیونکہ دنیا بھر میں پاکستا ن کا چہرہ دکھانے والاکوئی نہیں۔ پاکستان کی نمایندگی کرنے والے کوئی نہیں۔ پاکستان پر لگے الزامات کا جواب دینے کے لیے کوئی نہیں۔ ہماری وزارت خارجہ کی ٹیم کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی یہ ہے کہ بھارت ہمیں کھلے عام اندر گھس کر مارنے کی دھمکیا ں دے رہا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے پرچم کو نذر آتش کیا جا رہا ہے اور افغان حکام بھارتی ایما پر آنکھیں دکھا رہے ہیں اور پاکستان کو اپنے حصے میں بھی باڑ لگانے سے روکے ہوئے ہیں۔ ایران جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا، وہ آج ہم سے نظریںچرا کربھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کر رہا ہے۔ چین ہمارا دوست ملک ہی صحیح لیکن معذرت کے ساتھ مفادات کی دنیا میں اُسے بھی اپنا مفاد سب سے پہلے نظر آرہا ہے۔ سعودی عرب کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بنگلہ دیش ہم سے سفارتی تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے ۔ امریکا پہلے ہی بھارت کی طرف پیار کے رشتے بڑھا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اس خطے کا دورہ کرنے آتے ہیںتو افغانستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کی سیر کر کے اور پاکستان کے خلاف زہر اگل کر چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا اسے مکمل نظرانداز کر دیا جاتا ہے یعنی اس وقت ہم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیںاور حکمران انتہائی خلفشار کا شکار نظر آرہے ہیں۔
قدرت نے پاکستان کو ایک بہترین جغرافیائی محل وقوع سے نوازا ہے مگر ہماری قیادتوں کی نااہلی نے موقع فراہم کرنے والی کھڑکی کو ایک عذاب مسلسل کی صورت میں تبدیل کردیا ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ''اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی'' اس میں قصور ہمارے محل وقوع کا نہیں بلکہ ہماری اپنی نااہلی کا ہے۔ قدرت نے ہمیں بے پناہ مادی وسائل اور افرادی قوت سے بھی نوازا ہے مگر ہم ایک قوم کے بجائے مختلف قومیتوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنے وسائل اور اپنی افرادی قوت کو بروئے کار لاکر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے ترقی معکوس کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں حالانکہ مصور پاکستان نے ہمیں بہت پہلے یہ کہہ کر خبردار کردیا تھا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب سے پہلے قومی اتحاد کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے پر توجہ دیں اور پاکستان کی امیج بلڈنگ پر توجہ دیں۔ خود کو اول و آخر پاکستانی کہلانے پر فخر کریں۔ ترقی اور خوش حالی کا راز قومی اتحاد میں مضمر ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کی شرط اول بھی یہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے قومی مفادات کا سودا کیے بغیر اپنی خارجہ پالیسی کو Pragmatism کی بنیاد پر وضع کریں، حالات کا تقاضا ہے کہ ہم بلاتاخیر ایک کل وقتی وزیر خارجہ مقرر کریں اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی پر معقولیت کے ساتھ نظر ثانی کریں۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
دہشت گردی کا حملہ دنیا بھر میں کہیں بھی ہو، کسی بھی جگہ یا علاقے میں ہو قابل مذمت ہے لیکن اس کے آفٹر شاکس دوملکوں کی تباہی کا باعث بھی بن سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کا میڈیا تیسری عالمی جنگ کی بات کر رہا ہے اور میں یہ بھی کہتا آیا ہوں کہ دونوں ممالک میں ان قوتوں کو تلاش کیا جائے جو امن نہیں چاہتیں ۔ پاکستان گھیرا جا چکا ہے۔ یہ حقیقت ہے ، اسے تسلیم کرنے ہی میںہماری بھلائی ہے ورنہ کسی دن ہم کسی آفٹر شاکس کے گھیرے میں آگئے تو خاکم بدہن بہت نقصان ہوگا!