ایم کیوایم کا سیاسی حل
سیاست کے کچھ اصول ہوتے ہیں، ان ہی میں سے ایک اہم اصولسیاسی جماعت کی قیادت کا اختیارہوتا ہے
سیاست کے کچھ اصول ہوتے ہیں، ان ہی میں سے ایک اہم اصولسیاسی جماعت کی قیادت کا اختیارہوتا ہے۔اس بات کا فیصلہ اسی جماعت کے رہنما کرتے ہیں کہ ان کا قائدکون ہوگا اورجہاں قائد، جماعت کا بانی ہو وہاں وہی قیادت تاحیات سنبھالتا ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم محمدعلی جناح نے، جماعت اسلامی کی قیادت مودودی نے، پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ذوالفقارعلی بھٹو نے تاحیات سنبھالی تھی ۔
اسی طرح ایم کیوایم کی قیادت قائد تحریک بھی تاحیات سنبھالتے، اگر انھوں نے حب الوطنی کی حدودکوعبورنہ کیا ہوتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پارٹی کی تنظیمی تربیت کی بنیاد پر ''منزل نہیں رہنما چاہیے'' کا نعرہ وجود میں آیا اور کارکنان کی تربیت بھی اسی انداز سے رہی کہ پارٹی کے بانی ہی ایم کیوایم بن گئے۔ جب پارٹی نے اپنے قائدکو علیحدہ کرنا چاہا یا کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کی روح نکل گئی اور پارٹی بے جان ہوگئی۔
اس لیے اگر پارٹی کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اور سینیٹ پارٹی کے وجو دکو باقی رکھنا چاہتے ہیں توانھیں پہلا قد م یہ اٹھانا ہوگا کہ تمام ممبران پارلیمنٹ سے فوراً استعفیٰ دیں اور پھریہ سب ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکر اپنا نئے نام اورنئے قائدکا انتخاب کریں تو شاید سندھ کے شہری علاقوں کی اکثریت اس نئی پارٹی اورنئی قیادت کو قبول کرلے گی، ورنہ ڈاکٹرفاروق ستار کسی طور پر اس پارٹی کو سنبھال نہیں سکیں گے اوران کے ووٹرزکا شیرازہ بکھرجائے گا۔ نئی جماعت میں پی ایس پی اورحقیقی کو بھی ضم ہونے کی دعوت دی جائے اورصاف شفاف طریقے سے پارٹی قیادت کا انتخاب ہو، تاکہ اس میں جمہوری روح نظرآئے۔
چاہے اس پارٹی کے قائد فاروق ستار یا مصطفی کمال یا آفاق احمد چنے جائیں ، یہ فیصلہ پارٹی کے کارکنان ہی کرسکتے ہیں اور پارٹی کا نیا آئین اوردستو ر بھی بنائیں جو ایم کیوایم کا تھا لیکن اس میں تبدیلی ہوکہ پوری سیاسی تنظیم اس علا قے کی قیادت کے توسط سے چلائی جائے نہ کہ یونٹ آفس اورسیکٹرآفسزکے ذریعے ۔ تنظیم کا بڑا نقص تھا کہ تمام کارکنان نے تمام یونٹس کو علاقے کے ایم پی اے ۔ایم این اے ، سینیٹراوربلدیاتی اراکین کے لیے شجرممنو عہ بنا رکھا تھا، نیزپارٹی کی تشکیل مہاجر قوم کی بنیاد پر نہیں بلکہ متوسط طبقے کے لوگوں کی بنیاد پر اور فیوڈل سسٹم کے خلا ف جدوجہد پر مبنی ہو۔ تاکہ اسے لسانیت اورصوبائیت سے دوررکھا جائے اور اس میں وفاق پرستی اورپاکستانیت کی بنیاد پرچلایا جائے۔ایم کیو ایم میں بہت قابل سمجھدار اوردرمیانے طبقے کے افرادکی کمی نہیں ہے اگرکمی ہے تو سیاسی قیادت اوراظہار رائے پر پابندی کی،ان خرابیوں کودورکردیا جائے۔ یہی وہ حل ہے جس سے ایم کیوایم کا شیرازہ نہیں بکھر ے گا۔اس کے علا وہ جس نہج پراس پارٹی کی موجودہ کاوشیں ہیں وہ وقت کا ضیاع ہیں۔
سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ آیندہ جب بھی عام انتخابات ہوں گے تو اس میں ہرجماعت کو فری ہینڈ دیا جائے گا اورکوشش یہ ہوگی کہ سندھ کے شہری علاقوں میں خاص طور پرکراچی اورحیدرآباد میں کسی ایک جماعت کی سیاسی اجارہ داری نہ رکھی جائے کیونکہ چین سے سی پیک معاہدے کے سلسلے میں راہداری پر جو معاملات طے ہوئے ہیں، اس کی منصوبہ بندی اوراس کو پائے تکمیل تک پہنچائے اوراس کے مثبت نتائج کا تعلق سندھ کے بڑے شہرکراچی میں امن عامہ سے ہے۔
اس لیے پاک فوج ، رینجرز اور سندھ پولیس مل کر یہاں کے حالات کو بہتربنانے میں سرتوڑکوششیں کررہی ہے اور رینجرز نے گزشتہ تین سالوں میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے یہاں کی مافیازکو قابوکیا ہے جب کہ اب بھی یہ مافیا جولینڈمافیا، بھتہ خوری، وغیرہ میں ملوث ہیں جنھوں نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں وہ اس وقت تک کمزور نہیں ہوں گے جب تک ان مافیازکے غیرقانونی اقداما ت کے خلا ف کارروائی نہ ہو جب تک ان کے سہولت کاروں اور حکم چلانے والوں کی نشاندہی اوران کوکیفرکردار تک نہیں پہنچایا جائے گا۔
ان مافیاز سے عوام کی گلو خلاصی نہیں ہوگی۔ یہ شہرمعاشی ہب ہے اور پاکستان کے کونے کونے سے لوگ آکر یہاں آباد ہوئے ہیں ۔اس لیے اس شہرکوکسی ایک قوم سے وابستہ کرنا ہماری خام خیالی ہوسکتی ہے یہ شہر سب کا ہے۔ شہرکی ترقی کا راز امن وامان کی بحالی میں ہے، جہاں عام آدمی، تاجر، صنعت کار سب اپنی آمدنی کو بہتر بناسکیں اورجو لوگ یا ادارے بھی اس شہرکو پرامن اورترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں انھیں فوری طور پر شہرکے انفرا اسٹکچرکو بحال کرنا ہوگا۔اس کام کے لیے گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان، وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ ، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹوکواہم اقدامات کرنا ہونگے اور اس شہر میں پانی، بجلی،گیس، سڑکیں اورٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی اورصوبائی بجٹ میں خصوصی رقم مختص کرنا ہوگی۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہے، اسے امن کی ضرورت ہے ایسا امن جو دائمی ہو اور اس میں جرائم کا سدباب ہو ، شہریوں کو مکمل سہولتینںحاصل ہوں ۔ کسی بھی میٹروپولیٹن شہر کے تہذیبی اور تمدنی معیار کا اندازہ بلاشبہ تعلیم ، صحت، روزگار اور امن و سکون کا اندازہ بعد میں لگایا جاسکتا ہے لیکن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم وہ آئینہ ہے جس میں غیر ملکی سیاح اسی وقت فیصلہ دے سکتے ہیں کہ یہ جنگل جیسا معاشرہ ہے اور اس میں تہذیب ٹرانسپورٹ مافیا کے قبضہ میں نڈھال سی ہوگئی ہے۔ کراچی کے 30 فیصد سماجی اور اعصابی مسائل میں ٹرانسپورٹ کی ذلت بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ سندھ انتظامیہ بڑی بسیں سڑکوں پر لائے تو از خود شہریوں پر پڑنے والا روزمرہ کا ذہنی دباؤ سکون میں بدل جائے گا۔مجھے یقین ہے کہ جب مئیر وسیم اختر اور ڈپٹی میئر ارشد ووہرہ فل ایکشن میں آئیں گے تو بلدیاتی افق پر بہت فرق پڑے گا۔ مقامی حکومت کراچی کا نقشہ بدلنے اور اسے ایک نیا اور جدید روڈ میپ دینے مین اہم کردار ادا کر سکتی ہے بشرطیکہ اسے وافر فنڈز ملیں اور فری ہینڈ بھی۔