کیا واقعی جنگ چھڑنے والی ہے
’’ پتر تمہیں کیا لگتا ہے کہ جنگ چھڑنے والی ہے؟ ‘‘
DHAKA:
'' پتر تمہیں کیا لگتا ہے کہ جنگ چھڑنے والی ہے؟ '' انھوں نے مجھ سے سوال کیا تو میں ان کا منہ دیکھنے لگی کہ جیسے میرے کہنے سے ہی آج تک ساری جنگیں چھڑی ہو ں گی... اور تو اور انیس سو پنسٹھ کی جنگ تو میں نے ہی کروائی تھی، '' سنا ہے کہ بارڈر کے ارد گرد دیہات کو خالی کروانے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے اور موٹر وے عام ٹریفک کے لیے بند کر کے اس پر ہماری ائیر فورس نے قبضہ کر لیا ہے اور اس پر سارے لڑاکا جنگی طیارے پہنچا دیے گئے ہیں؟ ''
'' آپ فکر نہ کریں انکل... '' میں تو ان کی خیریت دریافت کرنے گئی تھی کہ کمزوری کے باعث چکر آ جانے سے وہ غسل خانے میں گر کر اپنی کولہے کی ہڈی تڑوا بیٹھے تھے-
'' لیکن ہمیں بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے نا بیٹا، یہ جنگ اگر ہم پر مسلط کی جانے والی ہے تو ہم کس طرح چین سے بیٹھ سکتے ہیں؟ ''
'' آپ چین سے لیٹے رہئے انکل... '' میں نے انھیں جنگ کے خلاف کوئی بھی '' انتہائی اور سنجیدہ '' اقدام لینے سے روکا، بے چارے بغیر کسی کی مدد کے بیڈ پر کروٹ تک تو بدل نہیں سکتے، اگر اس معاملے میں سیریس ہو گئے یو ایسا نہ ہو کہ ہڈی ہی نہ جڑے اور وہ مستقل بستر پر پڑ جائیں-
ایک انکل ہی نہیں،بہت سے لوگ اس سوچ کو لے کر پریشان ہیں کہ جنگ چھڑنے والی ہے اور کیا ہو گا، اگلے ہی روز مالی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مجھے سبزیاں کاشت کروانے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ ان کا فائدہ بھی ہو گا کہ نہیں، ہم ان سبزیوں کو کھا سکیں گے یا کوئی اور!! مارکیٹ میں دکاندار آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ پاکستان کی فوجی تیاریاں دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ کسی بھی لمحے ''پہلی گولی '' چل سکتی ہے...'' اب تو گولیاں نہیں، ایٹم بم چلائے جائیں گے لالہ!!'' ایک نے جواب دیا تھا، اسے شاید علم نہیں تھا کہ ایٹم بم اور گولی میں '' تھوڑا سا '' فرق ہوتا ہے، میں کانوں سے ان کی باتیں سن رہی تھی اور آنکھوں سے ان خواتین و حضرات کو دیکھ رہی تھی جو تیزی سے دھڑا دھڑ خریداری میں مصروف تھے... شاید ان چیونٹیوں کی طرح جو بارش آنے سے پہلے اس طرح تیز تیز چلنے لگتی ہیں توہمیں بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بارش ہونے والی ہے کیونکہ انھیں اللہ تعالی نے ایسے سنسر دے رکھے ہیں جوکہ انھیں موسموں سے آگاہ کر دیتے ہیں-
ابھی اگلے ہی روز ایک جنازے پر جانا ہوا تو وہاں بھی خواتین ہاتھوں میں تسبیحات پکڑے اسی بات پر پریشان نظر آئیں کہ جنگ چھڑ گئی تو کیا ہو گا!! ''کیا ہمیں احتیاطا اپنے گھروں میں خوراک وغیرہ کا ذخیرہ کر لینا چاہیے؟'' ایک پریشان خاتون نے اس فربہ سی خاتون سے پوچھا جو وہاں اس وقت کھڑپینچ لگ رہی تھی اور تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے سیپارہ پڑھنے یا تسبیح کے سوال پر '' فتوی '' دیا تھا کہ جو چلا گیا اب اسے ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں، جو کچھ اسے اپنی بخشش کے لیے لے کر جانا تھاوہ لے گیا، اب یہ سب ہمارے دل کی تسلی کے لیے ہے!!
'' تو کیا اولاد کو صدقہء جاریہ اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ ماں باپ کے لیے ان کی وفات کے بعد بھی اپنے نیک اعمال اور ان کے حق میں دعا ، خیرات اور صدقات کے باعث ان کی مغفرت اور آخرت کی منزلیں آسان کرنے کا باعث بنتی ہے... دنیا سے پردہ کر لینے والے کے نام کی قربانی بھی ہوتی ہے اور حج بھی، تو وہ سب کیا ہے؟ '' ایک اور عالمہ نے ان سے بحث کی جرات کی تھی-
'' سوائے دل کی تسلی کے اور کچھ نہیں!! '' انھوں نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کمال بے نیازی سے جواب دیا تو دوسری خاتون خاموش ہو گئیں، انھیں شاید سمجھ تھی کہ نیم حکیموں اور نیم عالموں سے بحث بے کار ہے- ان کے تسبیح یا سیپارہ نہ پکڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سی خواتین جو اس سے پہلے تسبیح پڑھ رہی تھیں یا سیپارے، انھوں نے تسبیحات کو مٹھیوں میں بند کر لیا، سیپارے پڑھنے والیاں کچھ مروتا پڑھتی رہیں اور اور کچھ نے جہاں تھیں وہیں پر آمین کہہ دیا اور پھر مختلف موضوعات پر گفتگو ہونے لگی- کپڑے جوتے، شادیاں اور طلاقیں... رشتے طے ہونے لگے جو کہ ہمیشہ ہوتا ہے ، وہیں جنگ پر بھی گفتگو ہونے لگی-
یہ سب ہماری اپنی نا اہلی ہے کہ ہم نہ جنگ کے لیے تیار ہیں نہ ہی ہمیں جنگ کے اثرات کے بارے میں علم ہے، اخبارات، رسائل اور ٹیلی وژن پر یہ تو بتایا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ دھمکی دی اور فلاں نے یہ مگر یہ نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے، نقصانات کیا ہیں، حالات حاضرہ کیا ہیں، جنگ کی دھمکی کیوں دی جا رہی ہے، اس سے کس ملک کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہو گا- کبھی ہمارے ہاں بھی ایسے پروگرام ہوتے تھے جن سے عالمی معاملات کے بارے میں ہمیں آگاہی ہوتی تھی، حالات حاضرہ کا علم ہوتا تھا مگر اب ہر ٹاک شو اور ہر پروگرام جانوروں کی لڑائی ہوتا ہے، کسی پروگرام سے سوائے ایک دوسرے کی کردار کشی اور بے ربط باتوں کے اور کچھ علم نہیں ہوتا-
اگر ہمیں یہ علم ہے کہ ہمسایہ ملک ہمارا دشمن ہے اور یہ دشمنی کبھی دوستی میں نہیں بدل سکتی ماسوائے حکمرانوں کی آپس میں دوستی بلکہ گہرے تعلقات کے تو ہمیں اپنی حکمت عملی اسی طرح وضع کرنی چاہیے- عام زندگیوں میں تو ہم جسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں وہاں ہمارے پنجابی تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ کہ ان کے ہاں جینے مرنے ختم ہوجاتے ہیں مگر اس دشمن کے معاملے میں ہماری پالیسی مختلف کیوں ہے؟؟ اس ملک کی ثقافتی اور تجارتی یلغار ہی ہمیں کمزور کرنے کو کافی ہے، ا ن کے کپڑوں، ڈرامے اور فلم کے بغیر ہم مرنے لگتے ہیں ، ان کے میوزک شو اور ہر طرح کے غیر اخلاقی پروگرام ہمارے ہر چینل کی جان ہیں- ہمارے فنکار وہاں جا کر کام کرنے کو اپنے لیے زندگی کے اہم مشن کی طرح سمجھتے ہیں جنھیں اب دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ انھیں لات مار کر نکال دیا جائے گا-
'' باجی جنگ ہونے والی ہے؟ '' میرے گھر کام کرنے والی نے مجھ سے سوال کیا-
'' تمہیں کیا لگتا ہے؟ '' میں نے ا س کے سوال کا جواب سوال سے دیا، کیونکہ ا س کے تجزئے تو ہمیشہ ہی دلچسپ ہوتے ہیں-
'' ایہہ نواز کتھے وے اج کل؟ '' اس نے پوچھا -
'' یہیں ہے، وہ تو صرف پیر اور جمعے کو آتا ہے!! '' میں نے بتایا-
'' کیہڑا نواز؟ '' اس نے ابرو اچکائے-
'' ہمارا مالی... '' میں نے جواب دیا، '' اور کس کا پوچھ رہی ہو تم؟ ''
''میں نواز شریف دا پچھ رہئی آں باجی جی!! '' اس نے چبا کر کہا-
'' اوہ اچھا... وہ تو امریکا گئے ہوئے ہیں!! '' میں نے بتایا، ' ' تم نے دیکھا نہیں کل دکھا رہے تھے، وہ جنرل اسمبلی میں اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کے ساتھ ان کی بیگم تھیں، پچھلی سیٹ پر ان کی نواسی...'' میں نے اسے وضاحت سے بتایا کہ وہ کس قدر اہم شخصیت تھے کہ ان کے خاندان کے لیے دنیا بھر میں '' مخصوص نشستیں '' ہیں، '' تقریر سنی تم نے ان کی؟ '' میں نے سوال کیا-
'' آہو سنی... جانے کس نے لکھ دی، سب کہہ رہے تھے کہ اچھی تقریر ہے مگر میرے سے قسم لے لو باجی جی جو اس بندے کو خود پتہ بھی ہو کہ وہ بول کیا رہا تھا... صاف اتوں اتوں والی گل لگ رہئی سی، کوئی دل والی گل نئیں سی!! ''
''ا چھا تم کام کرو اپنا!! '' میں نے اسے وقت ضایع کرنے پر ڈانٹا-
'' باجی جی، بھائی جان نوں پتہ لگے کہ کہ تہاڈے گھار اگ لگ گئی اے تو اوہ دفتروں اٹھ کے اپنے یاراں کول ٹر جان گے؟ '' اس نے بے تکا سا سوال کیا-
'' خیری سلا... دماغ ٹھیک ہے تمہارا، کیا انٹ سنٹ بول رہی ہو؟ ''
'' معافی دے دیو باجی پر میرے سوال دا جواب تے دیو!!''
'' وہ فوراً گھر آئیں گے ظاہر ہے، دوستوں کے پاس کیوں جائیں گے، اگر انھیں اطلاع بھی کرنی ہو تو فون پر کر دیں گے!!''
'' ایہو گل باجی جی!! '' اس نے جھاڑو ہاتھ سے رکھ کر جوش سے کہا، '' تسیں پچھیا سی کہ میرے خیال وچہ جنگ ہووے گی کہ نئیں، تے جے جنگ دا خطرہ ہووے تے نواز جا کے امریکا مزے کرے گا؟ '' وہ یوں بات کر رہی تھی جیسے نواز اس کا یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا، جیہڑی شکایت اونہیں امریکا نوں لانی اے اوہ ایتھے بہہ کے وہ لا لیے گا، تسیں بے فکر رہوو باجی جی، جنگ دا کوئی خطرہ نئیں، کوئی ہور چکر اے جیہڑا ساڈا دھیان ایدھر اودھر کرن لئی ایہہ سارا ڈرامہ اونیں اپنے یار مودی نال رل کے بنایا اے... '' وہ ہنس کر بولی، '' اچھا دسو، سنیا اے مشرف وی امریکا گیا اے اج کل، اوہ کیوں ؟ ''
'' اپنا کام کرو ماسی... '' میں نے اس کی گفتگو کو فل اسٹاپ لگایا۔