وہ بہت یاد آیا
پچھلے دنوں جتنے دن بھی کراچی میں رہا زیادہ تر شامیں کراچی پریس کلب سے جڑی رہیں
پچھلے دنوں جتنے دن بھی کراچی میں رہا زیادہ تر شامیں کراچی پریس کلب سے جڑی رہیں، جس صحافی دوست، شاعر یا ادیب سے ملاقات کی سوچتا وہ کسی نہ کسی شام پریس کلب ہی میں مل جاتا تھا اور میری اکثر و بیشتر شام کی چائے پریس کلب ہی میں ہوتی تھیں۔ امتیاز فاران ہو یا فاضل جمیلی، ستارجاوید ہو یا علاؤالدین خانزادہ ، ان سب کی محبتیں بھی مجھے یہیں ملتی رہیں۔
یہ ایک ایسی ہی سہانی شام تھی، میں پریس کلب کے لان میں اویس ادیب انصاری، شگفتہ فرحت اور آفتاب زیدی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران فوٹوگرافر دوست محمود الحسن نے کہا کہ غزل جعفری بھابی آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے اپنا نمبر دیا ہے، غزل جعفری، میرے بہت ہی دیرینہ دوست اسد جعفری مرحوم کی بیگم ہیں اور بہت اچھی شاعرہ ہونے کے ساتھ کراچی میں ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم کی روح رواں بھی ہیں۔ میں نے گھر جاکر انھیں فون کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری تنظیم کی طرف سے آپ کے ساتھ ایک شام کے لیے مجھے آپ کی تلاش تھی اور یہ کام فوٹو گرافر محمود الحسن کے ذمے لگایا تھا۔
آج آپ اسے مل گئے تو ہماری بات بھی ہوگئی، میں نے معذرت کے ساتھ کہا مجھے تو خود آپ کے نمبرکی تلاش تھی۔ خیر آپ سے ایک طویل عرصے کے بعد بات ہورہی ہے جس بات کی مجھے بھی بڑی خوشی ہے مجھے آپ کے گھر کی کئی خوبصورت تقریبات آج بھی خوب یاد ہیں جب اسد جعفری کے ساتھ محفلیں سجتی تھیں۔ پھر میں نے انھیں بتایا کہ میں تو چار دن کے بعد واپس امریکا جارہا ہوں، کل میری کتاب ''یادیں باتیں فلم نگر'' کی رسم اجرا کی تقریب ہے اس میں آپ تشریف لائیں گی تو مجھے بہت خوشی ہوگی اور جہاں آپ کی تقریب ادھار رہی یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔
اور پھر اسد جعفری کا مسکراتا چہرہ میری آنکھوں میں سما گیا ،اسد جعفری ایک بے باک فلمی صحافی تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر رہے گا کہ وہ ایک طلسماتی شخصیت کا مالک تھا اور وہ فلم انڈسٹری میں سب کا یار غار مشہور تھا، سب اسے جعفری بھائی کہہ کر پکارتے تھے اور واقعی وہ بھائیوں ہی کی طرح سب سے بڑی محبت اور بے تکلفی سے ملا کرتا تھا، فلمی دنیا کے سینئر فنکار ہوں یا جونیئر سب اس کی شخصیت سے پیارکرتے تھے، درپن، سنتوش کمار، لالہ سدھیر، سلطان راہی، محمدعلی، ندیم، وحید مراد، رنگیلا اورمصطفیٰ قریشی وہ سب کی گڈبک میں رہتا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جتنا مرد فنکاروں میں مقبول تھا اتنا ہی خواتین فنکاروں میں بھی ہردلعزیز تھا۔
صبیحہ خانم سے لے کر شمیم آرا، شبنم سے لے کر بابرا شریف تک سب ہی کا وہ جعفری بھائی تھا اور یہ اعزاز فلمی دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے فلمی صحافی کو نصیب ہوا ہو۔ اسد جعفری جس محفل میں بھی ہوتا تھا، اس کی شگفتہ باتوں اور اس کے لطیفوں سے وہ محفل زعفران زار ہوجایا کرتی تھی۔ وہ قلم کار بھی اچھا تھا اور فوٹوگرافر بھی خوب تھا۔ کراچی میں سب سے پہلے ایک بڑے مقامی روزنامے میں اس نے لکھنا شروع کیا اور پھر اسی ادارے کے ایک ہفت روزہ میں اس نے سوشل راؤنڈ اپ کی داغ بیل ڈالی تھی، میں جتنا بھی اسد جعفری کے بارے میں سوچتا جا رہا تھا اس کی یادوں کے دفتر کھلتے چلے جا رہے تھے۔انھی دنوں کراچی کے ایک روزنامہ اخبار میں اقبال احمد خان فلمی صفحے کے انچارج تھے۔
اسد جعفری اوراقبال احمد خان کی دوستی مثالی تھی اور ان کی دوستی پگڑی بدل بھائیوں کا روپ اختیارکرگئی تھی۔ میری ان دونوں فلمی صحافیوں سے بڑی اچھی دوستی تھی اور اکثروبیشتر ہم جب کسی جگہ کسی محفل میں یکجا ہوا کرتے تھے تو قہقہوں کی رم جھم کا سماں ہوتا تھا یہ دونوں ان دنوں بڑے مقبول فلمی صحافی ہونے کے ساتھ فلمی دنیا میں بھی اپنا بڑا اثرورسوخ رکھتے تھے اور بہت سے نئے چہروں کو ان دونوں صحافیوں نے فلمی دنیا سے روشناس کرایا تھا۔
ایک بار اقبال احمد خاں کو انتظامیہ نے فلمی پیج سے ہٹا دیا تو پھر اسد جعفری کی دوستی نے بڑا کام دکھایا۔ اداکار محمدعلی نے اخبارکے مالکان کو فون کیا کہ اقبال احمد خان کی طرف سے آپ کسی کی غلط شکایت یا پھرغلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں وہ بہت مخلص اور اچھا انسان ہے اور پھر محمدعلی کے فون کے بعد اقبال احمد خان کو دوبارہ فلمی صفحے کا انچارج بنادیا گیا تھا۔
جس طرح اسد جعفری کے گھر پر، موسیقی، شاعری اور دوستوں کی محفلیں ہوتی تھیں۔ اسی طرح اقبال احمد خان سے میری پہلی ملاقات ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم کے سیٹ پر ہوئی تھی اور پھر یہ ملاقات بے تکلف دوستی میں بدل گئی تھی۔ ہدایت کار اقبال یوسف بھی ایک محبوب شخصیت کے مالک تھے کبھی کبھی جب اقبال یوسف، اقبال احمد خان اور اسد جعفری یکجا ہوتے تھے تو محفل میں لطیفوں کے ساتھ ساری ساری رات گزر جاتی تھی۔
ایک بار اقبال احمد خان نے کہا یار میری ایک خواہش ہے کہ میری موت اتنے شاندارطریقے پر ہوکہ میرے انتقال کی خبریں اخبارات کے پہلے صفحے پرشایع ہوں۔ نہ جانے وہ کیسا وقت تھا کہ اس وقت نے اقبال احمد خان کی بات کو اپنی گرہ میں باندھ لیا اور پھر ہونے والی بات کچھ اس طرح ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد جنرل ضیا الحق نے صدر پاکستان کی حیثیت سے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں اقبال احمدخان بھی اگلی صفوں میں موجود تھے۔
اسی پریس کانفرنس میں کامران خان نے اپنے صحافتی کیریئر کا پہلا سوال جنرل ضیا سے کیا تھا، سینئر صحافی یوسف خان ، نادرشاہ عادل بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے، صدرضیا الحق سے اقبال احمد خان نے سوال کا آغاز ہی کیا تھا کہ اقبال احمد خان پر دل کا شدید دورہ پڑا، اور وہ چشم زدن میں اپنی نشست پر گر گئے، صدرکی تقریر رک گئی، ایمبولینس بلا لی گئی۔ تقریب میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی اور پھر دوسرے دن تمام اخبارات کے پہلے صفحے پر اقبال احمد خان کے انتقال کی خبر نمایاں طور پر شایع کی گئی تھی۔
مجھے وہ مناظر بھی آج تک یاد ہیں جب اقبال احمد خان کے جنازے کو آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو اسد جعفری نے جنازے کو روک لیا اور دھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ میرے دوست تُو بڑا بے وفا نکلا، آج مجھے چھوڑ کر اکیلا جا رہا ہے۔ اسد جعفری اس وقت اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا بڑی مشکل سے اسے دوستوں نے سنبھالا تھا اور پھر کچھ دنوں تک اسد جعفری عجیب دیوانگی کی کیفیت میں مبتلا رہا تھا کافی دنوں بعد یہ نارمل ہوا تھا۔
پھر چند سال کے بعد اسد جعفری پر فالج کا حملہ ہوا اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا، اس کے جسم کا آدھا حصہ متاثر تھا صرف ایک ہاتھ کام کر رہا تھا اور اس کا یہ حوصلہ تھا کہ یہ اسپتال سے بھی کئی کالم لکھتا رہا اور لوگوں کے پیغامات کے جوابات دیتا رہا اسپتال کی انتظامیہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی تھی کہ سیکڑوں کی تعداد میں اس کے دوست احباب اور پرستار اس سے ملنے روزانہ آتے تھے، حکیم سعید جیسی شخصیت سے لے کر ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے نابغہ روزگار لوگ شامل تھے۔
یادوں کی کتاب کسی طرح بند ہونے میں نہیں آرہی ہے تو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسد جعفری فلمی صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اداکار بھی تھا بلکہ اس کی شناخت سے پہلے بحیثیت اداکار مشرقی پاکستان میں بنائی گئی ایک فلم ''ہمسفر'' سے ہوئی جس کے ہدایت کار شوکت ہاشمی تھے اس میں اسد جعفری نے ڈیبو کیا تھا اور اس پر فلم کا سب سے زیادہ ہٹ گیت فلم بند کیا گیا تھا۔ جو سلیم رضا نے گایا تھا اور جس کی موسیقی مصلح الدین نے مرتب کی تھی، گیت کے بول تھے:
زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ
فلم میں زیادہ تر نئے آرٹسٹ تھے اور پھر وہ مشرقی پاکستان کی ابتدائی فلموں سے ایک فلم تھی۔ جو فلاپ ہوگئی تھی۔اس فلم کے بعد اسد جعفری نے بہت سی فلموں میں دوست ہدایت کاروں کے کہنے پر چھوٹے چھوٹے کردار بھی ادا کیے مگر اداکاری اس کا میدان نہیں تھی یہ صحافت کے میدان کا کھلاڑی بن کر منظر عام پرآیا تو جب تک زندگی رہی کامیاب رہا کیونکہ اس کا رزق بحیثیت قلم کار لکھا ہوا تھا۔
اسد جعفری نے پہلی شادی ایک ایئر ہوسٹس سے کی مگر وہ فضائی میزبان بحیثیت بیوی کے بہت کم عرصہ اس کے گھر کی مہمان رہی۔ اس کے بعد غزل جعفری پھر اسد جعفری کی شریک حیات ہوئیں اور اسد جعفری کے ساتھ اس کے آخری وقت تک اپنا مثالی کردار نبھاتی رہیں۔ میری دعا ہے اللہ غزل جعفری کو دنیا کا ہر سکھ دے اور اسد جعفری کے درجات بلند کرے(آمین)