تنگ آمد بجنگ آمد
ہندوستان نے اپنے ٹرمپ کو یعنی نریندر مودی کو جتوا کر بھی دکھایا۔
لگتا ہے ہم اب بھی کسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں پراکسی جنگوں سے رواجی جنگوں تک، ہم نے ہندوستان ہو یا پاکستان ہو، ایک ایسے بیانیے کو جنم دیا ہے جس میں ایک ایسا نظریہ جنم لیتا ہے جو فلاح و بہبود سے براہ راست ٹکراؤ میں آتا ہے۔ وہاں ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے تو یہاں 20 کروڑ۔ وہاں بھی غربت و افلاس کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کی شرح ساٹھ فیصد ہے تو یہاں بھی کم و بیش یہی ماجرا ہے۔
امریکی ٹرمپ ان کے بیانیے میں موجود ان باتوں کو اچھالنے سے مقبول ہوا، یہاں تک وہ صدارتی انتخاب کے لیے دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک بڑی پارٹی کا کینڈیڈیٹ ہے۔ ہندوستان نے اپنے ٹرمپ کو یعنی نریندر مودی کو جتوا کر بھی دکھایا۔ دہائیوں بعد فاشزم دہلی پر مارچ کرتا نظر آیا۔ جمہوریت کے نام پر، کوئی اسی طرح جرمنی میں بھی فاشزم مارچ کرتا نظر آیا۔ ہٹلر جمہوریت کے لبادے میں ظہور پذیر ہوا تھا۔
کل مسلم لیگ ن کے حکمرانوں کو بھی امیر المومنین بننے کا شوق ہوا تھا لیکن سینیٹ کے انتخابات سے پہلے بارہ اکتوبر آگیا تھا۔ اسی بارہ اکتوبر کی کوکھ سے پھر ایک اور جنوں ظہور پذیر ہوا تھا بگٹی کو مار دیا گیا ایک ایسی عمر میں جب وہ خود مرگ بستر تھا۔
اچھا لگا تھا اوباما اقوام متحدہ میں اس بار تقریر کرتے جب وہ یہ لکھ رہا تھا کہ جمہوریت کے آڑے آتی ہے Crude Population یا دوسرے الفاظ میں لوگوں کو جذباتی نعروں پر بھلانا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ سب غیر منصفانہ تقسیم کا ردعمل ہے وہ چاہے لوگوں کے درمیان ہوں قوموں کے درمیان اور پھر اس طرح انھوں نے روس کے ولادی میر پوتن کو تو اپنے ملک کے ڈونلڈ ٹرمپ کو کھڑے ہاتھوں لیا۔ ہاں شاید وہ ترکی سے ابھرتے اپنے ہی صدر اردگان کو بھول گئے جنھوں نے داعش کو شام تک جانے کے لیے گزرگاہ دی تھی اور اب پوری قوم کو نظریے میں ڈال کر یرغمال کرنا چاہتا ہے۔
جمہوریت ہندوستان میں بھی خطرے میں ہے۔ جو بولے اس کو ISI کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور جو یہاں بولے اس کو ''را'' کا ایجنٹ۔ ہاں ہمارے پاس ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو پراکسی جنگ میں اپنی قومی جدوجہد کو شامل کرکے ان کا نقصان کروا کر اپنی زندگیاں نام نہاد جلا وطنیوں میں بسر کر رہے ہیں۔
گجرات میں تین بار وزیر اعلیٰ رہ کر ایڈوانی کے طالب علم میاں مودی صاحب اپنے کارناموں پر بالآخر دلی پہنچے۔ بہت سے انتہا پرستوں کا خیال تھا کہ مودی کی سرکار اس خطے میں ہندوستان کا لوہا اور مضبوط کرے گی۔ کشمیر میں شورش کو آہنی ہاتھوں سے دبا دے گی۔ ہم سب اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے بھی کبھی کبھی جنگی جنوں کو ہوا دیتے ہیں۔ کشمیر میں شدید ناکامی کے باعث اب کوئی چارہ نہیں رہا۔ سوائے یہ کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔
کلدیپ نیئر لکھتے ہیں پراکسی جنگ کی شروعات پاکستان نے 1965 کی جنگ سے پہلے باقاعدہ کی تھی اور پھر ہندوستان بھی اس جنگ میں جواب دینے کے لیے داخل ہوا۔ پھر تو مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی ہوا، کارگل بھی ہوا، افغانستان، کشمیر اور بہت کچھ۔ ہمارے اندر اتنے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اور بہت سے ان واقعات میں ہندوستان کیسے نہیں ملوث ہوگا۔ لیکن ہم نے کبھی سرجیکل آپریشن کی بات نہیں کی۔ بھارت کی تاریخ میں جتنے لاپرواہ بیان موجودہ وزیر داخلہ نے دیے ہوں گے شاید ہی کسی نے دیے ہوں۔ ہمارے متعلقہ وزیر بھی دو قدم پیچھے ہی رہتے۔ اور پھر لیجیے ہمارے پاس ہے نیوکلیئر صلاحیت ہم نے بھی پہلی بار وہ Excercise شروع کردی، سرجیکل آپریشن کی دھمکیوں کے جواب میں۔ ہم کیا کرتے جو ہمارے پاس ہے ہم وہی کریں گے۔
یہ زمانہ 1965 یا 1971 کا زمانہ نہیں۔ اس بار جنگ ہوگی تو جیت کسی کی بھی نہیں ہوگی۔ یہ جنگ ہوگی کہ نہیں ہوگی اس سے ہٹ کر۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جنگی جنوں کو ہوا دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
ریاست اب وہی ریاست ہے جو اپنے لوگوں کو وہ حقوق دے جو آفاقی ہیں، جو دنیا میں مانے ہوئے ہیں اور جو ہمارے آئین میں بھی واضح ہیں۔ اس سے باہر اگر کوئی ریاست ہے تو بھلے ہو لیکن اس ریاست کا مستقبل تابناک نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ایسی ریاست بننے سے دریغ کرنا چاہیے۔ ایسی ریاست جو آج کی ماڈرن ریاست کی تشریح پر پورا اترتی ہے۔ ہمیں وہی ریاست بننا ہے۔
ان لوگوں کو جو اس ریاست کو ناکام دیکھ رہے تھے اس وقت ناکامی سے ممتاز ہونا پڑا جب پاک چائنا راہداری ایک بہت بڑی معاشی ترقی کے حوالے سے نمودار ہوا۔ پاکستان نے بدلتی دنیا میں اب ابھرتے نئے بلاک کے ساتھ تعلقات بہتر کرلیے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں مغربی طاقتوں سے تعلقات خراب کرنے چاہئیں۔ اور یہ تاثر جس کا پروپیگنڈا خود ہندوستان بھی کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے اسے غلط ثابت کرنا ہوگا۔ ایک بہت بڑے توازن کی ضرورت ہے اور بہت بڑی ڈپلومیسی کی سوچ کی بھی۔
ہمیں اب پراکسی جنگوں کے بھنور سے نکلنا چاہیے۔ ہندوستان تو خیر 7 فیصد کی شرح نمو سے کئی دہائیوں سے ترقی کر رہا ہے۔ لیکن ہم اوسطاً 4 فیصد کی اوسط سے بڑھ رہے ہیں۔ ہماری معیشت میں بہت گنجائش ہے پھیلنے کی۔ ایک معاشی مضبوط پاکستان، جمہوریت کی راہ پر چلتا پاکستان، فیڈریشن کے اصولوں پر، آئین کی پاسداری کرنے والا پاکستان خود ہندوستان کے انتہا پرست سوچ رکھنے والے لوگوں کے لیے منہ توڑ جواب ہے۔
ہمیں جنگی جنون کی سوچ کو وہ چاہے ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں شکست دینی ہوگی۔ ہندوستان پاکستان ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں ایک ہونے کی۔ ہمیں اس تاریخ کے تسلسل میں ایک دن ایک ہونا ہوگا، اس خطے کے وسیع تناظر میں۔
جاتے جاتے آپ کے سامنے اسٹیفن ہاکنگ کا حالیہ پیش کیا ہوا خیال آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ یہ شخص جو دنیا کو آفاق کی آنکھ سے دیکھتا ہے وہ کہتا ہے ''دھرتی کی موت کی بنیادی وجہ ذرایع کی غیر منصفانہ تقسیم ہوگی'' آج انسان خود دھرتی کو دلدل میں پھنساتا جا رہا ہے۔ جنگی جنون ماحولیاتی تباہی، غربت یہ اہم چیلنجز جس سے ہمیں دوچار ہونا ہے اب دنیا سکڑ گئی ہے۔ اس سکڑتی دنیا میں ریاست کی تشریح بھی مختلف ہوگئی ہے۔ اب کوئی ریاست جمہوریت کے بغیر دیرپا اور پائیدار ریاست نہیں ہوگی۔
تو کیا خود حکمران اس ملک میں جمہوریت کو چلنے دے رہے ہیں؟ جس طرح اسپیکر نے آرٹیکل 63(2) کا غلط استعمال کیا، جس طرح پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور کوئی بھی ادارہ نہیں جو پاناما کے حوالے سے وزیر اعظم کے خاندان کے اثاثوں کی چھان بین کرسکے۔ خود جمہوریت کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔
لیکن اس میں کسی بھی طرح دو رائے نہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی بنیادی طور پر اداروں کی مضبوطی ہے اور اگر خود جمہوریت اداروں کو کمزور کرے اس سے کسی اور کو نہیں بلکہ جمہوریت کو خطرہ ہوتا ہے۔ جمہوریت عوام کے جمہوری ثمرات دینے کے عہد و عزم سے جڑی رہتی ہے، یہ رشتہ کمزور ہو تو جمہوریت مذاق بن جاتی ہے۔
مودی صاحب سے عرض ہے کہ وہ کشمیر آہنی ہاتھوں سے نہیں اس کو تاریخی تسلسل افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ فرسٹریشن کا شکار ہوکر جنگی جنون کو ہوا دے اور ہمیں بھی اس سوچ کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے۔