نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے صنم
اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل چند واقعات۔ جو کئی بار بیان کیے، مگر شاید لوگوں میں سیکھنےاور سمجھنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے
اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل چند واقعات۔ جو کئی بار بیان کیے، مگر شاید لوگوں میں سیکھنے اور سمجھنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے۔ اسی لیے وہ ایسے واقعات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ حالانکہ ایسے واقعات فکری بالیدگی اور سیاسی وسماجی وسعت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ اپنے زوروں پر تھی، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اعلیٰ سرکاری اہلکاروں، عمادین شہر اور جرنیلوں سے خطاب کیا، اس نے طویل تقریرکی۔ جس میں دو باتیںخاص اہمیت کی تھیں۔ اول، جنگ ایسا معاملہ نہیں جسے جرنیلوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، بلکہ جنگ شروع کرنے اور اسے ختم کرنے کا اختیار عوام کی منتخب کردہ صرف پارلیمان کو حاصل ہے۔ دوئم، اس نے شرکا سے پوچھا کہ کیا جنگ کے دوران برطانیہ میں عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں؟ اور کیا لوگوں کو انصاف مل رہاہے؟ اس سوال کا مثبت میں جواب آیا، تو اس نے کہا کہ جس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اورجہاں عام آدمی کو انصاف مل رہا ہو، وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔ اس کا کہا درست ثابت ہوا اور اس جنگ میں برطانیہ سرخرو ہوا۔
متذکرہ بالا تقریر سے ایک رات قبل 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ڈرائنگ روم کا منظر۔ بیگم چرچل ایک صوفے پر بیٹھی اخبار دیکھ رہی ہیں۔ ان کی بیٹی قریب ہی بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہے۔ چرچل گہری سوچوں میں گم صوفوں کے بیچ ٹہل رہے ہیں۔
اچانک وہ اپنی بیگم کی طرف مڑتے ہیںاور پوچھتے ہیں کہ کیا مجھے اسپینش آملیٹ بنا کر دے سکتی ہو۔ بیوی جواب دیتی ہے کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اسپینش آملیٹ کے لیے تین انڈے درکار ہوتے ہیں، جب کہ جنگ کی وجہ سے گھر کے ہر فرد کے لیے یومیہ ایک انڈے کی راشننگ ہے، اگر میں اپنے حصے کا انڈا بھی دیدوں تو بھی اسپینش آملیٹ تیار نہیں ہو سکتا۔ ان کی بیٹی جو یہ سب کچھ سن رہی تھی، کتاب بند کرتے ہوئے بولی کہ میرے حصے کا انڈا بھی پاپا کو دیدیں۔ یوں بیگم چرچل نے اسپینش آملیٹ تیار کر کے دیا۔ جسے کھا کر چرچل ایک بار پھر متذکرہ بالا تقریرکے تانے بانے جوڑنے میں مستغرق ہو گیا۔ اس واقعہ سے دو باتیں سامنے آئیں۔ اول، راشننگ کا اطلاق صرف عام شہریوں ہی پر نہیں، بلکہ حکمران اشرافیہ پر بھی ہوتا تھا۔ دوئم، جب باورچی اپنے ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد چلاجاتا تو کچن خاتون اول کی ذمے داری ہو جاتا تھا۔
فیلڈ مارشل منٹگمری برطانیہ کا بے مثل جرنیل تھا جس کی کامیابیاں لازوال تھیں۔ جس نے اسکندریہ سمیت پورا مصر صحارا کا علاقہ جرمن کے اس جرنیل سے چھین لیا، جو صحراکی لومڑی(Fox of the desert) کے لقب سے مشہور تھا۔ جنگ کے بعد مارشل منٹگمری نے شہنشاہ برطانیہ کو خط لکھا ،جس میں برطانیہ کے لیے اپنی خدمات کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے، یہ بتایاکہ وسطیٰ لندن میں اس کا گھر جرمن طیاروں کی بمباری سے تباہ ہوگیا ہے۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اس سال کے لیے اپنا خصوصی فنڈ اسے دے تاکہ وہ گھر کی مرمت کروا سکے۔
بادشاہ کے سیکریٹری نے جواب دیا کہ جن خدمات کا منٹگمری نے تذکرہ کیا ہے، ان کے صلے میں اسے ترقیاں، تمغے اور عوام وسرکاری کی جانب سے بے تحاشہ توقیر دی گئی ہے۔اس لیے بادشاہ کے خصوصی فنڈ پر اسے کسی قسم کے دعوے کا حق نہیں ہے۔ اس برس بادشاہ نے اپنا خصوصی فنڈ لوئی پاسچر کو دیا جس نے کتے کے کاٹے کا ٹیکہ ایجادکیا تھا۔
31 اکتوبر1984ء کوبھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی پر ان کے محافظ نے قاتلانہ حملہ کیا۔ انھیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ دنیا بھرکے ذرایع ابلاغ ان کے انتقال کی خبر نشرکر رہے تھے، مگرBBC سے دس منٹ تک مسلسل یہ خبر دی جاتی رہی کہ Mrs. Indra Gandhi is critically injured but still alive.۔دس منٹ کے بعد BBC نے بھی ان کی موت کی تصدیق کر دی۔
ادارے کے ذمے داروں نے بھارت میں تعینات رپورٹر سے وجہ معلوم کی تو اس نے جواب دیاکہ جیسے ہی زخمی وزیراعظم کو اسپتال منتقل کیا گیا، پورا میڈیا اسپتال پہنچ گیا۔ دیگر رپورٹرزکی معلومات کا ذریعہ پیرا میڈیکل اسٹاف تھا، جب کہ میں نے آپریشن تھیٹر سے نکلنے والے ایک ڈاکٹر سے د ریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ She is critically injured but still alive۔ اب اس اطلاع کے بعد جب تک کوئی ڈاکٹر ان کی موت کی تصدیق نہیں کرتا، میں یہ خبر آگے نہیں بھیج سکتا تھا۔ لہٰذاجب ایک ڈاکٹر نے تصدیق کر دی تو پھر میں نے ان کی موت کی خبر آگے بھیج دی۔
درج بالاچاروں مثالوں کی توقع دنیا کے کسی دوسرے ملک کے حکمرانوں اور عوام سے نہیں کی جا سکتی۔ حد یہ کہ کسی یورپی ملک کی حکمران اشرافیہ بھی اس وقت تک فکری بالیدگی کی اس سطح تک نہیں پہنچ سکی تھی، جس کا مظاہرہ برطانیہ کر رہا تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ برطانیہ نے اس منزل تک پہنچنے کے لیے طویل سفر طے کیا تھا۔
اس کی فکری بالیدگی کا سفر گیارہویں صدی کے اختتام پر اسوقت شروع ہوا، جب1097ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ اس کے110 برس بعد 1209ء میں کیمبرج یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے نتیجے میں فروغ علم کی راہیں کھلیں۔ پھر1215ء میں کنگ جان اول کی جانب سے میگناکارٹا کی منظوری نے جمہوری نظم حکمرانی کی راہ ہموار کی۔ لہٰذا 20 ویں صدی کے آنے تک برطانوی معاشرہ فکری بالیدگی اور سیاسی و سماجی شعور کی اس منزل تک پہنچ چکا تھا کہ عوام و خواص کے ذہنوں میں آئین، پارلیمان، عدلیہ اور قوانین کی اہمیت اور تکریم جاگزیں ہو گئی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے نہ صرف اپنے ملک میں آئین و قانون اور پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنایا بلکہ اپنی نوآبادیات میں بھی اسی رجحان کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔1680ء میں مدراس (چنائے) پریزیڈنسی میں مقامی حکومتی نظام کو متعارف کرایا۔ پھر1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس قائم کی اور 1880ء میں بلدیاتی نظام کو پورے برٹش انڈیا میں متعارف کرا دیا۔
مقصد ہندوستانیوں کو جمہوری طرز حکمرانی کی طرف راغب کرنے کے ساتھ حکمرانی میں شریک کرنا تھا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں کی Genes میں صدیوں سے غلامی رچی بسی ہو اور جنھیں حملہ آوروں کو خوش آمدید کہنے کی عادت پڑ گئی ہو، ان کے لیے جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس مائنڈ سیٹ کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارے ہیروز اور رول ماڈلز اہل علم و دانش نہیں بلکہ وہ شخصیات ہیں، جنہوں نے بزور طاقت علاقوں پر قبضے کیے اور لوگوں کو غلام بنایا۔
اسی ذہنیت کی ایک مثال یہ ہے کہ اس خطے کے لوگوں کی اکثریت دھرتی کے فرزند راجہ پورس کے بجائے سکندر یونانی کو اپنا رول ماڈل سمجھتی ہے۔ کیونکہ راجہ پورس ہندو تھا (شاید سکندر کو مسلمان سمجھتے ہیں)۔ جب کہ یہ طے ہے کہ جنگ میں کامیابی جرأت مندی کا معیار نہیں ہوتی۔ بلکہ جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بات کرنے کی ہمت رکھتا ہے، وہی جرأت مند ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک ایساحکمران جس نے ہوس اقتدار اور جہانگیری کے خواہش میں دنیا کو روندڈالا، ہمارے عوام و خواص کا ہیرو ہے۔ یہ رویہ ہماری غیرمتوازن ذہنی کیفیت کا عکاس ہے۔
یہی کچھ معاملہ حب الوطنی کا ہے۔ حب الوطنی نعرہ بازی نہیں ہوتی۔ بلکہ آئین و قانون کی تکریم اور عوام کے حقوق کی پاسداری سے مشروط ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں حب الوطنی کے نام پر غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹنے کا رواج عام ہے۔ یہ طے ہے کہ اصل غدار ملکی آئین سے کھلواڑ کرنے، اس کے وسائل کی لوٹ مار کرنے اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے والے ہیں، مگر انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ کیونکہ اس کے پس پشت اپنے پرائے کی نفسیات کارفرما ہے۔ یہ ہے وہ غلامانہ ذہنیت، جسے برطانیہ کی جانب سے متعارف کردہ سیاسی و سماجی اصلاحات بھی تبدیل نہ کر سکیں۔