جمہوری اقداراوربرد بار پاکستان دوسرا حصہ
عالم انسانیت کے تمام گروہوں یعنی اقوام عالم میں اپنی تاریخ سے رجوع کرنے کا نکتہ یکساں طور پر رائج ہے
اقدارکی تشکیل اور افراتفری: عالم انسانیت کے تمام گروہوں یعنی اقوام عالم میں اپنی تاریخ سے رجوع کرنے کا نکتہ یکساں طور پر رائج ہے ۔ حضرت انسان نے اپنے شکاری، قبائلی وگروہی ادوار سے لے کر موجودہ جدید لبرل و سوشل قومی تشخص حاصل کرنے اور لاکھوں تبدیلیوں کو اپنانے کے باوجود بھی اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کے عمل کو اسی تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے ۔ ان کے اس عمل سے ان کی اقدار تشکیل ہوتی آئی ہیں۔ چونکہ گروہوں میں بٹی عالم انسانیت کی تاریخ کرہ ارض کے مختلف خطوں میں تشکیل پاتی رہی ہے۔
اس لیے ممالک عالم پر رائج ان کی اقدار میں لاکھوں فروعی، نظری، فکری و علاقائی اختلافات بھی واضح طور دیکھے جاسکتے ہیں اوران اقدار کے دم پر ان کے معاشرے اور ریاستیں اپنا جو کاروبار زندگی چلانے میں مصروف کار رہتی آئی ہیں ان کی متضاد اشکال نے انسانی گروہو ں کی تقسیم کو اور زیادہ نمایاں کیا ہوا ہے۔ اہلِ نظر حضرات کے حضور عالم انسانیت کی تقسیم کے بنیادی اسباب کو سمجھنے کے لیے انھی اقدار کے اختلافات کی رنگینیوں کا پہلو غور طلب رہتا آیا ہے، چونکہ انسانی گروہوں میں ان کی جداگانہ اقدار ی رنگینیوں کو ان کی تاریخ کی اساس قراردیا جائے تو شاید کچھ ''بارگیر ''سر بھی اقراری صورت میں ہلتے ہوئے نظر آجاتے ہیں چونکہ موجودہ ارتقائی مرحلے پر جدید ترقی حاصل کرلینے کے نتیجے میں دنیا سکڑ چکی ہے مقامی اقدار پرعالمی اقدار چھا چکے ہیں ۔
چونکہ موجودہ جدید قدروں کی ابتداء یورپ سے ہوئی ہے۔ اس لیے بیٹھک میں رہنے والی ریاستوں کے انتظامی معاملات میں یورپی جمہوری قدروں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کے باعث یورپی تاریخ کی طرح ہر طرف اختلافات و تقسیم شدت اختیار کرنے لگے ہیں۔شاید اسی لیے ان کے لازمی نتیجے کے طور پر ممالک عالم پر ایک''افراتفری کا موسم'' چھایا ہوا ہے ۔
تجرباتی مرحلہ اور نقابیں: اگر کوئی یورپ کی تاریخ کو ملاحظہ فرمائے تو انھیں وہاں قبل مسیح اور صلیبی جنگوں کے صرف دو اہم اور بنیادی ارتقائی مرحلے دیکھنے کوملیں گے جن کی روشنی میں گزشتہ ایک ہزارسال کی ان کی تاریخ کو وہ اصلاحی و انقلابی ارتقائی مرحلہ(یعنی یورپ کی نشاۃ ثانیہ) کہہ لیں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا ۔ یورپ کی اسی نشاط ثانیہ میں تشکیل پانے والی جمہوری اقدار کی برکات سے آج الیگزینڈر کی ایک اکائی (مرکز) کا یورپ 51 مختلف انسانی گروہوں (ممالک ) کے براعظم کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور اپنی انفرادی و اجتماعی جدوجہد سے ان ممالک نے اپنی ان جدید اقدار کے فروغ و اطلاق کے لیے دنیا کے کونے کونے میں اپنے اپنے جھنڈے لہرا کر انھیں اپنے زیرنگیں کر لیا۔
تاریخ کا کیا خوبصورت نظارہ ہے کہ یورپ کے انھی جدید تشکیل شدہ جمہوری اقدار رکھنے والے ممالک اور ان سے متعلق انسانی گروہوں نے عالم انسانیت کے تمام گروہوں کے افرادی '' تعاون واشتراک''سے ان اقدار کی پاسداری کے لیے متحدہ ریاست ہائے امریکا جیسے ملک کو قیام پذیر ہونے کا شرف بخشا۔ مزیدار بات کہ ان جمہوری قدروں کے احیاء کے لیے یورپی ممالک کی جانب سے کی جانے والی تمام ''کوششوں'' کے دوران ہی ان کے باہمی اختلافات کے ابھرنے اور آپسی کشت و خوں کی بھیانک داستانیں تاریخ میں رقم کی جا چکی ہیں جنھیں ہم ان جدید جمہوری اقدار کا پہلا تجرباتی مرحلہ قرار دے دیں تو شاید اس عمل کو تاریخ کے طالب علموں کی گستاخی کے طور پر محسوس نہیں کیا جائے گا۔
تاریخ کے طالب علم کو اسی تجرباتی مرحلے کی روشنی میں موجوہ مرحلے پرامن عالم قائم کرنے اور انسانیت کی ہمہ گیر یکسانیت کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرنے کی قدروں کے مد مقابل ان جدید اقدار کی حقیقی اشکال کو بے نقاب ہوتے ہوئے دیکھے جانے کے امکانات صاف نظر آنے لگیں ۔
چل میرے ساتھ کبھی تو کسی ویرانے میں
میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوں
مجھ کو ضد ہے مِری بینائی رہے یا نہ رہے
تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں
ممالک کاقیام وحصول: یہ قدریں جارحانہ توسیع پسندی کے نتیجے میں برصغیر میں اپنا تسلسل لائیں تو یہاں کے انسانی گروہوں نے ان قدروں کی پاسداری میں آٹھ ریاستیں بنوالیے جانے کے نتائج حاصل کیے ۔ جن میں'' بنگلہ دیش کاقیام'' ان جدید (یعنی جمہوری )اقدار کی معراج کو بیان کرنے کا بہت سارا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے چونکہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور ان کی جدید مادی تحقیقات نے ہی ان ممالک میں ''ان'' کے مرتب شدہ نظریہ حیات کی روشنی میں مقامی آبادی کے ذہنوں میں ان کی تاریخی اقدار کو اس انداز میں رٹایا کہ مقامی انسان جدید جمہوری اقدار سے دوری کو ہی اپنی غلامی کی بنیاد قرار دینے پر مجبور ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں انھوں نے انھی جدید جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے کے وعدے پر یورپی ممالک ہی کی طرح اختلافات و تقسیم کی بنیاد پر اپنے لیے جداگانہ ممالک کا حصول یقینی بنایا تھا۔
پاکستانی وبنگلہ دیشی اقدار: صدیوں پر محیط اس تمام تر تاریخی منظر نامے میں مطالبہ پاکستان اپنا ایک الگ اور منفرد انداز فکر رکھتا ہے کیونکہ تاریخ عالم نے اپنی تمام ترسچائی کے ساتھ اس مطالبے کو شمس النہارکی مانند واضح کیا ہوا ہے کہ ''برصغیر کے مسلمان جدید طور پر رائج جمہوری اقدارکی روشنی میں اپنا ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کے تمام تر لوازمات پر پورا تو اترتے ہیں لیکن یہ اپنے ملک اور اس میں قائم ہونے والے معاشرے کو اپنی تاریخی اقدارکی روشنی میں چلانے کا جذبہ(عقیدہ) بھی رکھتے ہیں ، تاکہ رہتی دنیا تک پاکستان اپنے قیام کے مقصد سے وابستہ رہنے کے لیے کسی نئے اور بلاجواز حیلے بہانے بنانے سے بچا رہے۔ ''اقوام عالم کی تحاریک اور ممالک عالم کے قیام کی بنیادوں میں اس طرح کی کوئی دوسری مثال ملنا شاید ممکن نہ ہو۔
بلاشبہ یورپ کی نشاط ثانیہ سے پروان چڑھنے والی جدید جمہوری اقدار کا سیلاب ان خطوں سے قدیم اقدار و روایات کے تناوردرختوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا اور نئے سرے سے تعمیر کے بعد اب ان خطوں کے ممالک جدید جمہوری اقدار کی بہترین مثال بنے کرہ ارض پر موجود ہیں جن میں بنگلہ دیش کو شامل کیاجانا ناگزیرات میں سے شمارکیا جانے لگا ہے کیونکہ موجودہ تناظرمیں بنگلہ دیش جدید مقامی تشخص کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہوئے جدید جمہوری اقدار کی توسیع وفروغ کے لیے یورپ سے اٹھے ان اقدار کے سیلاب کو راستہ بنا کردینے والے ابتدائی ریلے کا کرداراداکرتے ہوئے ملتا ہے ۔
جس بنگلہ دیش کو جمہوری قدروں کی پیروی میں پاکستان کی تاریخی قدروں سے جڑے انسانوں کو جمہوری وسیع النظری کے مقتل کی جانب ہانکنے کے نیک کام کو سرانجام دینے میں اسی طرح برسرپیکار دیکھا جانا ممکن ہوا ہے جس طرح یورپ نے اپنی نشاۃ ثانیہ کو حاصل کرنے کے دوران جمہوری اقدار کے اطلاق کے لیے دیگر دیگر خطوں کے ساتھ ساتھ خصوصی طوربرصغیر میں''آنے ''اور''جانے ''کے عرصے کے دوران کیا تھا۔ تاریخ کی بے رحمی تو ملاحظہ فرمایے کہ برصغیر میں فتح بنگال سے لے کر 1858ء کی جنگ آزادی اور قیام پاکستان سے لے کر پاک چائنہ اکانومک کوریڈور کے مرحلے تک میرجعفر وصادق کے''ڈی این اے ''کا تسلسل انھی جدید جمہوری اقدار کامرہون منت رہتا آیاہے جنھیں قائد اعظم ؒنے اپنی جیب کے کھوٹے سکے بھی قراردیا ہوا تھا۔
پاکستان جس عظیم مقصد اور یورپی نشاۃ ثانیہ کی جمہوری اقدارکے مروج تقاضوں کے عین مطابق اور انتہائی حیرت انگیزطور پر ان کے مدمقابل اپنے ''اسلاف کی مقررکردہ اقدار'' کے عملی اطلاق کی خاطر معرض وجود میں لایا گیا تھا وہ ان سے آج بھی اسی طرح وابستہ و پیوستہ ہے ۔
ہر محاذ پرکشمیر یوں اور فلسطینیوں سمیت مظلوم انسانیت کی حمایت کا علم بلند کرتے رہنا اور اس کی پاداش میں سختیاں اور سازشوں کو جھیلتے رہنا اس کی ناقابل تردید مثالیں ہیں ۔ جب کہ اگرتلہ سازش،جناح پور، سندھودیش کے نعرے، بی ایل اے کا قیام، اے پی ایس و کوئٹہ جیسے سانحات سمیت 22اگست 2016ء کو ہونے والی ہرزہ سرائی کے باوجود اسمبلیوں میں ان کی شرکت کے برقرار رکھے جانے کے نکات بھی اس ضمن میںگنوائے جاسکتے ہیں۔اس لیے ہمیں بنگلہ دیش کے بن جانے کے ''نام نہاد صدمے''سے نکل کر جمہوری اقدار کے پیدا کردہ جدید مسائل سے نبردآزماء ہونے کے لیے اپنی تاریخ سے رجوع کرنا ہوگا جس کی روشنی میں ہمیں اپنے کسی' بھائی 'بہن یا 'باپ'سے بچھڑنے کا بے سبب سوگ منانے کی سرزنش سے مشابہ سخت ممانعت صاف نظرآئے گی اور اپنے ''اسلاف کی اقدار'' پرسختی سے عمل درآمد کا سبق ملتا رہے گا۔
(جاری ہے)