بجلی پیدا کرنے کے لیے رکازی ایندھن کی ضرورت نہیں رہے گی

فرانس میں’’ آئی ٹی ای آر‘‘  پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا گیا 


غزالہ عامر September 22, 2016
فرانس میں’’ آئی ٹی ای آر‘‘  پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا گیا  ۔ فوٹو : فائل

روئے زمین پر کاروانِ حیات کو جاری رکھنے میں کلیدی کردار برقی توانائی یعنی بجلی کا ہے۔ ایک چھوٹی سی ٹارچ سے لے کر بڑی بڑی فیکٹریاں اور ان میں لگی مشینیں توانائی کی اِس شکل کی محتاج ہیں۔

اسی طرح عام زندگی میں بھی جان اِسی کے دَم سے ہے۔ اگر روئے زمین سے بجلی ختم ہوجائے تو انسان لمحوں میں گویا پتھر کے دور میں واپس چلا جائے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے انسان کا زیادہ انحصار اب بھی رکازی ایندھن یعنی زمین سے نکلنے والے تیل پر ہے۔ یہ تیل فرنس آئل کی صورت میں بہ طور ایندھن بجلی بنانے والے پلانٹس میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے حاصل کردہ ڈیزل بجلی پیدا کرنے والے جنریٹروں کو چلاتا ہے۔

آبادی میں اضافے اور معاشی، صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بڑھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی طلب بھی بڑھتی جارہی ہے، جسے پوری کرنے کے لیے متبادل ذرایع جیسے دھوپ، ہوا وغیرہ سے بھی استفادہ کیا جارہا ہے۔ تاہم توانائی کے حصول کے مزید ذرایع کی کھوج مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں امریکی سائنس دانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے عملی روپ دھارنے کے بعد کرۂ ارض کو لامحدود توانائی دست یاب ہوگی اور بجلی کی قلت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ جائے گا۔

امریکی محکمۂ توانائی کے ذیلی ادارے ''پرنسٹن پلازما فزکس لیبارٹری'' ( پی پی پی ایل) کے محققین نے ایک ایتلافی آلے ( فیوژن ڈیوائس) کی تیاری کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے ذریعے اسی طرح توانائی پیدا کی جائے گی جیسے سورج اور ستارے عمل ایتلاف ( پگھلاؤ) کے ذریعے پیدا کرتے ہیں۔ اس منصوبے کی کام یابی کے بعد رکازی ایندھن پر انسان کا انحصار بالکل ختم ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے پی پی پی ایل میں حال ہی میں پایۂ تکمیل کو پہنچنے والے نیشنل اسفیریکل ٹورس ایکسپیریمنٹ اپ گریڈ ( NSTX-U) کے پروگرام ڈائریکٹر جوناتھن مینارڈ کہتے ہیں کہ ہم مستقبل کے پاور پلانٹس کے لیے نئے آپشن پیدا کررہے ہیں۔

منصوبے کو عملی شکل دینے کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے سائنس دانوں نے Spherical tokamaks بنالیے ہیں۔ یہ پیچیدہ آلات دراصل فیوژن ری ایکٹرز ہیں جو فیوژن انرجی ( عمل ایتلاف سے حاصل ہونے والی توانائی) کے حصول کے لیے اگلے اقدامات وضع کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے لیے پی پی پی ایل کے اندر فیوژن نیوکلیئر سائنس فیسیلٹی ( ایف این ایس ایف) قائم کردی گئی ہے جہاں ری ایکٹرز کے پرزے تیار کیے جائیں گے اور یہیں پائلٹ پلانٹ کے طور پر فیوژن انرجی پیدا کی جائے گی۔ کام یاب تجربات کے بعد تجارتی فیوژن پاور اسٹیشن کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔

جوناتھن مینارڈ کے مطابق پی پی پی ایل کی مشینری کی اپ گریڈیشن کے بعد NSTX-U اور ایف این ایس ایف طبیعیات کے افق کو مزید وسعت دیں گی، انتہائی بلند درجۂ حرارت کے حامل پلازما کے بارے میں ہمارا علم بڑھائیں گی اور اس منصوبے کی کام یابی کی صورت میں فیوژن ری ایکٹرز کے مزید پیچیدہ ڈیزائن کے لیے سائنسی بنیاد فراہم کریں گی۔

فیوژن ری ایکٹرز کے سلسلے میں سائنس دانوں کو طبیعیات سے جُڑے کئی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ مثال کے طور پر انتہائی گرم پلازما ذرات کے طاقت وَر مقناطیسی میدانوں سے گزرنے پر رفتار اور دباؤ میں جو بے قاعدگی پیدا ہوتی ہے اسے کنٹرول کرنا ناگزیر ہوگا۔ اس کے علاوہ انھیں پلازما ذرات کے ری ایکٹر کی دیواروں کے ساتھ تعامل کو بھی بہ صد احتیاط کنٹرول کرنا ہوگا کہ کہیں پلازما زیادہ گاڑھا یا اس میں ملاوٹ نہ ہوجائے، کیوں کہ ایسی صورت میں ایتلافی تعاملات رُک جائیں گے۔ دیگر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ری ایکٹرز کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ پی پی پی ایل کے سائنس داں ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے راستے تلاش کررہے ہیں۔

ری ایکٹرز کا کروی ڈیزائن انتہائی بلند دباؤ پر پلازما پیدا کرتا ہے ( پلازما دراصل انتہائی گرم اور باردار گیس ہوتی ہے جسے مادّے کی چوتھی حالت بھی کہا جاتا ہے اور یہ مقناطیسی میدانوں ایتلافی تعاملات کی وقوع پذیری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ کروی ری ایکٹرز کی یہ خصوصیت ITER میں ایتلافی تجربات کے لیے درکار اگلی نسل کے ری ایکٹرز کی بنیاد بن سکتی ہے۔ International Thermonuclear Experimental Reactor (ITER) ایک بین الاقوامی پروجیکٹ ہے، جسے امریکا سمیت پینتیس ممالک فرانس میں تیار کررہے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد ایتلافی توانائی کی فزیبلٹی جانچنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فیوژن ری ایکٹرز سے جُڑے مسائل کا حل نکالنے پر تحقیق جاری ہے۔ انھیں امید ہے کہ جلد یا بدیر وہ یہ رکاوٹیں پاٹنے میں کام یاب ہوجائیں گے جس کے بعد توانائی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے انسان کا رکازی ایندھن اور دیگر ذرایع پر انحصار ختم ہوجائے گا اور لامحدود مقدار میں توانائی دست یاب ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں