ایں خیال است و محال است و جنوں است
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک بیان میں کہاکہ پیپلزپارٹی آیندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرے گی
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک بیان میں کہاکہ پیپلزپارٹی آیندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرے گی ۔یہ کام اس فارمولے کے تحت تو ٹھیک لگتا ہے جس کے تحت ''پانچ سال تم، پانچ سال ہم' عوام کے غم نہ ہو کم'' مگر پرفارمنس کے اعتبار سے تو ابھی مراد علی شاہ کو شہباز شریف سے مقابلہ کرنا ہے، کراچی کو لاہور بنانا ہے کس طرح یہ مراد صاحب جانیں ہم تو آم کی بات کرتے ہیں گٹھلیوں کو کون پوچھتا ہے تو وہ پہلے صوبے کو ''مثالی'' بنالیں تو سمجھا جائے گا کہ شاید بیان میں بالغ نظری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اب ایک ایسے میدان میں کھڑی ہے جس میں ایک طرف آصف زرداری کی ساحرانہ قوت ہے اور دوسری طرف بلاول بھٹو کی معصومانہ خواہشیں اور درمیان میں جہاں جی چاہے جس نئے پرانے لیڈر کو رکھ دیجیے بہت جگہ خالی ہے۔
زرداری کے دور میں صوبائی وزیروں نے جی بھر کے عیش کیے ہیں۔ عیش تو وہ ہمیشہ کرتے رہے ہیں کرتے رہیں گے مگر جی بھر کے کا زور وہی تھا قومی حکومت تو ناپید تھی اب حالات اتنے موافق نہیں ہیں، احتساب، رینجرز کارروائیاں اور خود رینجرز کے میدان میں ہونے کی وجہ سے کھل کر کھیلنے کا موقع ذرا کم ہے ہاتھ پاؤں بچاکر کام کرنا پڑ رہا ہے تب بھی کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوجاتی ہے، ایم کیو ایم کی حد تک تو پیپلزپارٹی کو کچھ سکون ہوگیا ہے اور موقع پاکر ملیر کی سیٹ نکال لی ہے۔ پیپلزپارٹی نے یہ لوگوں کا خیال ہے ہمارا نہیں سچ آیندہ انتخابات میں سامنے آجائیگا۔ در اصل بینظیر بھٹو اب پیپلز پارٹی میں کوئی نہیں ہے۔
شکل وصورت سے کچھ نہیں ہوتا۔ وراثت اور سیاست کا بے نظیر بھٹو سے زیادہ اچھا استعمال آج تک پاکستان میں کوئی نہیں کرسکا۔ اندرا گاندھی سے ہاتھ ملانے والی لڑکی کے بارے میں کون بتاسکتا تھا کہ کل وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہوجائے گی اپنی چند بڑی سیاسی غلطیوں کے باوجود بے نظیر نے جو پایا اس سے زیادہ لوٹایا۔
سندھ کے رہنے والے آج اس کا صرف ظاہری ذکر کرتے اور آصف زرداری کی پیروی کرتے ہیں مگر سندھ کے عوام کو ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر بھٹو نے سیاست کے دھارے میں قائم کیا اور کامیاب کیا جو اب مشکل ہی نظر آتا ہے، نہ وہ وژن ہے نہ وہ عمل نہ وہ خلوص۔ آصف علی زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر رہے اور یہی مطمع نظر بھی تھا، انھوں نے سونیا گاندھی بننا پسند نہیں کیا اورصدر پاکستان کے طور پر پانچ سال گزارے، یہی پانچ سال پاکستان پیپلزپارٹی کی تباہی کے پانچ سال ہیں۔ ن لیگ نے نواز شریف کی قیادت میں تیاری کی اور پھر آصف زرداری اور ان کی تبدیل کردہ پی پی پی کو شکست سے دو چار کردیا۔
آپ قائم علی شاہ کی رخصتی دیکھ لیجیے۔ یہ کام پانچ سال پہلے ہوجانا چاہیے تھا مگر آصف زرداری کو قائم علی شاہ چاہیے تھے۔ آٹھ سال تک۔ کیوں؟ جواب آسان ہے اور وقت اور تاریخ سامنے لادیںگے یہ جواب جلد۔
سیاست میں رشتے داری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یہ بہت ظالم چیز ہے اپنوں کو کھاجاتی ہے سارے بادشاہوں کے ادوار، سیاست سے لبریز ہیں، مگر اب اس کا نقصان پارٹی کوہو رہا ہے اب معجزے نہیں ہوتے اور دنیا بہت ترقی یافتہ سیاست بہت ہنرمند ہوچکی ہے پاکستان میں۔
سب سے کمال کی بات ہے کہ اب پاکستان میں سیاست کا عوام سے کوئی زیادہ تعلق نہیں رہ گیا ہے یہ اب پریس ریلیز، پریس کانفرنس، دھرنے وغیرہ میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس میں ماسٹری پاکستان میں دو جماعتوں کو حاصل ہے۔ نمبر اول MQM تھی جو اب معروضی حالات کے تحت نمبر 2 ہوگئی ہے اور تحریک انصاف نے نمبر ایک حاصل کرلیا ہے اس کا سیاسی سرکس زبردست چل رہا ہے سارا کمال رننگ ماسٹر کا ہے جس کا ماسٹرکوئی اور ہے یا کوئی اور ہیں۔یہ ایک علیحدہ موضوع ہے لہٰذا پھر آتے ہیں مراد علی شاہ کے بیان کی طرف اور چند سوال قائم کرتے اور اس پر غور کرتے ہیں۔
پہلا سوال کیا پی پی پی کا ووٹ بینک پورے ملک میں قائم اور مستحکم ہے؟ جواب ہے نہیں اور تفصیل یہ ہے کہ پنجاب، بلوچستان سے پی پی پی WIPE OUT ہوچکی ہے، نام و نشان باقی نہیں ہے۔ جلسوں پر نہ جائیں وہ تو عمران خان بہت بڑے بڑے کرتے اور ضمنی انتخاب تک ہار جاتے ہیں۔ اب عوام بھی تماشا دیکھنے جاتے ہیں ہر ایک کے جلسے میں ووٹ روایتی اور غیر روایتی طریقے سے وہاں ہی جاتا ہے جہاں اسے جانا ہوتا ہے کون کس کو ووٹ دیتا ہے یہ سب جانتے ہیں اور اس میں کچھ چھپا نہیں ہے ووٹ خود بخود کیسے پڑجاتا ہے PHDکے مقالے کا موضوع ہوسکتا ہے۔
ملیر کی سیٹ مل جانا کوئی خاص بات نہیں ہے وہاں ایک خاص قبیلے کے لوگوں کی اکثریت ہے اور وہ اگر اپنے نمایندے کو ووٹ دے رہے ہیں تو ٹھیک ہے کیا غلط ہے مگر یہ پی پی پی کی کامیابی نہیں ہے ان لوگوں کی کامیابی ہے کیوںکہ ووٹ ڈالنے کی شرح 20% فی صد رہی اور MQM کے ہاتھ باندھ دیے گئے تھے، یہ ان کے حلقوں کا کہناہے۔ 20% فی صد ووٹ پر ویسے بھی یہ کوئی جیت نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے اور 2018 میں حقیقت کھل جائے گی کیوںکہ پیپلزپارٹی کو اندر سے خطرہ ہے آصف علی زرداری اپنے ذاتی اقتدار کے لیے اس پارٹی کو قربان کرچکے، دوسرا سوال کیا سندھ کے عوام کو MERIT کے نام پر کچھ ملا، جواب نہیں! سب ان کو ملا جو سیاست دانوں کے رشتے دار ہیں یا پھر Money Power نے کام کیا ہے لوگوں نے نوکریاں خریدی ہیں اس میں بھی دھوکے ہوئے ہیں اور نوکری خرید کر آنے والے کاروبار کرتے ہیں، نوکری نہیں یہ بات ہم صرف سندھی زبان بولنے والے اندرون سندھ کے لوگوں کی ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ ایک عام رواج بن چکا ہے اور نا اہل افسران اور عملے کی بھرمار ہے ۔ ہر محکمے میں شہروں میں تو خیر بیروزگاری کی کھیپ موجود ہے کوٹہ سسٹم کے تحت بھی یہاں سیاست اثر و رسوخ اور پیسہ استعمال ہو رہا ہے۔ قائم علی شاہ کے دور میں اخبارات اٹھاکر دیکھ لیجیے یہ خبریں موجود ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا پریس کلب کے باہر کی رپورٹنگ موجود ہے۔
کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا صحت و صفائی کے ادارے میٹھی نیند سورہے ہیں تھر کے ساتھ یہ کبھی نہیں ہوا جو قائم علی شاہ کے دور میں ہوا۔
ہر بلاول ہے قوم کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
یہ کل بھی سچ تھا، یہ آج بھی سچ ہے بے نظیر پاکستان پیپلزپارٹی کی آخری روشن شمع تھی، سندھ میں تو ظاہر ہے کہ پی پی کی حکومت رہے گی چاہے کچھ ہوجائے۔ سندھ میں مثالی حکومت قائم کرکے جس میں سندھ کے رہنے والوں خصوصاً اردو سندھی بولنے والے کے درمیان اتحاد سب سے اہم ہے، ملک پر حکومت کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
عوامی وزیراعلیٰ بننا بہت مشکل ہے اس میں بہت نچلی سطح پر کام کرنا پڑتا ہے اور شاید ایسا کرنا مراد علی شاہ کے لیے ممکن نہ ہو دو لیڈران اوپر بیٹھے ہیں ان کے اشارے طاقت ور اور کمزور کے تحت ہی حکومت چل رہی ہے اور یہ کہنا کہ یہ عوامی حکومت ہے خود کو اور عوام کو بہلانا ہی ہے۔ دھوکا دینا ہم نہیں کہیںگے کیوںکہ مراد علی شاہ بہر حال ایک اچھے لیڈر ہیں، کاش ان کے پاس طاقت بھی ہوتی۔
ان حالات میں جو ہم نے عرض کیے یہ خیال کرنا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں یا پنجاب سے اکثریت مل جائے گی تو ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور اگلا مرحلہ بہت قریب ہے الیکشن کا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے Reflexisبہت سست ہیں۔ کچھ سیاسی PUSH UPS لگایئے ورنہ کل ڈوبے کہ آج ڈوبے اب مفاہمت کی ضرورت نہیں رہی دوسروں کی پی پی پی سے اور وہ سیاست میں پنجاب فیکٹر کو بہت اچھی طرح ڈویلپ کرچکے اور تیور یہی ہیں کہ انتشار نہیں دینا وہ لوگ بھی اگر یہ چاہیں تو عمران خان بہت ڈینٹ لگاچکے اور پی پی پی کا دوبارہ ابھرنا ''ایں خیال است و محال است و جنوں است''۔