ہلیری اور ٹرمپ آمنے سامنے
ٹرمپ امریکا کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے اور ساتھ میں احمقانہ وعدے بھی کر رہا ہے
میرے اندازے کے مطابق ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی نامزدگی کے لیے تین تقاریر میں سے پہلی تقریر کو 100 ملین (دس کروڑ امریکی عوام) نے سنا۔ یہ سوموار 26 ستمبر کی شام تھی۔ اس موقع پر آیندہ آنے والے صدور کی تقاریر نے سامعین اور ناظرین میں بہت زیادہ جوش و خروش بھر دیا تھا۔
ریپبلکن پارٹی میں میرا ایک دوست ہے فرینک نیومین جو ٹرمپ کا حامی تھا لیکن ٹرمپ کی تقریر سن کر اس کی حمایت ڈھیلی پڑتی نظر آنے لگی۔ گزشتہ تین دہائیوں میں امریکی صدارتی امیدواروں میں یہ دونوں سب سے زیادہ نا مقبول امیدوار تھے جب کہ امریکی عوام بھی تقسیم در تقسیم اور غیریقینی کا شکار ہیں۔
ری پبلکنز کی اکثریت محسوس کرتی ہے کہ ٹرمپ امریکا کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے اور ساتھ میں احمقانہ وعدے بھی کر رہا ہے جیسے میکسیکو کی سرحد پرایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی اور مسلمانوں کے امریکا میں داخلہ پر پابندی لگا دی جائے گی۔
پہلے 20 منٹ کو ٹرمپ نے خوب جم کو تقریر کی مگر اگلے گھنٹے میں ٹرمپ کی تمام خامیاں اور کمیاں اظہر من شمس ہو گئیں۔ ٹرمپ ادھر ادھر کی ہانک رہا تھا اور اس کے پاس پوچھے جانے والے سوالوں کا کوئی صحیح جواب نہ تھا۔
اپنے اقتدار میں آنے کے بعد کے ارادوں کے بارے میں بھی وہ واضح نہیں تھا ان دونوں کی تقاریر کا ماڈریٹر یسٹر ہالٹ تھا لیکن وہ بھی ٹرمپ کو ہلیری کی تقریریں بار بار مداخلت کرنے سے باز نہ رکھ سکا۔ ٹرمپ جو سوال اپنی مد مقابل ہلیری کلنٹن سے کرتا تھا اس کا جواب دینے کے لیے اصرار نہیں کرتا تھا حالانکہ اسے ایسا کرنا چاہیے تھا۔
تقریروں کے بعد جب دونوں صدارتی امیدواروں کی تقاریر کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ ٹرمپ نے جو دعوے کیے ہیں ان میں سے 80 فی صد غلط تھے۔ اس کے باوجود سفید نام امریکیوں کی طرف سے اس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ غیر سفید فاموں کے خلاف انتہا پسندانہ نظریات کا حامل ہے جو کہ سفید فاموں کے خیالات سے مطابقت رکھتا ہے۔
دوسری جانب ہلیری کلنٹن چونکہ دو مرتبہ امریکا کی خاتون اول اور ایک مرتبہ سیکریٹری آف اسٹیٹ یعنی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہے اس لیے وہ ایوان اقتدار کی اندرونی کہانیوں سے بخوبی آگاہ ہے جب کہ اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں اس وقت تک 33000 ای میلز آ چکی ہیں جن میں اس کی حمایت کی گئی ہے لیکن امیدواروں کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالنے والوں میں سے 55 فی صد نے ہلیری پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اپنے وفاقی ٹیکس کی اطلاعات کو اس شرط پر عام کر سکتا ہے اگر ہلیری بھی ایسا کرے۔ ممکن ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے اپنے اثاثوں کے انکشاف کے بعد اس کی حد سے زیادہ امارت کا پول بھی کھل جائے جب کہ وہ ان ممالک کے ساتھ بھی تجارت کرتا رہا ہے جو کہ امریکا کے دوست نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کی کمپنیاں چھ مرتبہ دیوالیہ ہونے کا اعلان بھی کر چکی ہیں۔
یہ بات حیران کن ہے کہ زیادہ ترووٹروں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ صدارتی انتخابات میں کونساامیدوار کامیاب ہو گا جب کہ زیادہ تر ووٹروں کا کہنا ہے کہ انھیں زیادہ مزا اپنے امیدوار کے جیتنے پر آئے گا۔ ٹرمپ کے کیمپ سے کچھ لوگوں نے میڈی ایٹر یسٹر ہالٹ پر نکتہ چینی کی اور اس پر الزام لگایا کہ وہ ہلیری کے بجائے ٹرمپ پر زیادہ دباؤ ڈالتا رہا ہے۔
ہلیری کلنٹن نے بڑی کامیابی سے ٹرمپ کے ہر وار کا مناسب جواب دیا۔ اس سے قبل ٹرمپ کے کیمپ نے ہلیری کی سیاسی اور انتظامی تربیت کی تعریف کرتے ہوئے اس کا پلڑا بھاری کر دیا تھا اور اس طرح جان بوجھ کر ٹرمپ کا پلڑا ہلکا رکھا تاکہ حتمی مقابلے کے لیے ہلیری کو اور زیادہ اونچی چھلانگ ''ہائی جمپ'' لگانی پڑے۔
پرائمریز کے دوران ٹرمپ نے جارحانہ اور متکبرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے تمام مخالفین کو ناک آؤٹ کر دیا تھا لیکن ہلیری نے اپنے ووٹروں کے ساتھ ایک ایسا جذباتی رشتہ قائم کر لیا ہے جو ٹرمپ کے بس کی بات نہیں۔ جیسے میں نے بتایا کہ ریپبلکن پارٹی کا ایک نہایت اہم رکن میرا گہرا دوست ہے یعنی فرینک نیومین جس نے مجھے ظہرانے کی دعوت دی اور مجھے بڑے منطقی انداز سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آخر کار ٹرمپ کیوں جیت جائے گا۔
اس کا کہنا تھا کہ ریپبلکن ووٹر موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے سخت خلاف ہیں اور امریکا کی سفید فام آبادی مکمل طور پر ٹرمپ کے ساتھ ہے لہٰذا اسے 67-69 فیصد ووٹ ملیں گے۔ اگر ہسپانوی' سیاہ فام اور ایشیائی ووٹ کم بھی ہوا اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو گی۔ بنا بریں یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ بھاری اکثریت سے جیتے گا۔ دوسری طرف ہلیری کو سفید فام عورتوں کے ووٹ زیادہ پڑیں گے۔
ہلیری اور ٹرمپ کے مابین تقریری مقابلے سے قبل ایک قومی سروے میں بتایا گیا تھا کہ سیاہ فام امریکی 80سے 90 فی صد ٹرمپ کے خلاف ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ 60 سال کے دوران کسی ریپبلکن امیدوار نے سیاہ فاموں کا پندرہ فیصد سے زیادہ کبھی ووٹ نہیں لیا۔ 2012ء کے الیکشن میں اوباما نے 65.9 ملین ووٹ لیے۔ اس کے مقابلے میں ٹیڈ رومنی کے ووٹ 60.9 ملین تھے۔
93 ملین لوگ جو ووٹ دے سکتے تھے انھوں نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ فرینک نیومین بہت ماہر سیاسی مبصرہے۔ اس کے خیال میں جیتنے کے لیے 272 الیکٹورل ووٹ کی ضرورت ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اوہائیو' پنسلوانیا' کولوراڈو اور مشی گن میں دونوں کا مقابلہ بہت قریب قریب ہو گا جب کہ فلوریڈا تمام کا تمام ٹرمپ کے ہاتھ میں جائے گا۔
فرینک کے تجزیے سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 8 نومبر کو ہونیوالے صدارتی انتخاب میں ہلیری کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں اور اگر امریکا میں دہشتگردی کا کوئی اور واقعہ درپیش آ گیا تو ہلیری کی ہار یقینی ہے لیکن سی این این نے ہلیری کی جیت کے 72 فیصد امکانات جب کہ ٹرمپ کے لیے صرف 27 فیصد امید کا اظہار کیا ہے۔