خیبر پختونخوا کی نوکر شاہی
چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا کی تبدیلی پر صوبے کے سیاستدانوں سمیت سب مطمئن ہوگئے ہیں
چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا کی تبدیلی پر صوبے کے سیاستدانوں سمیت سب مطمئن ہوگئے ہیں! قیام پاکستان کے بعد سے صوبے کے چیف سیکریٹری تعینات ہوتے، مقررہ وقت سے پہلے تبدیل ہوتے اور یا پھر اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی کمال کے چیف سیکریٹری آئے جنہوں نے صوبے کی انتظامی مشینری کو احسن طور چلایا، آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سیاستدانوں کے احکامات پر عمل درآمد کیا اور کئی بار ان سے اختلاف بھی کیا لیکن اس پر سیاستدانوں نے برا نہیں منایا۔ کہتے ہیں کہ اگر بیوروکریسی کسی بھی حکومت کے ساتھ اجتماعی مفادات پر سودا بازی کر لے تو پھر حکومت تو چل جاتی ہے مگر صوبے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بعض ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بیورو کریٹ اور وہ بھی ٹاپ پوزیشن رکھنے والے اگر کھلم کھلا کسی بھی سیاسی حکومت کی حمایت پر اتر آئیں تب بھی کام بننے کی بجائے بگڑ جاتے ہیں۔ ماضی قریب کی بات سابق حکومت کے حوالے سے کی جائے تو عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت کے دور میں صاحبزادہ ریاض نور اور پھر ان کی مدت ملازمت ختم ہونے پر غلام دستگیر چیف سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے ان دونوں حضرات کو کبھی بھی کسی بھی تقریب میں اسٹیج پر بیٹھے نہیں دیکھا گیا۔ وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی تھے اور انھوں نے بیورو کریسی سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے صوبے کو چلایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر حیدر ہوتی پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تھے مگر پانچ سالہ دور حکومت میں ان کی سیاسی بصیرت تھی جس نے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اس صوبے کو کامیابیوں کا ہمسفر بنایا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک سمری وزیر اعلیٰ کی خواہش پر ایک سیکریٹری موصوف نے منظوری کے لیے بھجوائی۔ محکمہ خزانہ اور پھر ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے اسے چیف سیکریٹری کو بھیجا جنہوں نے سمری کو مسترد کر دیا تاہم اپنے تحفظات کے ساتھ اسے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی کو بھجوا دیا۔ ایک سمری جو خود وزیر اعلیٰ نے اپنے ڈائریکٹو کے تحت منگوائی اسے چیف سیکریٹری رد کر دے تو یہ اختلافات کا نکتہ آغاز بن سکتا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے سمری پڑھی اور چیف سیکریٹری کے ریمارکس سے اتفاق کرتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا۔
جن سے متعلق سمری تھی وہ اپنی فریاد لے کر وزیر اعلیٰ کے پاس پہنچے، امیر حیدر ہوتی نے تحمل کے ساتھ انھیں سنا اور کہنے لگے انھوں نے دوبارہ سمری بھیجنے کا کہہ دیا ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں مگر وہ بیوروکریسی کے خلاف کوئی محاذ کھڑا نہیں کرنا چاہتے اور چند روز بعد دوبارہ بھیجی جانے والی سمری منظور کر لی گئی۔ اس دور میں بیوروکریسی نے عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کو زیادہ پریشان نہیں کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد محمد شہزاد ارباب کو صوبے کا نیا چیف سیکریٹری تعینات کیا گیا۔ ان کا انتخاب صوبے کی بہتری کے حوالے سے اہم جانا گیا ۔ عمران خان نے نئے چیف سیکریٹری کو انتہائی ایماندار بھی قرار دیا۔ بیورو کریسی میں بھی ارباب شہزاد کی تقرری کو خوش آیند قرار دیا گیا پھر چند ماہ بعد ہی حکومت اور چیف سیکریٹری میں ٹھن گئی۔ اختلافات کا آغاز کہاں سے ہوا اور پھر اس کا نتیجہ چیف سیکریٹری کی تبدیلی پر کیوں ختم ہوا اس بارے میں خود محمد شہزاد ارباب کے خطوط بھی اخبارات میں شایع ہوئے جن کا یہاں ذکر ضروری نہیں، یوں پاکستان تحریک انصاف پاکستان میں قابل فخر بیورو کریٹ مانے جانے والے محمد شہزاد ارباب کو برداشت نہ کر سکی۔
ان کی تبدیلی کے بعد خیبر پختون خوا سے ہی تعلق رکھنے والے امجد علی خان کو صوبے کا نیا چیف سیکریٹری تعینات کیا گیا جنہوں نے اپنا حق خوب ادا کیا۔ ان کے اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں، پولیس چیف اور ان کے درمیان اختلافات زبان زد عام رہے، صوبائی سروسز کے افسروں نے ہڑتالیں کیں، ان کے خلاف نعرے لگائے، دفاتر کو تالے لگا دیے لیکن وہ ڈٹے رہے۔ بینک آف خیبر اور صوبائی وزیر خزانہ کے درمیان تنازعہ اور پھر اس کا حل چیف سیکریٹری کی کامیابی اور جماعت اسلامی کی شکست پر منتج ہوا، انھیں بھی متنازعہ قرار دینے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں ۔لگ بھگ دو سال کے عرصے میں انھوں نے اگرچہ عمران خان کے ہمراہ متعدد تقریبات میں ضرور شرکت کی جو بعض بیورو کریٹس کے مطابق مناسب نہ تھا۔
امجد علی خان کے تبادلے پر صوبے کی بیوروکریسی خوش ہے ۔پولیس کی جانب سے بھی سابق چیف سیکریٹری کے تبادلے پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس ساری کہانی کا مقصد بڑا واضح ہے کہ حکومت اور بیوروکریسی میں ساڑھے تین سال کے دوران تعلقات کسی بھی طور خوش گوار نہیں رہے خود وزیر اعلیٰ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ صوبے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی رہی ہے، انھوں نے کئی تقریبات میں بھی بیوروکریسی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور شاید یہی وجہ تھی کہ نوکر شاہی نے ہر قدم پر پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکلات پیدا کیں۔
گزشتہ ساڑھے تین سال میں صوبے کے بیوروکریٹس نے سیاست دانوں سے کہیں زیادہ " کام" کیے ہیں جن کی بڑی دل چسپ تفصیل کبھی آیندہ کالموں میں آپ پڑھ سکیں گے اور آپ کو یہ اندازہ لگانے میں قطعی مشکل نہ ہو گی کہ بیوروکریسی اور حکمرانوں میں جنگ آخر شروع کیسے ہوتی ہے۔ بہرطور امجد علی خان اس صوبے سے تو چلے گئے اور ان کی ریٹائرمنٹ میں بھی چند ماہ باقی ہیں لیکن معلوم نہیں وہ فائلیں اپنے ساتھ لے گئے ہیں یا اپنے سے زیادہ ایک طاقتور بیوروکریٹ کے حوالے کر گئے ہیں جن میں بہت کچھ تھا جو پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
صوبے میں موجودہ حکومت قانون سازی اور کرپشن کے خاتمہ کی کوششوں میں مصروف رہی تو دوسری جانب نوکر شاہی خاصی مضبوط ہوئی ہے اگر دونوں چاہتے ہیں کہ صوبہ ترقی کرے اور عوام خوش حال ہوں تو دونوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔