بھارتی حماقتیں
زندگی کے کئی شعبوں میں پاکستان سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان سے خوفزدہ رہتا ہے
زندگی کے کئی شعبوں میں پاکستان سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان سے خوفزدہ رہتا ہے جب کہ پاکستان کو بھارت سے خوفزدہ رہنا چاہیے کیونکہ بھارت پاکستان سے بڑا ملک ہے۔ ہر لحاظ سے بڑا، اس کے وسائل پاکستان سے زیادہ ہیں، اس کا فوجی سازو سامان پاکستان سے زیادہ رہتا ہے اور اس کی فوج پاکستان سے بڑی فوج ہے۔ اس کے فوجیوں کی تعداد اور ان کا اسلحہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان سے زیادہ ہے اور پاکستان کو بھارت سے ڈر کر رہنا چاہیے کیونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ پاکستان سے بہت بڑا لیکن ایک بات پاکستانیوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ بھارت کو پاکستان سے خطرہ کیوں رہتا ہے۔ دونوں ملکوں کی فوجی طاقت کو جنگ کے میدان میں دیکھا جا چکا ہے اور ان جنگوں میں کسی کو واضح فتح نہیں ملی۔
یہ دونوں فوجیں کبھی ایک میدان میں اور کبھی دوسرے میدان جنگ میں ایک دوسرے سے برتر بھی رہیں لیکن کسی بھی میدان جنگ میں فیصلہ کن مرحلہ پیش نہیں آیا کہ کون فاتح ہے اور کون مفتوح۔ دونوں ملکوں میں یہ جنگی دشمنی رہی ہے اور رہے گی بھی لیکن اس میں فتح وشکست کا فیصلہ ہونا بہت مشکل ہے۔ پاکستان ایک فوجی ملک ہے اس کے سابق سامراجی حکمرانوں نے پاکستان کے کئی علاقوں کو جنگی قوموں کا علاقہ بنا دیا تھا۔ جنھیں وہ مارشل ریسز یعنی فوجی نسلیں اور قومیں کہا کرتے تھے۔
اتفاق کی بات ہے کہ میں جس علاقے کا باشندہ ہوں وہ مارشل ریسز میں سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔ برطانوی فوج کا ایک بڑا حصہ ہمارے علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور جس کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں کہ اس علاقے کی فوج نے برطانوی کمان میں مکہ پر گولیاں چلائیں۔ جہالت کی انتہا میں ڈوبے ہوئے یہاں کے سپاہیوں نے انگریز فوجی کی کمان میں شاید یہ سب کچھ کیا بھی ہو لیکن سو فی صد نادانستہ۔ جو لوگ ان لوگوں کو جانتے ہیں وہ ان کی اس گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن چالاک انگریز فوج نے ان سے کچھ بھی کرا لیا ہو تو یہ شاید ممکن ہو لیکنباہوش و حواس یہ ممکن نہیں ہے۔
ہماری فوج برطانوی کمان میں بھی اپنے ایمان پر قائم رہی اور شرعی فرائض ادا کرتی رہی۔ ہمارے علاقے سے ان فوجیوں کی ایک بڑی تعداد تعلق رکھتی تھی اور انگریز کہا کرتے تھے کہ ہم ان مسلمان سپاہیوں پر اعتماد نہیں کر سکتے مگر ان لوگوں کو فوج میں لینا ان کی مجبوری تھی کیونکہ ان سے بہادر سپاہی انگریزوں نے دیکھا نہیں تھا کیونکہ یہ جس علاقے سے تعلق رکھتے تھے بہادری اور جان نثاری اس علاقے کا ایک شعار تھا اور وہ اس پر فخر کرتے تھے۔ برطانوی فوج کی ایسی کئی دستاویز بھی موجود ہیں جن میں انگریز کمانڈروں نے ان لوگوں کی بہادری کا اعتراف کیا ہے اور اپنی فوج کے لیے ان لوگوں کو ایک اثاثہ سمجھا ہے۔
انگریز اس علاقے میں بطور حکمران کے آئے تھے اور بطور حکمران موجود رہے۔ انھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران جو مشاہدے کیے وہ ان کے فوجی لکھنے والوں نے محفوظ بھی کر لیے جن سے پتہ چلتا ہے کہ جنگجو انگریز شاہ پور،کیمل پور، تلہ گنگ اور اس علاقے کے دوسرے کئی اضلاع کے سپاہی کو اپنی فوج میں پہلی ترجیح دیتے تھے اور اس کی وجہ ظاہر تھی کہ یہ سپاہی جان تک لڑا دیتے تھے جب کہ خود انگریز سپاہی بھی اس قدر جی داری سے جنگ نہیں کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے محکوم سپاہی ان کی جگہ میدان جنگ میں سامنے آئیں اور وہ اپنے آپ کو بچالیں۔
اب یہ زمانے گزر چکے ہیں۔ نہ وہ پرانی فوجیں ہیں اور نہ وہ جنگ کے میدان۔ اب تو بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ سپاہی نہیں اس کا اسلحہ لڑتا ہے۔ ایک سپاہی کے تحفظ کے لیے ایسے آلات اور ہتھیار تیار کیے جا چکے ہیں جو کسی سپاہی کو میدان جنگ میں اس کی ذاتی حفاظت کا سامان مہیا کر دیتے ہیں اور یوں ہر سپاہی ایک بہادر سپاہی بن جاتا ہے۔ وہ زمانے گئے جب ہر سپاہی اپنی حفاظت خود کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایسی کئی مثالیں آج بھی موجود ہیں کہ ہمارے کئی افسروں نے اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھیوں کی حفاظت کی اور فوجی تاریخ میں نام پایا۔
میں جنگ کے حالات سے ناواقف ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ ہمارے کتنے سپاہیوں اور افسروں نے اپنی زندگی دے کر اپنا فرض انجام دیا اور اس پر فخر کیا۔ ہماری فوج میں کئی ایک ایسے بہادر سپاہی ملتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کے لیے ایک زندہ مثال بن گئے اور انھوں نے جنگ کے میدان میں ایسے کارنامے دکھائے کہ ان کے ساتھی بھی حیران رہ گئے۔
مجھے معلوم نہیں کہ ہمارے افسر اور تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ساتھیوں کے کارنامے کہیں نقل کر رہے ہیں لیکن یہ کارنامے ایسے ہیں کہ وہ سپاہیوں کی زبانوں پر ہیں اور ان کی مثالیں ان کے جسم و جاں میں سرائت کر چکی ہیں۔ کسی جنگ میں ایک سپاہی کی جرات کی داستانیں اس سپاہی کی زندگی ہوا کرتی ہیں اور وہ اسے اپنی زندگی کا ایک بڑا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ ان سپاہیوں کی پوری زندگی ان کارناموں کو بیان کرتے گزر جاتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی نئی نسل ان کارناموں کو اپنے لیے مثال بنا لے۔ ان دنوں بھارت جس طرح پاکستان پر رعب جھاڑنے کی کوشش کر رہا ہے اسے پاکستانی قوم کے جواب کا اندازہ نہیں ہے یہ سب اس کی حماقتیں ہیں۔