برصغیر کی ’’ری برتھ‘‘
سوال یہ ہے کہ پاک بھارت دوستی اس وقت اتنی ضروری کیوں ہو گئی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھی؟
بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ بھارتی رائے عامہ پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی حامی ہے تاہم ایک لابی چاہتی ہے کہ غلطیوں سے بچنے کے لیے احتیاط کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ اس عمل کی رفتار نہ اتنی تیز ہونی چاہیے کہ کنٹرول میں نہ رہے اور نہ اتنی سست ہو کہ عوام مایوس ہو جائیں ہمیں احتیاط اور تحمل سے آگے بڑھنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاک بھارت دوستی اس وقت اتنی ضروری کیوں ہو گئی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھی؟ تو صاحبو! اس کا آغاز سوویت یونین کے خاتمے سے ہوتا ہے۔ جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف گلوبل سامراج فیصلہ کن جنگ لڑ رہا تھا تو عین اسی وقت پاکستان میں 85ء میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا آغاز ہو رہا تھا جس کی لگامیں ضیاء الحق کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی تجربہ ترکی، فلپائن اور جنوبی کوریا میں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ گلوبل سامراج سوویت یونین کے خلاف جنگ 84ء میں ہی جیت چکا تھا، اب صرف یہ فیصلہ کرنا رہ گیا تھا کہ سوویت افواج کا افغانستان سے انخلا کب اور کیسے ہو۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان جو فرنٹ لائن اسٹیٹ تھی ،سامراج ضیاء الحق کی فوجی آمریت کی جگہ پاکستان میں محدود جمہوریت کا تجربہ نہ کرتا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد محدود جمہوریت امریکا کی ضرورت تھی۔ مکمل جمہوریت تو امریکا یورپ سمیت کہیں بھی نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ممکن ہی نہیں ہے سوائے ''عوامی جمہوریت'' کے جس میں اقتدار کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ گلوبل سامراج کے نزدیک بذات خود کوئی مقصد نہیں تھا۔ اصل مقصد اس خاتمے سے امریکا کا دنیا کے انرجی وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا جو بیشتر مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیا میں ہیں۔ اپنا ایک سپاہی مروائے بغیر امریکا دنیا کا بادشاہ بن گیا۔ امریکی سامراج کے طویل المیعاد منصوبوں میں جس پر سرد جنگ کے دوران عمل کیا گیا پہلا مرحلہ سوویت یونین کا خاتمہ تھا۔ دوسرا مرحلہ دنیا میں انرجی ذرایع پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔
اس کے لیے افغان مجاہدین کو تخلیق کیا گیا۔ امریکا نے انھیں بھر پور طور پر استعمال کیا' انھیں تخلیق کر کے کہ ایک طرف سوویت یونین کا خاتمہ کر دیا تو دوسری طرف مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیا کے قدرتی ذرایع پر قبضہ کر لیا جب کہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف جہاد ہی کرتے رہ گئے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی لیے شروع کی گئی تھی کہ دنیا کے انرجی ذرایع پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
امریکا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کا بادشاہ بن تو گیا تھا لیکن دنیا پر اپنی بادشاہت برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ انرجی وسائل پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کیا جائے جو اس کے بغیر ناممکن تھا۔ اس کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ شروع کی جائے۔ یعنی ایک تیر میں دو شکار کیے گئے۔ یعنی افغانستان پر کنٹرول حاصل کر کے جو گیٹ وے ٹو سینٹرل ایشیا ہے۔ دوسرا خود ان طالبان کا خاتمہ مقصود تھا جن کو ایک زمانے میں افغانستان میں امریکی جہاد کے دوران امریکا نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر مجاہدین کے لقب سے نوازا تھا جن کو بدلی ہوئی صورت حال میں اب دہشت گرد قرار دینا ہے۔
ہم جیسے ملکوں میں سرد جنگ کے دوران امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے فوجی آمریتوں کا وجود ناگزیر تھا لیکن اب جب طالبان نے جمہوریت سیکولرازم لبرل ازم کو چیلنج کر دیا ہے تو ان کا مقابلہ جمہوریت سے ہی کیا جا سکتا ہے جس کا تحفظ محدود جمہوریت کے ذریعے کیا جائے گا۔ پہلے سیاست اور سیاستدانوں پر ''چیک'' فوج کا ہوتا تھا۔ خطے کے حوالے سے بدلی ہوئی پالیسی کے تحت جسے ری برتھ آف مڈل ایسٹ کہا جاتا ہے۔ جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اب یہ رول ''بتدریج'' اعلی عدلیہ سنبھال رہی ہے ۔ آپ ذرا سوچ و فکر کے سمندر میں غوطے لگائیں تو آپ کو بھی بہت جلد اندازہ ہو جا ئے گا کہ یہ کردار کیوں دے دیا گیا ہے؟ ماضی میں جب فوج جمہوریت اور سیاستدانوں پر چیک کرتی تھی تو ملکی و بین الاقوامی سطح پر مزاحمت اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب جب سیاستدانوں کے احتساب کے عمل پر سب کو اطمینان ہے۔
یہ ایک بڑی ہی نازک اور حساس صورتحال ہے جس کا عالمی سٹرٹیجک مفادات سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستانی عوام کو جمہوریت کی مزید مقدار دی گئی ہے لیکن ایسی مقدار جو ان کا معدہ برداشت کر سکے حفظ ما تقدم کے طور پر تا کہ انھیں بدہضمی نہ ہو جائے جس طرح 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو دور میں ہوئی۔ اگر ایسی صورت مستقبل میں درپیش آتی ہے اور سیاستدان اپنی حد سے باہر نکلے تو عدلیہ توموجود ہے۔ یعنی اب فوج کے ذریعے نہیں محدود جمہوریت کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں گے ۔ جیسے آج کل ترکی کر رہا ہے۔
امریکا سمجھتا ہے کہ طالبان کی موجودگی میں پاکستان میں فوجی آمریت کا تجربہ انتہائی تباہ کن ہو گا جس میں سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور خطے میں امریکی مفادات پھر ایک مرتبہ داؤ پر لگ جائیں گے جس کو ''امریکی بہار عرب'' کی شکل میں بحال کیا گیا ہے۔ ری برتھ آف مڈل ایسٹ جاری ہے سوائے اس مختصر عرصے کے جب لبنانی حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کو شکست ہوئی۔ اسی کا ''ثمر'' ہم ''امریکی بہار عرب'' کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ مصری صدر مرسی کے خلاف جو آج کل مزاحمت عدلیہ کی چل رہی ہے، اسے اگر آپ اس پس منظر میں دیکھیں جو میں نے اپنے تجزیے میں بیان کیا ہے تو آپ بہت جلد اصل بات کی تہہ میں پہنچ جائیں گے۔ یعنی اب خطے میں پاکستان سمیت کوئی بھی جمہوری حکمران اس طے شدہ امریکی پالیسی سے انحراف نہیں کر سکے گا جس میں بالا دستی عدلیہ کی ہو گی ... صدر مرسی اس طے شدہ پالیسی سے انحراف کر رہے ہیں جو امریکا نے مصر میں انتقال اقتدار کے وقت طے کی تھی۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی پاک بھارت دوستی کی، یہ دوستی بھی اسی ری برتھ آف مڈل ایسٹ پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ جس میں آخری نتیجے میں پاک بھارت دوستی کی شکل میں یونائٹیڈ برصغیر کی ''ری برتھ'' کا عنوان دینے کی کوشش کی جائے گی۔ امریکی نقطہ نظر سے صرف اسی طریقے سے ہمارے خطے میں دہشت گردوں اور دہشت گردی (بنیاد پرستی) کی جنگ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ... رہے نام اللہ کا ...
2013ء خطے اور پاک بھارت تعلقات میں تاریخی اہمیت کا سنگ میل سال ہو گا۔ جس کا آغاز جنوری 2013ء اور خاص طور پر مارچ اپریل سے جون جولائی 2013ء کے درمیان کے عرصے میں ہو جائے گا۔