سانحہ بلدیہ ٹاؤن  مزدوربھی تو خام مال تھے۔۔۔۔۔۔۔

علی انٹرپرائز میں جل کر جاں بہ حق ہونے والے مظلوم مزدوروں کے لواحقین معاوضے سے محروم


علی انٹرپرائز میں جل کر جاں بہ حق ہونے والے مظلوم مزدوروں کے لواحقین معاوضے سے محروم ۔ فوٹو : فائل

یہ 12 ستمبر 2012 کی صبح تھی، جب بے کس و لاچار انسان (جنہیں زر کے زرخرید ایجنٹوں کی طرف سے اپنی تقدیر پر شاکر رہنے کا درس دیتے ہوئے صابر رہنے کی تلقین کی جاتی ہے) زر کے پجاری سرمایہ داروں کی سرمایہ ساز مشینوں کا ایندھن بننے کے لیے رواں تھے۔ یہ مدقوق ڈھانچے جو انسان ہونے کی تہمت لیے ہوئے تھے، اس بات سے بے خبر تھے کہ آج کا ڈوبتا سورج ان کی زندگی کے تہمت زدہ فریب کو بھی لے ڈوبے گا۔

وہ سادہ لوح انسان جنہیں ہمیشہ اچھے دنوں کی نوید سنائی جاتی رہی ہے، اور وہ سراپا انتظار ہمیشہ ہی سے کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ، جیسے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ مظلوم اپنی آنکھوں میں اچھے دنوں کا خواب سجائے (جنہیں دیکھنا دنیا کے ہر انسان کا حق ہے) اور انہیں تعبیر کرنے کے لیے بلدیہ ٹاؤن کی جانب رواں دواں تھے۔ مزدور جنہیں انسان ہی شمار نہیں کیا جاتا تو پھر انسانی حقوق کے وہ کہاں حق دار تھے۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ''وہ آسمانوں سے پکارے جائیں گے'' کے انتظار میں یہ نہیں جانتے تھے کہ '' ہم اسی دھوکے میں مارے جائیں گے'' اور افسوس کہ ایسا ہی ہوا جو ہمیشہ مزدوروں کا نصیبا رہا ہے۔

بلدیہ ٹاؤن کراچی میں واقع علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ میں258 سے زاید مزدور جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ سرمایہ داروں کے حقوق کی نگہ بان حکومت اور فیکٹری انتظامیہ اس سلسلے میں بار بار اپنے بیان بدلتے رہے، جب کہ بچ جانے والے مزدوروں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ تھی۔ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور پورے ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے خون کو فیکٹری کی بھٹی میں جلانے والے اور ہڈیوں کو پگھلانے والے ہر مزدور سے اوسطاً 14گھنٹے کام لیا جاتا اور انہیں حقیر اور شرم ناک اجرت 7000روپے ماہانہ دی جاتی تھی۔

علی انٹرپرائز میں لگنے والی آگ پر مختلف قیاس آرائیوں نے اس وقت نیا موڑ لیا جب رینجرز کی جانب سے اسے بھتا نہ دینے پر نذرآتش کرنے کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی۔ اس رپورٹ سے پہلے اسے ایک حادثہ قرار دیا جاتا رہا تھا۔ رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کو اس واقعے میں ملوث قرار دے دیا گیا۔

یہ رپورٹ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مرتب کی تھی جسے ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں اسسٹنٹ جج ایڈووکیٹ جنرل آف رینجرز میجر اشفاق احمد کے بیان کے ساتھ جمع کرایا گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے مبینہ کارکن اور مشتبہ ملزم محمد رضوان قریشی نے یہ انکشاف بائیس جون 2013 کو سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی مشترکہ تحقیقات کے دوران کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے کارکن نے مزید انکشاف کیا ہے کہ پارٹی کے ایک معروف اعلیٰ عہدے دار نے اگست 2012 کو اپنے فرنٹ مین کے ذریعے آتش زدگی کا نشانہ بننے والی فیکٹری علی انٹرپرائزز کے مالک سے بیس کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا تھا۔

ملزم نے بتایا کہ اس کے بعد حماد صدیقی نے بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر انچارج کو معطل کرتے ہوئے رحمان بوہلہ کو جوائنٹ سیکٹر انچارج بنا دیا۔ ملزم کا مزید کہنا تھا کہ تنظیمی کمیٹی نے رحمان بوہلہ کو فیکٹری مالکان سے بیس کروڑ روپے لینے کے احکامات دیے اور جب فیکٹری مالکان نے رقم دینے سے انکار کردیا تو سیکٹر انچارج اور اس کے ساتھیوں نے فیکٹری کو کیمیائی مادہ چھڑک کر نذر آتش کردیا۔ سی آئی ڈی نے گھر پر چھاپہ مار کر معطل سیکٹر انچارج اور اس کے بھائی ماجد کو حراست میں لے لیا تھا، جنہیں بعد میں اس وقت رہا کردیا گیا جب ایم کیو ایم کی جانب سے فیکٹری مالکان پر دبا ڈال کر یہ بیان دلوایا گیا کہ وہ اس سانحے میں ملوث نہیں ہیں۔

(یاد رہے کہ اس وقت ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وزیر صنعت و تجارت سندھ رؤف صدیقی نے یہ فراغ دلانہ پیش کش کی تھی کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں جاں بہ حق مزدوروں کے کفن دفن کے انتظامات حکومت سندھ کرے گی)

اس کے بعد بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے کی دوبارہ تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ منظرعام پر آئی جس میں کہا گیا تھا کہ واقعہ حادثاتی نہیں بل کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کا منظم منصوبہ تھا۔ فارنزک لیب نے بھی فیکٹری میں لگنے والی آگ آتش گیر مادہ سے لگنے کی تصدیق کردی تھی، جب کہ دیگر شواہد اور ماہرین کی رائے کے بعد نئی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی، بل کہ دہشت گردی کی منظم منصوبہ بندی کے تحت لگائی گئی۔ اس رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی کا نام لیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دونوں مبینہ دہشت گردوں نے 20 کروڑ روپے بھتا اور فیکٹری کے منافع میں حصہ نہ دینے پر اس منظم دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔

پولیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی چالان میں فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا تھا جب کہ ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات میں مالکان اور سرکاری اداروں کو ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ پولیس کی تمام تر توجہ مالکان اور متعلقہ سرکاری افسران کو مقدمے سے خارج کرنے پر مرکوز رہی جب کہ آتشزدگی کی وجوہات اور اس کے ذمے داروں کے تعین کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

متاثرہ خاندانوں، سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ کی جانب سے اس معاملے کی شفاف تحقیقات اور ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ اتنی شدت سے کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں متعدد تحقیقاتی ٹیموں کے قیام کا اعلان کیا، جب کہ ایک سابق جج کی سربراہی میں عدالتی ٹریبونل بھی بنایا گیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ۔

جس کے سربراہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن (سی آئی اے) منظور مغل تھے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اس وقت ایف آئی اے میں تعینات سینیر افسر آزاد خان کو تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ایف آئی اے نے ایک ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کردی تھی جس میں واضح طور پر فیکٹری مالکان، جنرل منیجر، بلڈنگ پلان کی منظوری، ہنگامی صورت حال میں بچاؤ کی تربیت اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے ذمے دار اداروں کو حادثے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی تھی کہ فیکٹری کی عمارت کی مجموعی طور پر پانچ منزلیں تھیں جن میں تہہ خانہ، گراؤنڈ فلور، میزنائن فلور، فرسٹ اور سیکنڈ فلور شامل تھے۔

سائٹ لمیٹڈ کی جانب سے منظور شدہ نقشے میں عمارت کی دوسری منزل موجود ہی نہیں تھی، اس کے علاوہ نقشے کے مطابق میزنائن فلور کا اسٹرکچر کنکریٹ کا تھا جب کہ فیکٹری مالکان نے نقشے کے برعکس میزنائن فلور لکڑی سے تعمیر کیا تھا اور لکڑی کے اسٹرکچر کی وجہ سے ہی آگ اتنی تیزی سے پھیلی کے فیکٹری میں موجود سیکڑوں مزدور اپنی جان بچانے میں کام یاب نہیں ہوسکے۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ محکمہ شہری دفاع اور فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فیکٹری میں کوئی مشق نہیں کرائی گئی جس کی وجہ سے آگ بجھانے کے آلات اور واٹر ہائیڈرنٹ موجود ہونے کے باوجود ان کا استعمال نہیں کیا گیا۔ محکمہ محنت حکومت سندھ کے ریکارڈ میں علی انٹرپرائزز رجسٹرڈ ہی نہیں تھی جسے ایک مجرمانہ فعل قرار دیا گیا، جب کہ سیسی اور ای او بی آئی کی جانب سے صرف چند سو ملازمین کو رجسٹرڈ کیا گیا، جب کہ فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد 1500 سے زاید تھی۔ فیکٹری مالکان نے اپنی مصنوعات کی چوری کو روکنے کے لیے غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی دوسری منزل پر واقع ہنگامی راستے کو مستقل بند کررکھا تھا اور کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں نصب تھیں جس کے سبب محنت کش اپنی جانیں نہیں بچا سکے۔

وہ سارے حقائق جس کی وجہ سے فیکٹری میں آگ لگی سامنے آچکے ہیں۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ اگر فیکٹری میں لیبر قوانین پر عمل درآمد ہوتا تو اس سانحے کا تدارک ہوسکتا تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ فیکٹری کا ماحول کسی جیل سے مختلف نہیں تھا۔ شفٹ شروع ہونے کے بعد فیکٹری کے مختلف کمروں کو جہاں مزدور کام کر رہے ہوتے تھے، تالے لگا دیے جاتے تھے جب کہ کھڑکیوں پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ بجلی کی تاروں کا نظام انتہائی بوسیدہ اور غیر معیاری تھا۔

ان حالات میں جب فیکٹری میں آگ لگائی گئی تو بہت سے مزدوروں کے لیے جل کر ہلاک ہونے سے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ آگ لگنے کے بعد سیکڑوں مزدور مدد کے لیے چیختے چلاتے اور کھڑکیوں کی سلاخیں توڑنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ چوں کہ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی باقاعدہ رجسٹریشن اور ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا لہذا انتظامیہ کے لیے مرنے والوں کی اصل تعداد کو چھپانا نہایت آسان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اصل حقائق منظر عام پر نہیں آئے۔ سوائے اس کے کہ یہ منظم جرم (جسے حادثہ کہا جاتا رہا) کا اصل محرک ایم کیو ایم کے کچھ راہ نما تھے جنہوں نے بتھا نہ دینے پر فیکٹری کو نذر آتش کردیا۔ یہ سارا قضیہ اب عدالت کے رو بہ رو ہے اور انتظار کرنا چاہیے کہ وہ اس انسانی المیے کا کیا فیصلہ کرتی ہے۔

علی انٹرپرائزز جرمنی میں واقع ایک ریٹیل کمپنی Kik کے لیے جینز تیار کرتی تھی جوکہ Okay برانڈ کے نام سے فروخت ہوتی تھی۔ جرمن کمپنی نے علی انٹرپرائزز سے اپنے تعلق کا اعتراف صرف تب کیا تھا جب کچھ مزدور تنظیموں نے اس سلسلے میں ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے تھے۔ علی گارمنٹس فیکٹری میں ایک دن کی اجرت 150سے 200 روپے دی جاتی تھی۔

Kik جب دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اس کے ایگزیکٹیو مائیکل اریٹز نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ Kikہلاک ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں کے لیے 1930یورو فی کس دینے کا ارادہ رکھتی ہے جواس وقت تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار روپے بنتے تھے۔ اس سے قبل حکومتِ پاکستان اور سندھ حکومت نے بھی متاثرہ خاندانوں کے لیے 7 لاکھ روپے فی خاندان امداد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن جن خاندانوں کو یہ چیک دیے گئے تھے، ان کے مطابق بینک نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کی ملک گیر احتجاج میں آئے ہوئے تمام مزدور راہ نماؤں نے فیکٹری مالکان اور حکومتی اہل کاروں کو اس بھیانک قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا اور انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا، یہ مطالبہ وہ اب تک وہ کرتے چلے آرہے ہیں۔

کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار اور منافع میں اضافے کی بنیاد محنت کش طبقے کا بدترین استحصال ہے۔ رہے قانون بنانے اور ان پر عمل درآمد کرانے والے، وہ بھی تو سرمایہ دار طبقے کے ہی مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور اس کا اجر زرکثیر کی شکل میں پاتے رہے ہیں۔ ایسے میں محنت کشوں کو ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جہاں اس کی زندگی صرف سرمایہ داروں کے منافع کے لیے خام مال کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔

حالات اب بھی نہیں بدلے۔ آج پاکستان میں حکم رانوں کی جانب سے جو خود بھی سرمایہ دار اور تاجر ہیں تیزی سے مزدور دشمن قوانین بنائے جا رہے ہیں اور سرمایہ داروں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ رہے مزدور و محنت کش تو کب آسودہ رہے ہیں، اگر ان کے حقوق کے لیے کچھ قوانین بنائے بھی گئے ہیں تو وہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کرانے والے اداروں کے افسران کا پیٹ بھرنے میں مدد گار ہیں اس لیے کہ وہ ان قوانین پر عمل درآمد کرانے کی بجائے وہ سرمایہ داروں سے اس کا اجر پاتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ سرمایہ دار کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے سرمائے میں ٖاضافے کے لیے حکومتی ادارے کے افسران کو خرید لیتے ہیں۔

زرتلافی چاہے کتنا بھی ہو کسی بھی انسان کی زندگی کا بدل نہیں ہوسکتا، لیکن کیا یہ اس سے زیادہ شرم ناک بات نہیں کہ انسانی جان کے بدلے دی جانے والی رقم کو بھی غبن کرلیا جائے یا اسے ادا کرنے میں ٹال مٹول جیسے حربے استعمال کیے جائیں اور کیا یہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک بات نہیں کہ حکومت وقت بھی زرتلافی ادا کرنے میں ناکام رہ جائے۔ جی آج بھی ان محنت کشوں کے وارث اپنے پیاروں کا معاوضہ پانے کی آس لگائے اس کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں اور تمام حکومتی ادارے حسب معمول لمبی تان کے سو رہے ہیں۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری، متاثرہ خاندان انصاف سے محروم کیوں؟
11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں لگنے والی آگ کوئی حادثہ نہیں بل کہ سنگین دہشت گردی کا واقعہ تھا، اس کا انکشاف سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس کی سماعت کے دوران کیا گیا۔ اس رپورٹ میں اس واقعے میں ملوث تمام کرداروں کو شامل تفتیش کرکے بے گناہ معصوم انسانوں کے خون کا حساب لیا جائے گا یا پھر ماضی کے دوسرے بڑے واقعات کے کیسوں کی طرح اس کیس کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے گا ؟



دس سال سے علی انٹر پرائز فیکٹری میں کام کرنے والی نسرین، پروین اور ان کا چھوٹا بھائی محمد سہیل بھی اس واقعے میں جاں بہ حق ہوگئے تھے۔ لیکن یہ خاندان اب تک معاوضے سے محروم ہے۔ دیگر جاں بہ حق افراد کے لواحقین کے ساتھ ان کے خاندان کے ساتھ بھی انصاف ہوگا یا نہیں؟ ان کی بوڑھی ماں کا کہنا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آئی کہ فیکٹری میں یہ آگ کیسے لگی اس کا ذمے دار کون ہے اور انہیں سزا کیوں نہیں ملی؟ n

(ہما بیگ)

اب تک کی آخری عدالتی کارروائی
سانحہ بلدیہ فیکٹری کا ضمنی چالان منظور، حماد صدیقی ملزم قرار

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا ضمنی چالان منظور کرتے ہوئے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 2 میں منتقل کردیا۔ چالان میں واقعے کو دہشت گردی قرار دیا گیا اور عدالت کو بتایا گیا کہ ایم کیو ایم کے راہ نما حماد صدیقی کی ایما پر سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا اور اس کے ساتھیوں نے 20 کروڑ روپے بھتا اور منافع میں حصہ داری نہ دینے پر فیکٹری کو آگ لگائی۔

جس کے نتیجے میں 254 افراد جاں بحق ہوئے۔ فیکٹری مالکان سے معاملات طے کرانے کے لیے 5 کروڑ 98 لاکھ وصول کیے گئے، ایم کیو ایم کے سنیئر ارکان نے دہشت گردی کے واقعہ کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کی، پولیس نے فیکٹری مالکان اور ملازمین کو بے گناہ جب کہ حماد صدیقی، سابق سیکٹر انچارج بلدیہ ٹاؤن حماد بھولا سمیت چھے ملزمان کو مفرور قرار دیا، چالان چند روز قبل سائٹ پولیس کی جانب سے پیش کیا گیا۔ تاہم جج نے جے آئی ٹی کے رکن کے پیش نہ ہونے پر چالان منظور نہیں کیا تھا۔ n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں