جمہوریت کی دو رنگی
جنرل یحییٰ نے 1970 میں جو عام انتخابات کرائے تھے ان جماعتی انتخابات کو انتہائی منصفانہ قرار دیا جاتا ہے
ISLAMABAD:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویزمشرف اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں اور ملک میں جمہوریت عام انتخابات کرانے سے نہیں بلکہ شفاف اور منصفانہ انتخابات سے آتی ہے۔ عمران خان اس سے قبل جنرل پرویز کے دور کو موجودہ دور سے بہتر بھی قرار دے چکے ہیں اور وہ موجودہ حکومت کو ن لیگ کی بے انتہا دھاندلیوں کی پیداوار اور 2013 کے عام انتخابات کو غیر شفاف قرار دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان سے صدارتی نظام ختم ہوگیا تھا اور 1973 کے آئین کی منظوری سے قبل یحییٰ خان ملک کے دولخت ہوجانے اور سیاسی دباؤ پر ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف صدر مملکت بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بناکر ملک میں نئی حکومت قائم کر گئے تھے جو ایک سیاست دان کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔
جنرل یحییٰ نے 1970 میں جو عام انتخابات کرائے تھے ان جماعتی انتخابات کو انتہائی منصفانہ قرار دیا جاتا ہے جس میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں بہت بھاری اکثریت بلکہ واضح برتری حاصل کی تھی اور پیپلزپارٹی نے سندھ اور پنجاب میں جب کہ اس وقت کی نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی نے صوبہ سرحد بلوچستان میں اکثریت حاصل کی تھی مگر انتخابات کے نتائج صدر یحییٰ کی توقعات کے برعکس تھے اور انھیں مزید صدر برقرار رہنے کی امید نہیں تھی کیوںکہ عوامی لیگ انھیں کبھی صدر برقرار نہ رکھتی۔ اس لیے انھوں نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور جب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکا میں بلایا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی مخالفت کی اور ادھر ہم ادھر تم کی بات بھی کی۔ اور بھارت نے عوامی لیگ کی حمایت میں مداخلت کرکے سقوط ڈھاکا کرا دیا اور ملک دولخت ہوگیا ۔
اگر 1970 کے انتخابات واقعی شفاف اور منصفانہ تھے تو ان کے نتیجے میں ملک میں حقیقی جمہوریت تو نہیں آئی تھی اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ اس وقت کے فوجی صدر کا خیال تھا کہ منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور زیادہ نشستیں لینے والی پارٹیاں مل کر مخلوط حکومت بنائے گی جن سے جوڑ توڑ کرکے میں خود کو مارشل لا ہٹاکر صدر منتخب کرالوںگا اور پارٹیوں کو مجبوراً مجھے ہی صدر منتخب کرنا پڑے گا۔ 1970 کے انتخابی نتائج کے تحت چونکہ عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی تھی اور اسے حکومت بنانے کا آئینی حق تھا اور عوامی لیگ مغربی پاکستان سے چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملاکر دو تہائی اکثریت سے حکومت بناسکتی تھی جو صدر یحییٰ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو قبول نہیں تھا کیوںکہ یحییٰ صدر برقرار رہنا چاہتے تھے اور بھٹو کو عوامی لیگ کی حکومت میں اپوزیشن میں رہنا پڑتا جب کہ وہ وزیراعظم بننے کے اسی طرح خواب دیکھ چکے تھے جیسا خواب عمران خان نے 2013 میں دیکھا تھا اس وقت بھٹو صاحب صرف پنجاب اور سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھے جو انھیں قبول نہیں تھا۔
عمران خان کا 2013 میں خیال تھا کہ وہ پنجاب اور کے پی کے سے اکثریت لے کر وزیراعظم بن جائیںگے مگر وہ تیسرے نمبر پر رہے تو انھوں نے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا کیوںکہ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی اور وہ وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔
پی ٹی آئی کو صرف پنجاب اور کے پی کے سے جو نشستیں ملی تھیں وہ پیپلزپارٹی سے کم تھیں اور وہ کے پی کے میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ عمران خان کو نواز شریف نے کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع دیا اور وہ چاہتے تو جے یو آئی کی تجویز پر ن لیگ کی مخلوط حکومت بناسکتے تھے مگر انھوں نے مولانا فضل الرحمن کا مشورہ تسلیم نہیں کیا۔ سندھ میں پی پی نے اور پنجاب میں اپنی اکثریت کے تحت تنہا حکومت بنائی اور کے پی کے میں پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاؤ کے ساتھ مل کر اور مسلم لیگ ن نے بلوچستان میں دیگر جماعتوں سے مل کر مخلوط حکومت بنائی جو اب تک کامیابی سے چل رہی ہیں۔
وزیراعظم بننے کے خواہش مند عمران خان کو بلوچستان میں کوئی نشست نہیں ملی اور کراچی سے صرف چند قومی و صوبائی نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ نواز شریف اور عمران خان دونوں نے پنجاب اور کے پی کے میں کامیاب انتخابی مہم چلائی اور دونوں نے سندھ و بلوچستان کو نظر انداز کیا۔ بلوچستان میں جو بڑے لوگ مسلم لیگ ن اور ق کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے جن میں ن لیگ کی نشستیں سب سے زیادہ تھیں۔ ایسی صورت حال میں پی ٹی آئی تو پیپلزپارٹی سے بھی پیچھے تھی مگر عمران خان سے ن لیگ کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی اور انھوں نے کے پی کے میں حکومت بنانے کے بعد ن لیگ پر دھاندلی کے ذریعے وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے الزامات لگانا شروع کیے اورمسلم لیگ ن پر 35 پنکچر لگانے کے الزامات میں لیگی رہنماؤں اور لودھراں کے حلقوں میں دھاندلیوں پر اٹکے رہے اور الیکشن کمیشن کے ذریعے ایاز صادق اور جہانگیر ترین کے حلقوں میں دوبارہ انتخاب کرانے میں کامیاب تو رہے مگر لاہور اور سیالکوٹ کے خواجاؤں کے حلقوں میں اب تک دوبارہ الیکشن کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے اور لاہور اور لودھراں کے دوبارہ انتخابات کو اپنی کامیابی قرار دیتے تھے جن میں دوبارہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کوکامیابی ملی۔
عمران خان 2013 کے ضمنی الیکشن میں پشاور اور میانوالی میں اپنی چھوڑی ہوئی نشستیں بھی ہار گئے تھے شاید ملک کے عوام نے انھیں مسترد کرنا شروع کردیا تھا۔ عمران خان کے سوا کسی اور پارٹی نے انتخابی دھاندلی کا زیادہ شور نہیں مچایا اور بعد کے ضمنی الیکشن میں زیادہ تر ن لیگ ہی کامیاب ہوتی رہی۔ 1970 کے بعد 2013 تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ان میں ہمیشہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہارنے پر دھاندلیوں کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کرتی رہیں اور اکثریت ملنے پر حکومتیں بھی بناتی رہیں اور 2013 میں پی ٹی آئی تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی اور پہلی دفعہ کے پی کے میں اپنی حکومت بنا پائی۔
تین سال تک عمران خان نے انتخابی سیاست دھاندلیوں پر جاری رکھی اور پانچ ماہ سے ان کا زور پانامالیکس پر ہے اور اب ان کا سارا زور وزیراعظم کی مبینہ کرپشن پر ہے جس پر اب وہ رائے ونڈ میں جلسہ اور دھرنا دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی گرتی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ وہ لاہور و کراچی کے ناکام جلسوں کے بعد چیچہ وطنی کی اپنی نشست بھی ہار گئے ہیں مزید پتہ 30 ستمبر کو رائے ونڈ میں چل جائے گا۔
یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ ہر جگہ، ہر با اثر شخص دھاندلی کرکے کامیابی حاصل کرتا ہے اور کسی بھی اسمبلی میں کوئی ایک رکن بھی فرشتہ نہیں ہے کوئی بڑا تو کوئی چھوٹا چور ہے۔ 2018ء میں بھی عمران خان کو نواز شریف کی کامیابی کا خطرہ ہے اور اب تک ہر جمہوری حکومت میں شخصی آمریت رہی ہے ۔ فوجی جنرلوں کی حکومتیں عوامی معاملات میں سیاسی حکومتوں سے بہتر بھی تھیں اور آصف زرداری کے بعد موجودہ سیاسی حکومت سے عوام کو تو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔