کیا بھارتی فوج پاکستان سے لڑنے کو تیار ہے

مودی ا ور ان کے جنگجو ساتھی پاکستان کو تنہا کرنے کی بات کرکے خود بھارتیوں کی نظر میں مذاق بن گئے


عبید اللہ عابد October 02, 2016
کنٹرول لائن پر پاک فوج سے چھیڑچھاڑ کا خیال اب دل سے نکال دینا ہی بہتر ہوگا، جنرل دلبیر سنگھ۔ فوٹو: فائل

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور ان کے ساتھیوں کے حالیہ جنگجویانہ بیانات کے بعد اس سوال پر خوب بحث مباحثہ ہورہاہے کہ آیا بھارت پاکستان سے جنگ کرنے کی ہمت رکھتاہے یا نہیں؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے انٹرنیٹ پر موجود ایک ویڈیو کلپ کا ذکر کرتے ہیں جو غیرمعمولی طورپر مقبول ہورہا ہے، اس میں بھارتی فوج کا ایک دستہ پریڈ کررہاہے لیکن ایسے جیسے رقاصائیں ٹھمکے لگا رہی ہوں۔ ویڈیو کلپ کے ساتھ طنزیہ اور مزاحیہ اندازمیں لکھاگیاہے کہ بھارتی فوج پاکستان سے جنگ کی تیاری کررہی ہے۔

یقیناً بھارتی فوج ہمہ وقت 'ٹھمکا پریڈ' نہیں کرتی، اس نوعیت کی پریڈ تفریح کے لمحات میں کی ہوگی تاہم اگر بھارتی افواج کے مجموعی حالات دیکھے جائیں تو یہ ویڈیو مبنی بر حقیقت لگتی ہے۔ بھارتی فوجی اچھے بھلے رقص و سرود سے دل بہلا رہے تھے لیکن جب ان کے وزیراعظم نے پاکستان سے جنگ کی باتیں کیں تو ایک بڑی تعداد میں فوجیوں نے چھٹی کی درخواستیں دینا شروع کردیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارتی فوج جنگ کے لئے تیار نہیں ہے۔

مودی نے پاکستان کے خلاف جنگجویانہ بیان بازی کرکے فوجی کمانڈروں کا اجلاس بلایا، اس میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر دفاع منوہر پاریکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ سمیت اہم حکام شریک ہوئے۔

بھارتی وزیراعظم مودی اور ان کے مشیر اجیت دوول نے فوجی کمانڈرز سے پاکستان کے خلاف جنگ کے آپشنز مانگے تو جنرل دلبیر سنگھ نے کہا کہ پاکستان نے کنٹرول لائن پر دفاعی انتظامات مزید مضبوط بنا لیے ہیں، کنٹرول لائن پر پاک فوج سے چھیڑچھاڑ کا خیال اب دل سے نکال دینا ہی بہتر ہوگا۔

جنرل دلبیر سنگھ نے اجلاس کو بریفنگ دی کہ انہوں نے فیلڈ کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں اور خود کنٹرول لائن کا بھی جائزہ لیا ہے۔ کوئی بھی ایڈونچر خود بھارت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اجلاس میں فضائیہ کے سربراہ اروپ اراہا شریک نہیں تھے جس کا واضح مطلب ہے کہ فضائی کارروائی کا کوئی آپشن زیر غور نہیں۔ بعض عسکری ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کا وقت گزر گیاہے، وہ جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوچکاہے۔

بین الاقوامی جریدہ'' اکانومسٹ'' نے بھارتی فوج کی حالت پر لکھاہے کہ ایک بڑی فوج کا حامل ہونے کے باوجود بھارتی دفاعی اعتبار سے اتنا مضبوط نہیں جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے بین الاقوامی عزائم اس کی معیشت میں بہتری کے ساتھ وسیع ہوتے جا رہے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت اپنی دفاعی طاقت میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بھارتی افواج عددی اعتبار سے مضبوط دکھائی دیتی ہیں اور چین کے بعد بھارتی فوج دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے۔

2010 میں بھارت اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اس نے روس، اسرائیل، فرانس اور امریکہ سے جدید سامانِ حرب خریدا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مقامی دفاعی صنعت بھی کافی فعال ہے اور ملک میں ایئر کرافٹ کیریئر بھی تیار کیا جا رہا ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھارت کی دفاعی قوت میں نقائص ہیں۔ اس کا بیشتر اسلحہ یا تو بہت پرانا ہے یا اسے مناسب دیکھ بھال میسر نہیں۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے دفاعی امور کے ماہر اجے شکلا کاکہنا ہے: ''ہمارا فضائی دفاع کا نظام نہایت بری حالت میں ہے۔ زیادہ تر اسلحہ 70 کی دہائی سے زیرِ استعمال ہے اور فضائی دفاع کا نیا نظام نصب کرنے میں شاید دس سال لگ جائیں۔''

اعدادو شمار کے حوالے سے تو بھارتی فضائیہ 2000 لڑاکا طیاروں کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی ایئر فورس ہے لیکن 2014 ء میں دفاعی جریدے' آئی ایچ ایس جینز' کے ہاتھ لگنے والی انڈین ایئرفورس کی ایک اندرونی رپورٹ کے مطابق صرف 60 فیصد طیارے اڑنے کے قابل ہیں۔

سال رواں کے شروع میں منظرعام پر آنے والی ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارتی بحریہ کے زیرِ استعمال 45 مگ طیارے جن پر بھارت کو بہت فخر ہے، ان طیاروں میں سے صرف 16 سے 38 فیصد طیارے اڑنے کے قابل ہیں۔

انڈیا ان طیاروں کو ملک میں زیر تعمیر ایئر کرافٹ کیریئر سے اڑانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس ایئرکرافٹ کیریئر پر 15 سال قبل کام شروع ہوا تھا اور اسے 2010 ء میں مکمل ہونا تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ 2023 ء سے قبل اس کا مکمل ہونا ممکن نہیں ۔ بھارتی فوج میں اور بھی بہت سے کام التوا کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت 1982ء سے فوجی جوانوں کے زیرِ استعمال بندوق کو اپ گریڈ کرنے کا سوچ رہا ہے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوسکا۔

گزشتہ 16 برس سے بھارت اپنی فضائیہ کو جدید طیاروں سے لیس کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ضرورت سے زیادہ جدید سسٹمز کا مطالبہ اور مناسب قیمت کی ادائیگی میں لیت و لعل کے سبب غیر ملکی دفاعی کمپنیاں بھارت کے مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہیں''۔

بھارتی فوج میں بدعنوانی بھی ایک مسئلہ رہا ہے، ماہرین یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی کے باوجود جنگجو بار بار بھارتی فوج کے اڈوں میں گھسنے میں کیسے کامیاب ہوجاتے ہیں؟ حال ہی میں ترقی کے معاملات پر بھارتی جرنیلوں کے مابین قانونی جنگیں بھی دیکھنے کو ملی ہیں اور اس سال اگست میں آسٹریلیا کے ایک جریدے نے بھارت کی ایک آبدوز سے متعلق خفیہ دستاویزات بھی شائع کی تھیں۔

اجے شکلا کے مطابق:'' بھارتی افواج کے ساتھ انتظامی مسئلہ بھی ہے اور بّری، بحری اور فضائی فوج میں تعاون کا فقدان ہے۔ ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی جاتی اور وزارتِ دفاع میں موجود سویلین فوجی حکام سے بات نہیں کرتے''۔ ان کا مزید کہنا ہے:'' حیران کن طور پر وزارتِ دفاع میں کوئی فوجی تعینات نہیں ہے اور ملک کی دیگر وزارتوں کی طرح دفاع کی وزارت بھی سویلین افسران چلاتے ہیں جن کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جو بیلسٹک سے زیادہ بیلٹنگ پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوتے ہیں۔ سو بھارتی افواج کا اگرچہ حجم تو بڑھ رہا ہے لیکن ان کی ذہنی صلاحیت کم ہے''۔

بھارتی فوج میں خودکشی کا رجحان دنیا کے متعدد ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیونکہ وہ شدید نفسیاتی عوارض کی شکار ہے۔ ایسے میں یہ دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ جنگ کے میدان میں جانے کی ہمت کرسکتی ہے۔ خودکشی کے واقعات میں تسلسل سے اضافہ ہورہاہے۔

ہر سال خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد 100سے بڑھ جاتی ہے حالانکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ان خودکشیوں کو روکنے اور فوجیوں کو ذہنی دباؤ سے نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاچکی ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں بھارتی فوج میں خودکشی کرنے والوں کی تعدادچھ سو سے زائد ہوچکی ہے۔

یہ رپورٹ راجیہ سبھا میں پیش کی گئی جس میں وزارت دفاع نے اعتراف کیا کہ حکومت فوجیوں کو بہتر ماحول دینے کے لئے مختلف اقدامات کرچکی ہے تاکہ وہ اپنے فرائض بغیر کسی ذہنی دباؤ کے سرانجام دیں۔

ان کی رہائشی اور کام کرنے کا ماحول بہتر بنایا، اچھا انفراسٹرکچر دیا، سہولیات کو مزید بہتر کیا، انھیں فیملی اکاموڈیشن بھی فراہم کی، چھٹیاں بھی زیادہ سہولت سے دیں، ان کی نفسیاتی کونسلنگ کی گئی، بٹالین اور یونٹ کے معمولات میں یوگا اور مراقبے بھی شامل کرائے گئے تاہم یہ ساری کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق خودکشیوں کا سب سے زیادہ رجحان زمینی فوج میں ہے۔ شدید ذہنی دباؤ کے شکار فوجی اپنے ساتھیوں کو قتل یا زخمی کردیتے ہیں یا پھر خودکشی کرلیتے ہیں، افسر اور جوانوں کے درمیان شدید لڑائیوں کے واقعات بھی روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

بھارتی فوجیوں کے ذہنی عوارض کا سبب کیا ہے؟ رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں کو اپنے علاقوں سے بہت دور دراز کے علاقوں میں تعینات کیا جاتاہے، ان کے خاندان بدترین مسائل سے دو چار ہوتے ہیں، اکثریت جائیدادوں کے جھگڑوںمیں الجھی ہوتی ہے، بعض فوجیوں کے خاندانوں کو جرائم پیشہ گروہوں کے ظلم واستحصال کا سامنا بھی ہے، معاشی تنگدستی بھی ایک بڑا المیہ ہے جبکہ فوجیوں کی بڑی تعداد ازدواجی جھگڑوں کی وجہ سے بھی پریشان رہتی ہے۔ ایسے فوجی اپنے آپ کو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں تاہم حکام ان کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

مسٹر مودی اپنے ان فوجیوں کو پاکستان سے کیسے لڑائیں گے جو(ٹائمر آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق) مقبوضہ کشمیر اور شمالی مشرقی ریاستوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ معمولی تنخواہوں کے عوض کیوں خطرناک علاقوں میں جائیں جہاں ہرلمحہ عسکریت پسندوں کے حملوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ انھیں بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا بھی ہے اور ان کی قیادت بھی ایسی ہے جن کی اوپر والے مانتے ہی نہیں ہیں۔

افسران جب جوانوں کو گالیاں بکتے ہیں تو ان کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے۔ ان کے پاس ایسے افسر پر جھپٹ پڑنے یا پھر خود کشی کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ اس کے مقابل پاکستانی فوجی ایسے کسی بھی مسئلے کا شکار نہیں ہیں، خودکشیاں نہ ہی افسروں اور جوانوں کے درمیان جھڑپیں۔ دیگر پہلوؤں میں بھی ان کا بھارتی فوج سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف جنگجوئی کا ماحول بنا کر کیا حاصل کیا ہوا؟ اس نے خطے اور دنیا میں اپنا ہی تاثر خراب کیا ہے۔ بھارت نے ''اڑی'' کے حوالے سے جو شواہد امریکہ کو فراہم کئے ہیں، وہ امریکی حکام کو مطمئن نہیں کرسکے۔ امریکہ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دونوں اطراف میں بھاری تعداد میں بارڈر فورس موجود ہے، ایسے میں کسی کا لائن آف کنٹرول پار کرنا اور حملہ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔

بھارتی پراپیگنڈے کے باوجود امریکی حکام نے پاکستانی موقف کو مبنی بر وزن محسوس کیا۔ اس کا اندازہ وزیراعظم نوازشریف اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کے درمیان ملاقات کی تفصیل سے ہوتاہے جس میں جان کیری نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و تشدد پر گہرا افسوس ظاہر کیا۔ امریکی دفترخارجہ کی طرف سے جو بیان جاری کیاگیا ہے اس میں بھارتی موقف کی حمایت نہیں کی گئی۔

امریکی بھی خیال کرتے ہیں کہ اس واقعے کا تعلق سرحد پار سے نہیں بلکہ بھارتی فوج کے تشدد کا نتیجہ ہوسکتاہے۔ پاکستان نے امریکہ کو باور کرایاہے کہ بھارت نے جارحیت کی تو اسے لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو جنگ سے باز رہنے کی ہدایت کی ہے۔امریکہ نے دونوں ملکوں سے کہاہے کہ وہ کشمیر سمیت تمام مسائل تشدد کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے حل کریں۔

امریکہ کی طرف سے حمایت نہ پا کر بھارتی قیادت نے بھی اپنا لہجہ تبدیل کرلیاہے، اب مودی غربت کے خاتمے کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کو سفارت کاری کے ذریعے تنہا کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ ان کی طرف سے ''پاکستان کو تنہا کرنے'' کی باتوں پر خود بھارتی ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

بھارتیوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی قیادت سے سوال کررہی ہے کہ روس جیسا دیرینہ بھارتی رفیق پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کررہاہے، بھارت نے اسے روکنے کی ہزار بار کوشش کی لیکن روسی فوجی دستہ پاکستان پہنچا اور اس وقت مصروف عمل ہے، انڈونیشیا نے پاکستان کو دفاعی اسلحہ فراہم کرنے کی پیش کش کردی ہے، بھارتی پیسہ سے چاہ بہار کی بندرگاہ بنانے والا ایران ' سی پیک' کا حصہ بننے کا خواہش مند ہے۔

چین کا کہناہے کہ وہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کا حامی ہے، آرگنائزیشن آف دی اسلامک کواپریشن ( او آئی سی) نے بھی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی حمایت کردی ہے، ترکی نے مقبوضہ کشمیر میں فیک فائنڈنگ مشن بھیجنے کا اعلان کردیاہے، عرب ممالک نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر حل کرے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر برطانوی، جاپانی اور دیگر متعدد ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں اور انھیں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا، برطانوی آرمی چیف جنرل نک کارٹر نے کہاہے:'' پاکستانی اور برطانوی افواج کے مابین مضبوط تعلقات ہیں، دونوں دہشت گردی کے خلاف ایک صفحہ پر ہیں، میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جو پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کی قائدانہ صلاحیت کے معترف ہیں''۔

نیپال پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بڑھانا چاہتاہے، امریکہ نے ''اڑی حملہ'' کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے سے انکار کردیاہے، ایسے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی باتیں مذاق ہی ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اب اپنا تھوکا چاٹ رہی ہے اور دبے لفظوں میں اعتراف کررہی ہے کہ ''اڑی حملے'' کے فوراً بعد پاکستان پر الزام عائد کرنا غلطی تھی۔

آخر میں معروف بھارتی اخبار' ٹائمز آف انڈیا ' کے شبھ دیپ چکرورتی کی بات جو انھوں نے بعض پاکستانی سفارت کاروں کی آڑ لے کر لکھی ہے کہ جنگ بھارت کی معیشت کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دے گی۔ اگرچہ بھارت پاکستان کا دنیا میں تنہا کرنے کی دھمکیاں دے رہاہے لیکن جنگ کے نتیجے میں وہ خود تنہا ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔