جمہوری اقدار اور بردبار پاکستان تیسرا حصہ
یخ بستہ پانی اور برفیلے پہاڑوں کا سوویت یونین بھی گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان تک اندھادھند دوڑتا چلا آیا
نشاۃ ثانیہ کی سچائیاں: اس میں کسی شک شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ موجودہ ترقی کا تمام تر سہرا یورپی نشاط ثانیہ کے سر جاتا ہے۔ جس نے بڑے بڑے تاریخی شہروں سمیت دریا، جنگل، پہاڑاورصحرا ؤں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر دنیاکا نقشہ ہی بدل ڈالاہے۔ نئے اور دیوہیکل عمارتوں سے مزین جدید قسم کے شہرآباد کر کے ویرانوں اور اندھیروں تک کو پریشان کر کے رکھدیا۔
جس سے حیوانات و نباتات سمیت موجودات کرہ ارض بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ نشاۃ ثانیہ کی صدیوں کے تسلسل کو دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کرہ ارض کی ہر ایک چیزکو ناقابل یقین تیزرفتاری میسر ہوتی آ رہی ہے۔ جس میں ریاستوں کے کمزور ہوتے بنیادی ستونوں سمیت موجودہ معروضی بھیانک و ہنگامی عالمی حالات ہیں۔ جس میں انسانوں کے باہمی اختلافات کے حتمی نتیجے میں انفرادیت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہریں بھی گنوائے جائیں تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا، کیونکہ یورپی نشاۃ ثانیہ میں انسانوں کی معاشرتی و ریاستی زندگی سے متعلق نئے نئے نظریات تشکیل پانے لگے تھے۔ جو دیکھنے اور سننے میں تو باہمی اختلاف و کشمکش رکھتے تھے لیکن دیرپا و حتمی نتائج کے اعتبار سے ان تمام کا مرکز ممالک عالم میں رائج مقبول جمہوری اقدار کی پاسداری کا حامل ثابت ہوتا آیا ہے۔
شاید اسی لیے یورپ کے گلی کوچوں میں ایسے ایسے محققین، منتظمین، مدبرین و دانشور وں نے جنم لینا شروع کر دیا تھا جنہوں نے دنیا کے کونے کونے میں ریاست اور معاشرت کے متعلق صدیوں سے رائج اقدار و روایات کو تہس نہس کرنے میںاپنا کردار ادا کیا جن کی محققانہ جگرسوزیوں اور مفکرانہ عرق ریزیوںسے مرتب شدہ نظریات و اقدار کی برکات سے چمار ، کمہار، لوہار اور لکڑہارے کی اولادیں بھی ریاستوں کے اعلیٰ ترین و مقدس منصبوں پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ جنہوں نے دنیا کومقتل اور بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا۔ نپولین، مسولینی، ولادیمیر الیانوف (لینن)، جوزف اسٹالن، ٹراٹسکی، ایڈولف ہٹلر اس کی چھوٹی مثالیں ہے اور ان کے بعد بعض خطوں میں بھی ایسے بہت سے دانشوروں کی بہتات اور منتظمین ممالک کی بہت ساری داستانیں جدید یورپی اقدار کی ''تاریخی سچائیاں'' بیان کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔
یورپی جعفر صادق: پہلی جنگ عظیم میں یورپ کو کمزور کرتے اعلان وارسائی سمیت خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ دنیا پر یورپی نشاط ثانیہ کے ہاتھوں قدیم اقدارکی مکمل شکست و ریخت کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ دوسری جانب سرخ انقلاب دراصل یورپی نشاۃ ثانیہ کے اصل اہداف کو حاصل کرنے کی جانب ابتدائی ''طفلانہ قدم'' تھا۔ کیونکہ اس وقت اقوام عالم پر مروجہ نظام کے باعث جمہوری اقدار کا بول بالا تھا۔ شاید اسی لیے جس طرح شمع بجھنے سے پہلے بہت پھڑپھڑاتی ہے بلکل اسی طرح یورپ اپنی ناتوانی اور امریکی قوت کے اضافے پر جب کہ اقوام عالم قدیم اقدار کے خاتمے پر بہت پھڑپھڑانے لگیں۔
حیرت انگیز طور پر ان انتہائی ہنگامی اور بھیانک معروضی حالات میں اقوام عالم برملہ طور پر اپنے معاشروں میں رائج اقدار سے بیزاری اور جمہوری وسیع النظری کو رضاکارانہ اپنا کر اپنے لیے ''الگ اور آزاد'' ریاست مانگنے لگ گئیں تھیں۔ اپنی صدیوں کی معلوم تاریخ سے لے کر برادری سسٹم میں رہنے والے ملک ہندوستان کا سیکولر تشخص اپنا لینا اس کی سب سے بڑی اور بہترین مثال ہے۔ لیکن تقسیم و اختلاف کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جانب راغب کرنے والی یورپی جمہوری اقدار کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم وقوع پذیر ہوئی۔ جس میں قدیم آریائی نسل سے منسوب اور وارسائی گزیدہ جرمنی نے چمار کے بیٹے اور غیر جمہوری ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم'' کے مصداق ''یورپی جعفر و صادق'' کو اپنی قدیم اقدار کے جدید نظاروںسے روشناس کرایا، جب کہ دوسری عالمگیر جنگ کے نتیجے میں یورپ اپنی نشاط ثانیہ کے اختتامی مرحلے کے طور پر نوآبادیات سے ہاتھ بھی دھو بیٹھا ۔
نتائج اور ناقابل معافی جرم: پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران نوآبادیاتی خطوں و دیگر ممالک عالم میں انھی جمہوری اقدار کے تحت تقسیم و اختلاف سمیت ہیجانی کیفیت چھائی رہی۔ اقوام عالم کی معاشرتی و سیاسی ہلچل کا تمام تر مرکز و محور ریاست کے مقابلے پر افراد کی طاقت کے مظاہرے کا وہی بنیادی مطالبہ تھا۔ جس نے اک بھیس اور اک دیس سے بڑھ کر ساری دنیا مانگنا شروع کر دیا تھا۔ اس ضمن میں سوویت یونین اور امریکا بہادر پیش پیش رہے۔ کرہ ارض کے ایک کونے میں موجود امریکا تو دنیا کے دوسرے کونے میں بسے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ اپنی اقدار ظاہر کر چکا تھا۔
شاید اسی لیے یخ بستہ پانی اور برفیلے پہاڑوں کا سوویت یونین بھی گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان تک اندھادھند دوڑتا چلا آیا چونکہ کمیونزم بھی نشاۃ ثانیہ کی اسی نرسری میں پلی بڑھی تھی جس کے آنگن میں جمہوریت کی تلسی کو سینچا گیا تھا۔ اس لیے اس کے اجزائے ترکیبی کا زیادہ انحصار انھی اقدار پر ہے جنہوں نے یورپ کو بے حال کر کے جدید اقدار کے ''نمونے'' یعنی امریکا کی جی حضوری کرنے پر اتنا مجبورکر دیا کہ یورپ نے اعلان بالفور سے اپنے مفتوح ہو جانے کا کھلم کھلا اقرار کر لیا تھا۔ یعنی یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور اس میں پروان چڑھنے والی اقدار نے اپنے حتمی نتائج کے طور پر یورپ کو لاغر و کمزور بنا کر ایک کونے کے ساتھ لگا دیا۔
(جاری ہے)